مذہبی کارڈ


پاکستان کے آئین کو اگر شروع سے آخر تک پڑھا جائے تو کوئی بھی صاحبِ علم ایک نتیجے پر ضرور پہنچتا ہے کہ اس آئین کے تحت اس مملکتِ خداداد پاکستان میں اسلام اور نفاذِ اسلام کے سوا جو بھی سیاست ہو گی وہ غیر آئینی ہو گی۔ مقننہ یعنی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت پورا ملک چلتا ہے۔عدلیہ ہو یا بیوروکریسی، فوج ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی، سب کے سب پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔ قانون کے دائرے سے باہر صرف اور صرف لاقانونیت ہے، خواہ ایسا کوئی منصبِ عدل پر بیٹھا ہوا منصف کرے یا طاقت کے نشے میں بدمست صاحبِ اختیار۔ پاکستان کا آئین، اس پارلیمنٹ کو قانون بناتے وقت اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکامات کا پابند بناتا ہے۔ دستورِ پاکستان کی دفعہ 227 کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔
آئینِ پاکستان کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے ہر دوسرے روز کوئی طالع آزما سیاستدان، مذہب بیزار کالم نگار یا جدیدیت پرست اینکر یہ بحث چھیڑ دیتا ہے کہ سیاست میں مذہبی کارڈ استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ جس ملک کے دستور کے مطابق قانون سازی کیلئے آپ کو قرآن و سنت کا علم ہونا ضروری ہے، اس ملک میں یہ نعرہ کس قدر عجیب لگتا ہے۔ ایسے لگتا ہے ہم انیسویں صدی کے فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں جی رہے ہیں، جہاں مذہب کو دیس نکالا دینے اور اسے کاروبارِ ریاست سے علیحدہ کرنے کا غلغلہ بلند ہوا تھا اور پھر آہستہ آہستہ تمام یورپی ممالک نے مذہب کو اپنی سیاست سے نکال کر سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تو سارا تشخص ہی ایک نظریاتی اسلامی ریاست کا ہے۔ اس مملکتِ خداداد پاکستان جو ایک نظریاتی ریاست میں مذہب کے علاوہ، سیاست میں ہر قسم کے کارڈ کو استعمال کرنے کی کھلم کھلا اجازت ہے، خواہ اس کارڈ کو استعمال کرنے کے نتیجے میں ہزاروں انسان قتل ہو جائیں۔ لیکن اگر کوئی رہنما مذہب کے حوالے سے گفتگو شروع کر دے، بینر اٹھا لے یا نعرہ بلند کر دے تو فورا شور مچ جاتا ہے کہ مذہبی کارڈ استعمال مت کرو۔ اس ملک میں ہر نسل، زبان اور رنگ کے لوگوں نے اپنی نسلی اور لسانی عصبیت کے کارڈ کو انتہائی خوفناک طریقے سے کھیلا ہے۔
قیامِ پاکستان سے ہی ان نسلی منافرتوں کو ہوا دی گئی اور لسانی کارڈ کھیلا گیا۔ اس کی بدترین مثال مشرقی پاکستان کا زوال اور بنگلہ دیش کا قیام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ، جس بنگالی زبان، کلچر، ثقافت، موسیقی اور رقص کی خوبصورتی اور ہمہ گیریت کے نعرے بلند کئے گئے تھے، جب ان مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو آزادی ملی تو مغربی بنگال کے بنگالیوں نے شدت کے ساتھ ہندو مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے انہیں دھتکار دیا اور وہ آخرکار مسلمان بنگلہ دیشی کہلانے پر مجبور ہو گئے۔ اگر ہندو اور مسلمان بنگالیوں میں کوئی فرق نہ ہوتا تو آج بنگال پھر سے ایک ملک بن جاتا اور کلکتہ پر اس کا پرچم لہرا رہا ہوتا۔ اتنے بڑے قتل و غارت اور مذہب سے نفرت کی آگ کے الائو سے بھی آخرکار مذہبی کارڈ ہی برآمد ہوا۔ بنگالیوں کے علاوہ کون سی ایسی نسلی اور لسانی قومیت ہے جس نے یہاں اپنا کارڈ استعمال نہیں کیا۔ کراچی شہر، جس نے ایک لاکھ کے لگ بھگ لاشیں اٹھائیں، کیا یہ قتل و غارت کسی مذہبی کارڈ کے استعمال کی وجہ سے ہوئی تھی۔ یادداشت کو تازہ کر لیں 1986 کے بشری زیدی کیس کے بعد جو لسانی اور نسلی منافرت کا طوفان اٹھا تھا، اس نے اس پرسکون شہر کو غارت کر کے رکھ دیا۔ یہ لسانی کارڈ ایسا ہے کہ آج تک چل رہا ہے۔
باکو کانفرنس میں بلوچ نیشنلزم کا جو نعرہ نئی قائم شدہ کیمونسٹ سوویت یونین کی آشیر باد سے 1920 میں تخلیق ہوا، اس کی کوکھ سے نکلنے والا بلوچ کارڈ اب تک تین بڑی مزاحمتی کارروائیوں اور فوجی ایکشنوں میں ہزاروں انسانوں کی جانیں لے چکا ہے۔ اسی کی دہائی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا، جب کوئٹہ پر قبضے اور اجارہ داری کی جنگ میں بلوچ اور پشتون کارڈ بیک وقت استعمال ہوا، جس سے خوف کا ایسا عالم طاری ہوا کہ کوئٹہ میں قتل و غارت روکنے کیلئے مہینے بھر تک کا کرفیو لگانا پڑا۔ آزاد پختونستان کا کارڈ تو باچا خان گروپ نے دھڑلے کے ساتھ استعمال کیا اور پاکستان کے ابتدائی پچاس سالوں میں افغانستان، روس اور بھارت کی مدد سے اس پر کھل کر سیاست کی۔ وہ تو افغانستان میں سوویت یونین کی افواج کے داخلے کے بعد وہاں ایسا جہاد شروع ہوا کہ پاکستانی قوم پرست پشتونوں کے جیسے پر کٹ گئے۔ سندھو دیش یا سندھ دھرتی کی سیاست کا کارڈ کس سندھی لیڈر نے اور کب نہیں کھیلا۔ یوں تو سندھو دیش کی سیاست حالات و واقعات کی سرد مہری اور جی ایم سید کی موت کے بعد ان کے ساتھ ہی دفن ہو گئی، لیکن آج بھی آپ سندھی اجرک یا ٹوپی کو زیرِ بحث لا کر دکھائیں آپ کو لگ پتہ جائے گا۔ آپ مولوی کی دستار جو سنتِ رسول ہے، اس کی ٹخنوں سے اوپر شلوار جس کا حکم شریعت میں ہے، اس کی داڑھی جو وہ اتباعِ رسول ہے، ان سب اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے سکتے ہیں، ان کے حلیے کو دقیانوسی اور فرسودہ کہہ سکتے ہیں، لیکن ہزاروں سال پرانی سندھی ٹوپی اور اجرک کے خلاف آپ اشارتا بھی گفتگو کر کے دکھائیں، آپ کا جینا دوبھر کر دیا جائے گا۔
ایک اینکر نے سیاست کے حوالے سے ایسا کیا تھا، اور معافی مانگنا پڑی، انور مقصود نے سندھی لہجے میں اردو بول کر ایک مزاحیہ ویڈیو بنائی تو انہیں عالمِ خوف میں معافی مانگنا پڑی۔ لسانی اور نسلی کارڈ تو ایک طرف، آپ کے پیشے یا شعبے کا کارڈ بھی ایسا ہے کہ آپ اس کا بزورِ قوت اور بار بار استعمال کر سکتے ہیں۔ وکلا کارڈ کی دسترس اور دہشت تو دیکھیں کہ وہ ایک جتھے کی صورت ہسپتال پر حملہ آور ہوتے ہیں، دل کے مریضوں کو لگی مشینیں اکھاڑ پھینکتے ہیں اور پورے عملے پر خوف طاری کر دیتے ہیں۔ کئی مریض جان سے جاتے ہیں لیکن مجال ہے کوئی ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ ڈاکٹر اپنا کارڈ استعمال کرتے ہوئے، جب اور جس وقت چاہیں ہسپتالوں کے دروازے بند کر دیں۔ ٹرانسپورٹر اپنا کارڈ استعمال کر کے اس ملک کا پہیہ جام کر دیں۔ صحافی پی ایف یو جے کی چھتری تلے صحافتی کارڈ استعمال کریں اور پھر ہر کسی کی عزت اچھالنے کا لائسنس حاصل کر لیں۔ غرض اس ملک میں ہر قسم کا کارڈ استعمال ہو سکتا ہے اور ان کارڈوں کو استعمال کر کے کامیاب ہونے والوں کے گلے میں ہار بھی پہنائے جاتے ہیں، لیکن وہ کارڈ جسے استعمال کرنا آئینِ پاکستان کی بقا اور قانون سازی کیلئے ضروری ہے وہ استعمال نہیں ہو سکتا یعنی مذہبی کارڈ۔ مذہبی سیاست انبیا کا پیشہ ہے۔
رسول اکرم ۖ نے فرمایا، بنی اسرائیل کے انبیا ان کے سیاسی قائدین اور رہنما تھے۔ جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ آ جاتا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہۖ پھر کیا ہو گا۔ فرمایا! خلفا ہوں گے اور بہت سے ہوں گے، ان کا حق ادا کرو اور اپنے حق کے بارے میں اللہ سے سوال کرو (بخاری: کتاب الانبیائ، مسلم، سنن ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل)۔ مذہب کی سیاست سنتِ انبیا ہے اور آئینِ پاکستان کیلئے لازم و ملزوم۔ یہ کارڈ تو کھیلا جاتا رہے گا ، چاہے قرآن کے مطابق کفار کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ ہر کارڈ کو زوال ہے لیکن اسلام کے کارڈ نے قیامت تک چلنا ہے اور یہ چلتا ہی رہے گا۔ کوئی طالع آزما سیاستدان، مذہب بیزار کالم نگار اور جدیدیت پرست اینکر لاکھ کوشش کر لے، اسے نہیں روک سکتا۔

بشکریہ روزنامہ 92