اسلام آباد(صباح نیوز)محکمہ صحت خیبرپختونخوا کے ملازمین کی مستقلی کے معاملہ پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے طلب کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل اور سیکرٹری ہیلتھ کے پی عدیل شاہ عدالت میں پیش ہوگئے۔ایڈووکیٹ جنرل کے پی 2کیسز میں پیش ہوئے تاہم دونوں کیسز کا فیصلہ نہ ہوسکا اورعدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی اورسیکرٹری ہیلتھ کے پی عدیل شا ہ کو مکمل تیاری اورریکارڈ کے ساتھ دوبارہ 25نومبر کو پیش ہونے کاحکم دے دیا۔ جبکہ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو ماضی سے ترقی دینے کے معاملہ پر معاونت کے لئے دوبارہ 25نومبر کو پیش ہونے کاحکم دے دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ کاایڈووکیٹ جنرل کے پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کہ آپ نے کینیڈا سے تھوڑا آنا ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سیکرٹری ہیلتھ خیبرپختونخوا اوردیگر کے توسط سے آصف خان، نسیم اعجاز، وسیم جان، وقاص احمد، سریر محمد، فضل غفار، محمد کامران، ڈاکٹر عرب خان، حکیم زادہ، ڈاکٹر محمد شفیق، ڈاکٹر محمد ریاض، دل نواز، ڈاکٹر عارف حسن خان، مسما شہر بانو، ابراہیم خان، پیر محمد، مشرف خان، شاہد خان،عبدالناصر، مسمات افشاں نسیم، شاہ زیب، حافظ فیصل تنویر، صفی اللہ خان، مینارگل، محمد احسان، محمد عارف، یاز خان، فواد خان، عثمان غنی اور دیگر کے خلاف ملازمین کی مستقلی کے معاملہ پر پشاورہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر 89درخواستوںپر سماعت کی۔عدالت کے طلب کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل اورسیکرٹری صحت کے پی پیش ہوئے جبکہ مدعا علیہان کی جانب سے شعیب شاہین ایڈووکیٹ، ملک جوادخالد ، مختاراحمد منیری، محمد آصف اوردیگر بطور پیس ہوئے۔ سماعت کے آغازپرجسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل کے پی آگئے، ہمیں اصل صورتحال سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے، یہ ملازمین ایس آر ایس پی کے تھے یا نہیں یہ واضح کریں۔
شاہ فیصل اتمانخیل نے کہا کہ بنیادی طور پرسرحد رورل سپورٹ پروگرام( ایس آرایس پی) کے ملازمین تھے کے پی پرائمری ہیلتھ کیئر کو گراس روٹس تک لے جانے کے لئے پی پی ایچ آئی محکمہ بنایا گیا، یہ محکمہ سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف نے بنایا تھا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا کہ محکمہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد 2010میں صوبوں کوگیا، 2006میں یہ وفاقی محکمہ تھا پھر صوبوںکوچلاگیا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھاکہ منصوبے کاآغاز کہاں سے ہوا، صدر سے آغاز ہو ا، کیسے صوبہ میں آیا اورکیسے صوبہ میں 2006میں کام شروع کیا، کس نے ان کو ملازم رکھا اورآپکے ملازم کیسے بنے، ان کے لیٹرز لگے ہیں ان کی تقرری اور تبادلے آپ اوراسٹیبلشمنٹ ڈویژن کررہی ہے،یہ غیر مکمل کہانی ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ کاکمرہ عدالت میں موجود سیکرٹری صحت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ آگے آجائیں، پی پی ایچ آئی کے آغاز کے حوالہ سے بتائیں۔ سیکرٹری ہیلتھ کے پی کاکہناتھا کہ یہ محکمہ سابق وفاقی وزیر صنعت وپیدوار سردار جہانگیر خان ترین کی وزارت کے ماتحت سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا، صوبوں سے کہا گیا کہ آپ بھی اس ماڈل کو اپنائیں ، یہ وفاق کے ملازمین نہیں تھے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپ کے صوبہ میں کب پہنچا۔اس پر سیکرٹری صحت نے کہا کہ 2006میں پہنچا۔
جسٹس عقل احمد عباسی نے کہا کہ 2010میں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کوگیا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھاکہ بہت سے لوگوں کو ٹرانسفر کے اس منصوبہ میں لایا گیا وہ کون لوگ تھے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ ایم اویو پر دستخط کے ساتھ ایس آرایس پی کا پی پی ایچ آئی کے ساتھ منصوبہ شروع ہوا، کب ملازمین کنٹریکٹ پر صوبائی حکومت کے تحت آگئے۔ سیکرٹری صحت کاکہنا تھا کہ ملازمین کوایس آرایس پی تنخواہ دیتی ہے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا کہ مدعا علیہان ہمیشہ سے ایس آر ایس پی کے ملازمین تھے۔ سیکرٹری صحت کاکہنا تھا کہ ہائر اینڈ فائر کی پالیسی تھی۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ صدر نے پروگرام شروع کیا جس کے بعد صوبوں میںبھی یہ پروگرام شروع کیا گیااور ایس آرایس پی ہائرنگ ایجنٹ ہے، حکومت اور ملازمین کے درمیان کوئی براہ راست گٹھ جوڑ نہیں۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا کہ ایکٹ اور پالیسی میں یہ کورنہیں کہ ان کو مستقل کیا جائے، ایس آرایس پی نے جوان کو ملازمت دی اُس کالیٹر دکھائیں،کسی کی تعیناتی کالیٹر دکھادیں جس کو ایس آرایس پی نے ہائر کیا ہو، شرائط وضوابط دکھائیں۔جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھاکہ نہ پینشن ہے اور نہ گریجوایٹی ہے یہ کنٹریکٹ میں لکھا ہے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاایڈووکیٹ جنرل کے پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ آپ نے ہیلتھ ریگولرائزیشن کے حوالہ سے کوئی ایکٹ نہیں بنایا، گلگت بلتستان میں تویہ بن گیا تھا۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ مدعا علیہان کے وکلاء بتائیں کہ ریگولرائزیشن کے حوالہ سے کیا دعویٰ ہے، شعیب شاہین صاحب! اس سارے معاملہ کا پہلے فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس پر شعیب شاہین کاکہناتھا کہ یہ ایسا نہیںہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ آپ کادعویٰ کیا ہے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھا کہ کسی مئوکل کاپی پی ایچ آئی کاملازمت کالیٹر دکھائیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ پی پی ایچ آئی نے براہ راست بھرتی کئے اس میں ایس آرایس پی کاذکر نہیں۔جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھا کہ مدعاعلہیان 16زاور18سال سے کام کررہے ہیں۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ ہم لوگوں کو باہر پھینکنا نہیں چاہتے، ہمیں ان سے غرض ہے جوہمارے سامنے ہیں کہ یہ کیسے آئے۔ شعیب شاہین کی جانب سے اشتہار پڑھ کرسنایا گیا جس کے مطابق پی پی ایچ آئی نے ایک سالہ کنٹریکٹ پر بھرتی کے لئے درخواستیں طلب کی تھیں جس میں ایس آرایس پی کاتذکرہ نہیںتھا۔ اس پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ سیکرٹری صحت خیبرپختونخوا مکمل ریکارڈ دیکھیں اور اگر کوئی پی پی ایچ آئی کے ملازمین ہیں توان کی فہرست فراہم کریں، کون سے ایس آرایس پی کے لوگ ہیں ان کے حوالے سے بھی بتائیں۔
سیدمنصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ 25نومبر کوایڈووکیٹ جنرل اور سیکرٹری صحت خود پیش ہوں جبکہ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا اوردیگر کی جانب سے سنیارٹی اور پروموشن کے معاملہ پر محمد اشفاق، محمداسماعیل، محمد الیاس فہیظ زمان، شہاب علی اور علی حیدر کے خلاف دائر 6درخواستوں پر سماعت کی۔ایڈووکیٹ جنرل کے پی عدالت کے طلب کرنے پر پیش ہوئے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ سابقہ تاریخ سے ترقی دی جاسکتی ہے کہ نہیں، کس قانون میں اس کاذکرہے، سات سال پہلے کیسے ترقی دے دی۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل کے پی کاکہناتھاکہ میں رات کوہی اسلام آباد پہنچا ہوں، کیس کی تیاری نہیںکرسکاا س لئے تیاری کے لئے وقت دے دیا جائے۔اس پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ آپ نے کینیڈا سے تھوڑا آنا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ وقت لے لیں اورہماری معاونت کریں، وضاحت کے ساتھ بتائیں۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کودوبارہ ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 25نومبرتک ملتوی کردی۔