No To Governor Rule…سہیل وڑائچ


طوفان گزر جائے، آندھی کا زور کم ہو جائے یا سیلاب اُتر جائے تو فوری ردعمل بچی کھچی چیزوں کو سنبھالنے اور نقصان کو ٹھیک کرنے کا ہوتا ہے۔ 26 نومبر گزر چکا اب جو بچا ہے اس کو بچانا اور جو ضائع ہوگیا ہے اسے مرمت و اصلاح سے بحال کرنا چاہیے۔ مزید ٹوٹ پھوٹ، مزید انتشار ، مزید لڑائی ، مزید جلسے جلوس اور دھرنے اب بند ہونے چاہئیں، وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کے بارے میں منصوبےختم کردینے چاہئیں تو دوسری طرف علی امین گنڈا پور کو بھی صوبے کی حکومتی مشینری کے ہمراہ آئے روز وفاق پر چڑھائی کا سلسلہ بند کردینا چاہیے۔ وفاق اور مقتدرہ کےصبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اگر دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کا ارادہ کیا گیا اور پھر جتھے لا کر دارالحکومت کو تاراج کرنے کے بارے میں سوچا بھی گیا تو یہ طے کرلیا گیا ہے کہ پختونخوا میں گورنر راج نافذ کر دیا جائیگا۔ ریاست کی مرضی ،مگر اس ناچیز کی رائے اسکے برعکس ہے پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے ایسے میں صوبے کی سب سے مقبول جماعت سے اقتدار چھیننے سے حالات مزید ابتر ہو جائینگے۔ چنانچہ علی امین گنڈا پور اور وفاق میں انڈرسٹینڈنگ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

گنڈا پور کھلے عام اور نجی محفلوں میں بھی یہ کہتے ہیں کہ انہیں جو خان نے کہنا ہے وہ انہوں نے کرکے ہی رہنا ہے، کسی کو جا کرخان کو بھی سمجھانا چاہیے کہ پنجاب میں بھی تو آپ کا بہت ووٹ بینک ہے ،وہاں مرکزی پنجاب میں تو ایک بندہ بھی باہر نہیں نکلا، ایک جلوس بھی نظر نہیں آیا۔ کراچی میں بھی آپ کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہوتا تھا وہاں سے بھی ایک قافلہ تک نہیں آیا ،سب کے سب یعنی 35 ہزار کی بھاری اکثریت پختونخوا سے آئی اور اس کی واحد وجہ وہاںآپ کی صوبائی حکومت کا ہونا ہی تو تھا، اگر صوبائی حکومت جاتی رہی تو پی ٹی آئی کا پختونخوا میں وہی حال ہوگا جو پنجاب اور کراچی میں ہوا ہے۔ صوبائی حکومت، سیاسی جماعت کیلئے ایک مضبوط قلعے کی مانند ہوتی ہے، تحریک انصاف کو کسی بھی صورت اپنی ہی صوبائی حکومت کو تڑوانے کے حالات و اسباب پیدا نہیں کرنےچاہئیں۔

کسی بھی احتجاج، دھرنے یا جلوس کیلئےتین اہم ترین عناصر تنظیم، وسائل اور قیادت ہوتے ہیں۔ پنجاب اور کراچی میں تحریک انصاف کے حامی تو بہت ہیں لیکن وہاں نہ ان کی تنظیم ہے نہ وسائل اور نہ ہی قیادت۔ پختونخوا میں پارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے تنظیم اور ڈسپلن قائم ہے، 35 ہزار افراد اکٹھے کرنا آسان نہیں ہوتا، ڈپٹی کمشنر، پولیس آفیسر اور بالخصوص ایم این اے، ایم پی اے سارے اکٹھے ہو کر کام نہ کریں تو اتنا اجتماع اکٹھا نہیں ہوسکتا۔ پھر سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کہاں سے آئے؟ کرایہ کون دے؟ ان سب لوگوں کے کھانے کا انتظام کون کرے؟ یہ سب صوبائی حکومت ہی کر رہی ہے، اسی لئے یہ جلوس کامیاب ہو جاتے ہیں۔ صوبائی حکومت کے پیسے استعمال نہ ہوں، حکومتی وسائل کام نہ آئیں تو یہ مجمع کبھی اکٹھا نہیں ہوسکتا ، نہ آگے بڑھ سکتا ہے اور پھر سب سے آخری چیز قیادت ہوتی ہے پنجاب کی قیادت یا تو چھپی ہوئی ہے یا پھرخوف زدہ ہے۔ کراچی کا بھی برا حال ہے۔ علی امین گنڈا پور کبھی طاقت کے ایوانوں میں صفائیاں پیش کرتا ہے اور کبھی اڈیالہ جیل جا کر اپنی وفاداریوں کا یقین دلاتا ہے، اس ڈبل گیم کی وجہ سے وہ ابھی تک اپنا اقتدار بچائے ہوئے ہے۔ اور اُس کی اسی عیاری کی وجہ سے پی ٹی آئی کا بھرم اور صوبائی حکومت قائم ہے وگرنہ اوپر نیچے کے فیصلے ایسے آ رہے ہیں کہ مقتدرہ اور حکومت پختونخوا میں انتہائی اقدام کر ہی ڈالے۔ گورنر راج کے نفاذکا فیصلہ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف میں سے کسی ایک کیلئے بھی اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ گنڈا پور وفادار ہے یا غدار ، مشکوک ہے یا شکوک سے بالاتر، بے داغ ہے یا داغدار،تلخ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف میں وہ واحد بندہ ہےجس کا مقتدرہ اور حکومت سے مسلسل رابطہ ہےاوراگر عمران خان نے کوئی ڈیل کرنی ہے، کوئی راستہ نکالنا ہے یا کوئی ریلیف لینا ہے تووہ گنڈا پور کے ذریعے ہی ممکن ہے، بشریٰ بی بی کی رہائی بھی صرف اور صرف گنڈا پور کی ضمانت سے ہی ممکن ہوئی تھی۔

مقتدرہ اور حکومت کو اُن کے فیصلوںسے کوئی روک تو نہیں سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ تنگ آمد بجنگ آمدکے مصداق گورنر راج لگا دیں تاکہ اسلام آباد پرچڑھائیاں تو بند ہوں مگر زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ پختونخوا حکومت کے ساتھ کوئی ورکنگ ریلیشن شپ بنایا جائے۔ گورنر راج نہ لگانے کے خلاف پہلی دلیل یہ ہے کہ باوجود کشیدگی اور لڑائی کے تحریک انصاف کی موجودہ سیٹ اپ میں صوبائی حکومت ایک اسٹیک ہولڈر ہے اس وجہ سے وہ نظام کا بھی حصہ ہے اور اسے نظام کا حصہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ وہ عوام میں بہت مقبول ہے، تحریک انصاف کو لاتعلق کرنا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ تحریک انصاف سے اقتدار لے کر دیا کسے جائے؟ گورنر کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے وہ دبنگ اور پڑھے لکھے ہیں لیکن پیپلزپارٹی صوبہ بھر میں بہت ہی کمزور ہےاسے پی ٹی آئی اور طالبان مل کر نشانہ بنائیں گے اور یوں اس کا بچائو ہی ناممکن ہو جائے گا۔ اے این پی کبھی بہت مضبوط ہوا کرتی تھی اب بھی ہر جگہ اس کے حامی تو موجود ہیں لیکن اسے اقتدار میں شامل بھی کرلیا جائے تو اس سے مقتدرہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان کی جماعت بھی پختونخوا میں بری طرح شکست کھا گئی تھی دوسرا ان کا مسئلہ طالبان ہیں وہ فکری اور مسلکی طور پر طالبان سے اتفاق کرتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان مقتدرہ کے ساتھ کھڑے ہوئے تو طالبان ان کو ٹارگٹ بنا لیں گے اور باربار ان پر حملے کریں گے اس لئے وہ خودبھی اقتدار لینے سے ہچکچائیں گے۔تیسری دلیل یہ ہے کہ گورنر راج کی صورت میں کوئی بڑی سویلین قیادت یا جماعت متبادل نہیں بن سکے گی یوں مقتدرہ کو براہ راست صوبہ سنبھالنا پڑے گا۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ تحریک انصاف اور مقتدرہ کے لاکھ اختلافات ہوں دہشت گردی اور پختون قوم پرستوں کے خلاف دونوں اکٹھے ہیں اور کوئی طاقت ان کا متبادل نہیں بن سکتی۔ یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ ناچیز گورنر راج کا مخالف ہے گو گورنر راج آئینی اقدام ہے مگر یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔

آخر میں عرض ہے کہ اب فیصلہ کن مفاہمت، اتفاق رائے اور مصالحت کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے، عمران خان بزور عوامی قوت انقلاب نہیں لا سکے، مقتدرہ طاقت کے زور پر دائمی امن قائم نہیں کرسکتی، دونوں اپنے مقاصد میں ناکام رہے ہیں۔ دائمی امن و استحکام کا راستہ لڑائی نہیں مصالحت و مفاہمت میں ہی ہے۔