کراچی (صباح نیوز) امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے جمعرات کے روز جامعہ کراچی سلور جوبلی گیٹ پر جامعہ کراچی کی مختلف طلبہ تنظیموں پر مشتمل طلبہ الائنز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جامعہ کراچی کے طلبہ و طالبات کی فیسیں کم کر کے سندھ یونیورسٹی کے مساوی کی جائیں۔ سندھ حکومت جامعہ کراچی اور دیگر جامعات کے درمیان اپنا دہرا معیار ختم کرے۔ جامعہ کراچی کی گرانٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ پوائنٹس کی تعداد بڑھائی جائے ، یونیورسٹی روڈ پر جامعہ کراچی کلاسز کے اوقات میں ٹینکروں کا داخلہ بند کیا جائے تاکہ ہزاروں طلبہ و طالبات کو یونیورسٹی آنے اور جانے کے دوران جس ذہنی و جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے نجات مل سکے ۔ سندھ حکومت جامعات میں عارضی بنیادوں پر تقرری کر کے کرپشن ، دھونس ، دھاندلی اور سفارش کے کلچر کو پروان چڑھانا چاہتی ہے ۔ حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں ۔ اس حکومتی فیصلے کے خلاف اور جامعات کی خود مختاری پر حملے میں اساتذہ کرام کے ساتھ ہیں۔حکومت کی نا اہلی کے باعث ریڈ لائن منصوبہ یونیورسٹی روڈ گزرنے والوں اور اس سے متصل آبادیوں کے لیے عذاب بن گیا ہے۔3مزدور جاں بحق ہو چکے ہیں اور کئی گاڑیاں گر کر تباہ ہو گئی ہیں۔جامعہ کراچی کے ہزاروں طلبہ و طالبات بھی پریشان ہیں ، 8دسمبر کو ہونے والے ایم ڈی کیٹ میں کراچی کے 13ہزار طلبہ و طالبات کے لیے ضلعی سطح پر امتحانی مراکز بنائے جانے چاہئیں تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ایکسپو سینٹر میں امتحانی مراکز بنائیں جائیں تاکہ طلبہ و طالبات اور والدین کو آسانی ہو سکے ۔پریس کانفرنس میں امیر ضلع شرقی نعیم اختر،ٹاؤن چیئرمین گلشن اقبال ٹاؤن ڈاکٹر فواد ، سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری،طلبہ الائنس کے چیئر مین کامران سلطان غنی، پبلک ایڈ کمیٹی کراچی کے جنرل سیکریٹری نجیب ایوبی ، نائب صدر عمران شاہد ودیگر بھی موجود تھے ۔
منعم ظفر خان نے مزیدکہاکہ جامعہ کراچی پورے پاکستان کا باوقار ادارہ ہے ،یہ تعلیمی ادارہ پوری دنیا میں اپنی ایک پہچان رکھتا ہے۔ بد قسمتی سے جامعات کی خود مختاری پر حملہ کیا جارہا ہے۔ اساتذہ کا عارضی بنیادوں پر تقررکیا جارہا ہے جس کی جتنی مذمت کیا جائے کم ہے ۔ اساتذہ کا تعلق تعلیم و تحقیق سے ہے۔حکومت عارضی بنیادوں پر تقرری کے نتیجے میں کرپشن ، دھونس ،دھاندلی اور سفارشوں کے کلچر کو ایک بار پھر سے عام کرنا چاہتی ہے ۔ اسی وجہ سے عارضی تقرر کی مذمت اور جامعہ کی خود مختاری کے حملے پر جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ ہیں۔ جامعہ کراچی کے طلبہ کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیا گیا ہے۔طلبہ لاکھوں روپے فیسیں اداکرنے پر مجبور ہیں ۔ گزشتہ سال 15ہزار داخلہ فارم جمع ہوئے اور اس سال صرف 7ہزار طلبہ و طالبات نے داخلہ فارم جمع کروائے ہیں ، اگر طلبہ سے لاکھوں روپے فیسیں وصول کریں گے تو اسی طرح طلبہ جامعات میں داخلہ نہیں لیں گے ۔
وزیر اعلیٰ جامعات کے چیف ایگزیکٹیو ہیں ، کراچی یونیورسٹی اور سندھ یورنیورسٹی کی فیسوں میں5گنا کا فرق ہے ، کراچی یونیورسٹی میں فارمیسی کے طلبہ فی سمسٹر 78ہزار روپے جبکہ سندھ یونیورسٹی فی سمسٹر فیس 22500روپے ہے ، کراچی یونیورسٹی میں فیزیکل تھروپی ڈپلومہ کی فیس 2لاکھ 9ہزار روپے ہے جبکہ سندھ یونیورسٹی میں اسی شعبے میں صرف80ہزار روپے فیس وصول کی جارہی ہے۔، اسی طرح جتنے بھی شعبہ جات ہیں سب کی فیسوں میں زمین و آسمان جتنافرق ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ فوری طور پر کراچی اور سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں میں غیر معمولی فرق کو ختم کریں ۔جامعہ کراچی کسی زمانے میں اپنی مثال آپ تھی ، طلبہ و طالبات کے لیے 100سے زائد پوائنٹ بسیں چلا کرتی تھیں اور طلبہ کو سہولیات میسر تھی لیکن آج 45ہزار طلبہ و طالبات کے لیے صرف 28پوائنٹ بسیں چلائی جارہی ہیں جبکہ پوائنٹ کی تعداد سینکڑوں میں ہونی چاہیے۔
دوسری جانب سندھ یونیورسٹی کے 22ہزار طلبہ کے لیے 70بسیں چلائی جارہی ہیں ۔یہ 70بسیں بھی کم ہیں زیادہ ہونی چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ شہر کا انفرااسٹرکچر تباہ ہے۔ جامعہ کراچی کے سامنے مین ریڈ لائن کوریڈور ہے ،پورا کوریڈور 24کلومیٹر پر مشتمل ہے ۔ نومبر 2019ء میں پروجیکٹ کی منظوری ہوئی جس کا 2021میں کنڑیکٹ سائن کیا گیا اور2023دسمبر میں اس کام کو مکمل ہونا تھا لیکن آج تک ریڈ لائن پروجیکٹ مکمل نہیں ہو اور یہ شہریوں کے لیے خطرے کی علامت بنا ہوا ہے۔صفورہ ،کینٹ ودیگر جانب سے سفر کرنے والوں کے لیے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ پہلے تاریخ بڑھا کر 2026ء کردی گئی اور اب 2027ء میں مکمل کرنے کے لیے لیٹر جاری کیاگیا ہے ۔504ملین یو ایس ڈالر کا منصوبہ بجٹ بڑھنے کے بعد اب 700 ملین یو ایس ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ جب سندھ حکومت پروجیکٹ میں کام تیز کرنے کی بات کرتی ہے تو اس پروجیکٹ میں رشوت تیز ہو جاتی ہے۔ یہی کام ریڈ لائن منصوبے کیساتھ کیا جارہا ہے ،کنٹریکٹر نے عوام کی سیفٹی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ پوری سڑک کھودی گئی ہے، ہزاروں طلبہ روزانہ آتے اور جاتے ہیںان کے تحفظ کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔
یونیورسٹی روڈ پرکسی زمانے میں دونوں جانب درخت لگے ہوئے تھے ۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے سڑک کی تعمیر کی گئی۔ ریڈ لائن کے نام پر سڑک کھود دی گئی ، ہونا تویہ چاہیے کہ کراچی کے عوام کے لیے سرکلر ریلوے اور ماس ٹرانزٹ منصوبہ مکمل کیا جائے ۔ ماس ٹرانزٹ کے نام پر بی آر ٹی بنا کر کراچی کے عوا کو دھوکا دیا جارہا ہے اور کراچی کے عوام سے دشمنی کی جارہی ہے۔ کراچی کے علاوہ دیگر صوبوں میں ٹرانسپورٹ کے منصوبے بروقت مکمل ہوجاتے ہیں لیکن پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت ہر منصوبے کو طول دے کر اپنا بنک بیلنس مضبوط کرتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں ایک بڑا مسئلہ اس وقت ہیوی ٹریفک کا بھی ہے۔ 24گھنٹے ٹینکر کے ذریعے پانی کا کاروبار جاری ہے۔ عوام کو نلکوں میں پانی نہیں ملتا بلکہ مہنگے داموں پانی فروخت کیا جاتا۔کراچی میں گزشتہ 11ماہ میں ٹینکرز کے حادثات کے 600واقعات ہوئے ہیں جس میں کئی شہری اپنی جانیں گنوابیٹھے ہیں ، گزشتہ دنوں پروفیسر طارق صلاح الدین اور ان کی اہلیہ ڈمپر کی ٹکر سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، المیہ یہ ہے کہ کوئی وزیرتعلیم ، وزیر اعلیٰ اور کوئی سیاسی پارٹی کا فرد کالج کے پروفیسر کی نماز جنازہ میں موجود نہیں تھا ،8دسمبر کے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے حوالے سے ہم نے پہلے بھی مطالبہ کیا تھا کہ لاہور میں 8سینٹرز ، پشاور میں 5،حیدرآباد میں 2مراکز بن سکتے ہیں تو کراچی میں 13ہزار طلبہ وطالبات کے لیے ڈسٹرکٹ لیول پر مراکز کیوں نہیں بنائے جارہے ، کس طرح 13ہزار طلبہ و طالبات اور ان کے والدین امتحانات دینے آئیں گے ۔