اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے متعلق متفرق درخواست غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نٹادی۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالہ سے معاملے پر سپریم کورٹ کی طرف دیکھنے کے بجائے پارلیمنٹ جائیں۔ قانون سازی کرنا حکومت نہیں بلکہ پارلیمنٹ کاکام ہے۔کوئی چیز مکمل نہیں ہوتی اس میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی ہوتی ہیں۔
سینٹر حامد خان اپنی پارلیمانی کمیٹی میں معاملہ لے جائیں اور پارلیمنٹ کو فنگشنل کریں۔ ہم کس کو ہدایات جاری کریں گے۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالہ سے پائلٹ پراجیکٹ پر عمل کرکے رپورٹ پارلیمنٹ میں جمع کروادی اور اب معاملہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے منظوری کے لئے موجود ہے۔
جبکہ بینچ نے سپریم کورٹ کے سابق جج سید مظاہر علی اکبرنقوی کی شوکاز نوٹس کے خلاف دائر درخواست عدم پیروی کی بنیاد پرخارج کر دی۔جبکہ بینچ نے پنجاب میں میگاپراجیکٹس کے حوالہ سے کیس بھی نمٹادیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل7رکنی بینچ نے ورکرز پارٹی اوردیگر کی جانب سے پاکستان میں انتخابی نظام اورقومی اسمبلی کے انتخابات کے حوالہ سے دائر2 درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں وفاق پاکستان اوردیگر کوفریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزار وںکی جانب سے حامد خان ایڈووکیٹ اور عابد حسن منٹو بطور وکیل پیش ہوئے۔
جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اسپیشل سیکرٹری محمد ارشد، ایڈیشنل ڈائریکٹر خرم شہزاد چوہدری اوردیگر پیش ہوئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ نیاالیکشن ایکٹ 2017آگیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہرکاکہنا تھا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ (روپا)کوہم الیکشن ایکٹ نہیں بناسکتے، اگر عدالتی حکم کے مطابق 2017کے ایکٹ میں کوئی شک نہیں تواِس معاملہ کوچیلنج کرسکتے ہیں، کیسے ہم روپا کولاسکتے ہیں ختم کرسکتے ہیں۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ 2004میں درخواست واپس لے لی گئی تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ نئی درخواست دائر کرسکتے ہیں۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلہ پرعملدرآمد چاہتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاحامد خان کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کہ فیصلے میں لکھا ہے آپ نے الیکٹرانک ووٹنگ کی مخالفت کی تھی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کااسپیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کب تک پائلٹ پروجیکٹ کریں گے۔ اس پر اسپیشل سیکرٹر الیکشن کمیشن محمد ارشد نے بتایا کہ الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالہ سے پراجیکٹ 2018کے انتخابات کے ہوگیا تھا اور اس حوالہ سے رپورٹ پارلیمنٹ میں جمع کروادی تھی جو کہ زیرالتواہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنی پارلیمانی کمیٹی میں معاملہ لے جائیں اور پارلیمنٹ فنگشنل کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالہ سے پائلٹ پراجیکٹ پر عمل کرکے رپورٹ پارلیمنٹ میں جمع کروادی اور اب معاملہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے منظوری کے لئے موجود ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کی طرف دیکھنے کے بجائے پارلیمنٹ جائیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم کس کو ہدایات جاری کریں گے۔ وکیل ورکرز پارٹی عابد حسن منٹو کا کہنا تھا کہ کسی کوہدایت نہیں دیں گے بلکہ حکومت سے پوچھیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ قانون سازی کرنا حکومت نہیں بلکہ پارلیمنٹ کاکام ہے۔جسٹس جما ل خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت معاملہ ختم ہو گیا کیسے متفرق درخواست پر یہ معاملہ دوبارہ چل رہا ہے، کوئی اس حوالہ سے قانون بتادیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہمیں یہاں اس معاملہ کوبند کرنا چاہیئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاعابدحسن منٹو سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ روپا اور 2017الیکشنز ایکٹ کا موازنہ کرنے کے بعد کوئی درخواست دائرکرنا چاہیں توکردیں۔
عابد حسن منٹو کاکہنا تھا کہ میں 10،12سال میں کافی سمجھدارہوگیا کہ یہ معاملات آئین کے آرٹیکل 184-3یا199کے تحت حل نہیں ہوتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کوئی چیز مکمل نہیں ہوتی اس میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اسپیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پائلٹ پراجیکٹ کرکے رپورٹ پارلیمنٹ میں جمع کروادی گئی ۔ عدالت نے درخواستیں نمٹادیں۔جبکہ بینچ نے پنجاب میں میگاپراجیکٹس کے حوالہ سے کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب وسیم ممتاز ملک نے بتایا کہ مین کیس اورنج لائن ٹرین منصوبہ کے حواالہ سے تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ کلاسک کیس ہے۔ وسیم ممتاز ملک کاکہنا تھا کہ اورنج لائن منصوبہ بن گیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا کیس کنٹریکٹر کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی۔ اس پر وسیم ممتاز ملک کاکہنا تھا کہ نہیں ہوئی، شاہد حامد او رنعیم بخاری کے مئوکلین نے ایک، ایک ارب روپے کے چیک لے لئے تھے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اصل مسائل اورایشوز حل ہوگئے یہ پتانہیں کیاایشوز تھے۔ جسٹس امین الدین خان کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ تمام منصوبے مکمل ہو گئے۔ بینچ نے کیس نمٹادیا۔ جبکہ بینچ نے اراکین اسمبلی کی تاحیات نااہلی کے خلاف میر محمد امین عمرانی کی جانب سے دائر پرسماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان نے پیش ہوکربتایا کہ یہ معاملہ حمزہ رشید والے کیس میں حل ہوگیاہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اس کیس کافیصلہ میں نے لکھاہے۔ جبکہ بنچ نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے برطرف کئے گئے جج سید مظاہر علی اکبر نقوی کی جوڈیشل کونسل کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت مظاہر علی نقوی کے وکیل سعد ممتاز ہاشمی نے پیش ہوکربتایا کہ میرا مظاہر علی اکبر نقوی سے رابطہ نہیں ہو سکا، عدالت موکل سے رابطے اور ہدایات کیلئے مہلت دے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیس میں کوئی نئی چیز نہیں ہے، شوکاز نوٹس کے خلاف کونسل کا تو فیصلہ آ چکا ہے، کوئی نئی چیز کرنا چاہیں توکرسکتے ہیں۔
عدالت نے شوکاز نوٹس کے خلاف درخواست عدم پیروی پر خارج کر دی۔جبکہ بینچ نے اسلام آباد میںسوئمنگ پول کمپلیکس کی ریگولرائزیشن کے معاملہ پر سپریم کورٹ کے 4دسمبر2018کے فیصلہ پر عملدرآمد نہ کرنے کے معاملہ پرسماعت کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پیسے جمع ہوگئے، کہاں کے پیسے تھے ڈیم فنڈ میں جمع ہوگئے، جب سی ڈی اے کہہ رہا ہے کہ ہمارے پیسے نہیں توکیا اگر کوئی ڈیم فنڈ میں پیسے نہیں دینا چاہتا تویہ پیسے واپس نہیں ہونے چاہیں۔ درخواست گزار نے بتایا کہ ساڑھے 4کروڑ روپے اس نے ڈیم فنڈ میں جمع کروائے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کسی کوسی ڈی اے کی جانب سے بلوالیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایشوکیا تھا اورشروع کیسے ہوا بتادیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا اسداللہ خان کاکہنا تھا کہ یہ ریگولرائزیشن کاایشو تھا ،
سی ڈی اے رقم کادعویٰ نہیں کررہا تھا تویہ رقم ڈیم فنڈ میں جمع کروائی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہم سی ڈی اے کوسننا چاہیں گے کیوں کہ ریگولرائزیشن سی ڈی اے نے کرنی ہے۔ درخواست گزار کاکہنا تھا کہ میں نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کردیا ہے اس لئے کیس نمٹادیا جائے۔ درخواست گزارکاکہنا تھا کہ سوئمنگ پول کمپلیکس کامعاملہ ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے چیئرمین سے دوہفتے میں رپورٹ طلب کی گئی تھی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگرہم کیس بند کردیں اورپھر سی ڈی اے کوئی ایکشن لے توپھرکیاہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر درخواست گزار حکومت سے ڈیم فنڈ میں مرضی کے خلاف جمع کروائے گئے پیسے واپس لینا چاہیں تولے سکتے ہیں۔ اس موقع پرایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے بتایا کہ رقم اسٹیٹ بینک کومنتقل ہو گئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا چھ پارکنگ پلازے بلیو ایریا میں بنادیئے۔ عدالت نے کیس نمٹادیا۔