اسلام آباد(صباح نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے کوئٹہ میں بچے کے اغوا پر ازخود نوٹس لینے کی تردید کردی جبکہ آئینی بینچ نے معاملہ بلوچستان ہائی کورٹ کو بھجوادیا۔ بینچ نے قراردیا ہے کہ آئی جی بلوچستان پولیس، بلوچستان ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کروائیں۔ جبکہ آئینی بینچ کے سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کہاہے کہ ہم نے سپریم کورٹ میں بچے کا معاملہ نمٹایا نہیں ہے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ جتنا دبائو ہوگا بچے کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
میڈیا اس کیس کی زیادہ تشہیر نہ کرے بچے کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ مقامی انتظامیہ کا کام ہے، ہمارا نہیں، اگر کوئی معاونت درکار ہو تو وفاق فراہم کرے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پرمشتمل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بنچ نے کوئٹہ میں بچے کے اغوا سے متعلق کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان، آئی جی بلوچستان سمیت دیگر متعلقہ حکام پیش ہوئے۔ جبکہ اغواہونے والے بچے کے والد بھی سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری سے ویڈیولنک کے ذریعہ پیش ہوئے ۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ بچے کے اغوا سے متعلق خفیہ پیش رفت رپورٹ ہے، استدعا ہے بنچ چیمبر میں جائزہ لے، بچے کی بازیابی کیلئے مشترکہ جے آئی ٹی قائم کرنے پر پیش رفت ہو رہی ہے۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ پہلے سے زیر التوا ہے، یہ تاثر نہ لیا جائے کہ آئینی بنچ نے ازخود نوٹس لیا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ مقامی انتظامیہ کا کام ہے، ہمارا نہیں، اگر کوئی معاونت درکار ہو تو وفاق فراہم کرے۔آئینی بنچ نے چیمبر میں رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تو وکیل بلوچستان حکومت نے استدعا کی کہ کوئٹہ میں جاری دھرنا ختم کروایا جائے۔بچے کے والد نے عدالت میں پیش ہوکر کہا کہ مجھے میرا بچہ چاہیے۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے بچے کے والد سے کہا کہ ہر طرف سے تعاون ہوگا، ہم سب آپ کیلئے پریشان ہیں، آئی جی صاحب نے ساری تفصیلات چیمبر میں بتائی ہیں،یہ آرام سے نہیں بیٹھے ہوئے، کئی باتیں بتائیں جوآپ کو نہیں بتاسکتے، اس سے تحقیقات خراب ہوسکتی ہیں، ہائی کورٹ معاملہ پر نظررکھے، ہم رپورٹ سے کافی حد تک مطمئن ہیں،پولیس کواورکام کرنا چاہیئے،بچے کے والد کاپولیس کوتعاون چاہیئے، کس قسم کاتعاون چاہیئے یہ آئی جی پولیس بتائیں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ اسلام آباد سپریم کورٹ میں موجود اورکوئٹہ رجسٹری میں موجود میڈیا اس کیس کی زیادہ تشہیر نہ کرے بچے کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں بچے کا معاملہ نمٹایا نہیں ہے۔جسٹس محمد علی مظہرکاآئی جی بلوچستان پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ آپ بلوچستان ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کروائیں۔
جسٹس امین الدین خان کاحکمنامہ لکھواتے ہوئے کہنا تھاکہ آئی جی بلوچستان پولیس، بلوچستان ہائی کورٹ میں بچے کے حوالہ سے رپورٹ جمع کروائیں۔اس دوران ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بینچ سے استدعا کی کہ کوئٹہ میں جاری دھرنا ختم کیا جائے، اگر دھرنے سے معاملہ حل ہوتا ہے توہم بھی جاکردھرنے میں بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھاکہ دھرنا کس نے دیا ہوا ہے، کیادھرنا این جی اوز نے دیا ہوا ہے، اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
اغواہونے والے بچے کے والد کے وکیل کاکہنا تھا کہ میں اپنے بچے اسکول نہیں بھجواسکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھا کہ آپ دبائو نہ ڈالیں، مسئلہ حل کرنے کی طرف جائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ جتنا دبائو ہوگا بچے کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔