اسلام آباد(صباح نیوز)وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کے لیے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا چیف جسٹس کو خط ملک میں آئینی بحران پیدا کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، میرا سوال ہے کہ یہ لوگ مانیٹر کیوں بننا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ میں نے اکتوبر میں جس بحران کی طرف اشارہ کیا تھا وہ خطرات اب ٹل گئے ہیں اور مطلع صاف ہونے کی وجہ سے گرج چمک کا کوئی امکان نہیں، تاہم پارلیمانی جمہوریت میں خطرات ہمیشہ رہتے ہیں۔خواجہ آصف نے کہاکہ مشکل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ہمارے ذہن میں سب کچھ تھا، پاکستان میں اکثریت ہونے کے باوجود نظام کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے اکتوبر کے بعد کے جو دعوے تھے اس میں کسی حد تک صداقت تھی، ہوم ورک بھی تھا اور عدلیہ اس میں شامل تھی، پاکستان میں جب سازشوں کے جال بنے جاتے ہیں تو بڑے بڑے لوگ اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔وزیر دفاع نے کہاکہ ملک میں اب ماحول بہتر ہوگیا ہے، استحکام اور مثبت فضا آگئی ہے، حکومت کی اب کوشش ہوگی کہ اپنی کارکردگی دکھائے۔
انہوں نے کہاکہ کل ہونے والی قانون سازی سے قبل بیرسٹر گوہر کو ایوان میں بات کرنے کا موقع دیا گیا تھا لیکن ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں نے ان کو بات نہیں کرنے دی۔خواجہ آصف نے کہاکہ فوجی سربراہان کو مدت ملازمت میں جو توسیع کی گئی ہے یہ کسی فرد واحد کے لیے نہیں، یہ ادارے کے لیے کیا گیا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ایکسٹینشن کا سلسلہ ایوب خان کے دور سے چلا آرہا ہے، حکومت نے اسے فارملائز کردیا ہے۔ پہلی توسیع 1957 میں وزیر اعظم فیروز خان نے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب کو دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ تقریبا 20 سال کی توسیع ایوب، ضیا اور مشرف نے اپنے آپ کو دی اور کیانی اور باجوہ نے سویلین حکومتوں سے 4 سال کی توسیع لی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے توسیع دینے کے قانون میں ترمیم کرکے افراد کے بجائے ادارے کو مضبوط کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دیگر اداروں کی مدت بھی پانچ سال ہے اور اس کا مقصد ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مدت ملازمت میں توسیع، بری فوج، ائیر فورس اور نیوی یعنی تینوں اداروں پر لاگو ہوگی، کسی فرد واحد یا ایک ادارے کو نہیں نوازا۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ماضی میں حکمران اپنے اقتدار کے دوام کیلئے آرمی چیف کو توسیع سے نوازتے رہے۔۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کی صورت میں یہاں کوئی تبدیلی آئے گی تو یہ اس کی سوچ ہی ہوسکتی ہے، خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔