لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ ماننا ہمارے اوپر لازم نہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ


اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ سوال ہے کہ کسٹم حکام سے معاملہ آگے چلا جائے تو پھر ٹیکس حکام معاملہ دیکھیں گے نہ کہ کسٹم حکام ان کے پیچھے جائیں گے۔ اگر ایک مرتبہ غلط کلاسیفیکشن ہو گئی توپھر کسٹم حکام نہیں ٹیکس حکام شوکاز نوٹس جاری کریں گے اوروہ رقم ریکورکریں گے۔ لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ ماننا ہمارے اوپر لازم نہیں۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے کمشنر ان لینڈ ریونیو ، ایڈیشنل کمشنر ان لینڈ ریونیو اوردیگر کی جانب سے نیشنل انسٹیٹیوشن فیسیلیٹیشن ٹیکنالوجیز پرائیویٹ لمیٹڈ ،ایم ایس جے ایس انویسٹمنٹ لمیٹڈ، ایم ایس ڈائولینس پرائیویٹ لمیٹڈ، ایم ایس امین ٹیکسٹائل ملز پرائیویٹ لمیٹڈ اوردیگر کے خلاف دائر12درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ ہماری عدالت سے یہ فیصلہ ہوگیا ہے پھر کیسے ہم دیکھیں، سندھ ہائی کور کافیصلہ برقراررکھا گیا ہم اس کو کیسے دوبارہ کھولیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاوکلاء سے کہناتھا کہ نظرثانی دائر کریں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہان تھا کہ ہم دوبارہ فیصلہ نہیں کرسکتے، نظرثانی دائر کرنی ہے توکردیں ہم دوبارہ معاملہ نہیں کھول سکتے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کادرخواست گزاروں کے وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کی درخواستوں کے زائد المعیاد ہونے کے معاملہ میں بھی پھنستے ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھا کہ نظرثانی میں جو نیا نقطہ اٹھانا ہے کہ اٹھائیں ہم کیس دوبارہ نہیں کھول سکتے۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھاکہ 2017میں سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو برقراررکھا۔ عدالت نے درخواست خار ج کردی۔ جبکہ بینچ نے کلیکٹر آف کسٹمز کی جانب سے ایم ایس ال آمنہ انٹرنیشنل ، ایم ایس جنرل فوڈ کارپوریشن ، شیرازی ٹریڈنگ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ، کراچی ، بی انرجی لمیٹڈ سابقہ ییکری انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ، کراچی ، ایم ایس حیسکول پیٹرولیم لمیٹڈ، کراچی اور دیگر کے خلاف 71درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کادرخواست گزاروں کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا قانون آپ کو کیس دائر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ کیا قانون میں کہ درخواست گزاردرخواست دائر کرسکتے ہیں۔درخواست گزاروںکے وکیل زاہد فخرالدین جی ابراہیم کاکہنا تھاکہ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت درخواستیںسندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ سوال ہے کہ کسٹم حکام سے معاملہ آگے چلا جائے تو پھر ٹیکس حکام معاملہ دیکھیں گے نہ کہ کسٹم حکام ان کے پیچھے جائیں گے۔جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ کسٹم کلیکٹر کادائرہ اختیار ختم ہوگیا۔ زاہد فخرالدین جی ابراہیم کاکہناتھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم کا فیصلہ ہماری حمایت میں ہے۔ اس پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ ماننا ہمارے اوپر لازم نہیں۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ اگر ایک مرتبہ غلط کلاسیفیکشن ہو گئی توپھر کسٹم حکام نہیں ٹیکس حکام شوکاز نوٹس جاری کریں گے اوروہ رقم ریکورکریں گے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ ون انڈوآپریشن کے تحت درآمد کے مرحلہ پرسارے ٹیکس لے سکتے ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھاکہ لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا کہ نہیں۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ ضرورہواہوگا، اگر محکمہ کے حق میں تھا توکسی اورنے کیا ہوگا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ یہ کیس کچھ ہم نے سن لیا ہے درخواست گزارکے وکیل پتا کرعدالت کوآگاہ کریں کہ لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا کہ نہیں اگرہوا ہے تواسے ہم اس کیس کے ساتھ سماعت کے لئے مقررکردیں گے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 28نومبر تک ملتوی کردی۔