اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ بچوں کی تحویل کامعاملہ فیملی اورگارڈین عدالت پر چھوڑ دیں، یہ معاملہ ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ نہیں آنا چاہیئے،اس حوالہ سے سپریم کورٹ کے بہت سے فیصلے ہیں۔ حقائق میں ہم نہیں جائیںگے، سپریم کورٹ کو کسی ایسے معاملہ میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے جس میں بچوں کی تحویل کامعاملہ شامل ہو۔ درخواست گزار کاسرال والوں سے جھگڑا ہے،ساس ، سسر کااحترام کریں، ان کے پاس جاکرمعاملہ حل کریں، بڑوں سے معافی مانگیں۔ جرم کرنے والے نابالغ بچوں کاہمیں تھوڑاساخیال رکھنا چاہیئے۔
عدالت نے قتل کیس میں گرفتار ملزم کاٹرائل مکمل نہ ہونے کے حوالہ سے ٹرائل کورٹ سے 10روزمیں رپورٹ طلب کرلی۔جبکہ بینچ نے 90منٹ میں 40کیسز کی سماعت مکمل کرلی۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 2رکنی بینچ نے سوموار کے روز فائنل کاز لسٹ میں شامل 40کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے عبدالعزیز کی جانب سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے مئوکل نے دوفائرکئے اللہ تعالیٰ نے زندگی بچالی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ان معاملات کے لئے بھی اضافی بینچ ہے۔ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹادی۔ بینچ نے محمد عظیم خالد مرزا کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔
درخواست گزارکے وکیل سید علی عمران کاکہناتھاکہ کیس کے مدعی اے ایس آئی کامران ڈارنے بدنیتی کی بنیاد پر اس کے مئوکل کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ چیف جسٹس نے کیس نمٹاتے ہوئے ٹرائل کورٹ کوہدایت کی وہ بدنیتی کے معاملہ کودیکھنے کے بعد درخواست گزار کی درخواست ضمانت پر دوبارہ فیصلہ کرے۔بینچ نے ارشد محمود کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اوردیگر کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلاف دائردرخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل محمد فیصل ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کاسرال والوں سے جھگڑا ہے،ساس ، سسر کااحترام کریں، ان کے پاس جاکرمعاملہ حل کریں، بڑوں سے معافی مانگیں۔
چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں آپ کونہیں سنوں گا۔ عدالت نے مدعا علیہان کونوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 2ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔ بینچ نے آئس برآمدگی کیس میں گرفتار ملزم عبدالطلیف کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پرسماعت کی۔
چیف جسٹس کادوران سماعت درخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ملزم سے آئس ہیروئن برآمد ہوئی ہے، میں اس کیس میںبطور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ ایک مئوقف لے چکا ہوں۔ چیف جسٹس نے کیس سننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کیس سماعت کے لئے کسی دوسرے بینچ میں مقررکیا جائے۔ بینچ نے ایڈن ڈویلپرز پرائیویٹ (لمیٹڈ)، لاہور کی جانب سے ملک طارق صدیق کھوکھر اوردیگرکے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل حفیظ سعید اختر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ بہتر نہیں ہو گاکہ دوبارہ نظرثانی میں دونوں کو بھیج دیں۔
عدالت نے درخواست پر مدعا علیہان کونوٹس جاری کردیا۔ درخواست گزارکے وکیل نے استدعا کہ ٹرائل کورٹ میں کیس چل رہا ہے اس پرحکم امتناع جاری کردیں۔ چیف جسٹس نے حکم امنتاع جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر کیس کی سماعت رک گئی توپھرکبھی شروع نہیں ہو گی، ہم کہہ دیتے ہیں کہ ٹرائل چلے تاہم ٹرائل کورٹ حتمی فیصلہ جاری نہ کرے۔ بینچ نے عدنان ظفر خواجہ کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج ، چائلڈپروٹیکشن کورٹ، لاہور اوردیگر کے خلاف بچے کی تحویل کے معاملہ پردائر درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار نے سپریم کورٹ لاہوررجسٹری سے ویڈیو لنک کے زریعہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوکردلائل دیئے۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارکے ساتھ مکالمہ کرتے یوئے کہنا تھاکہ یہ معاملہ فیملی اورگارڈین عدالت پر چھوڑ دیں، یہ معاملہ ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ نہیں آنا چاہیئے،اس حوالہ سے سپریم کورٹ کے بہت سے فیصلے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ حقائق میں ہم نہیں جائیںگے، سپریم کورٹ کو کسی ایسے معاملہ میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے جس میں بچوں کی تحویل کامعاملہ ملوث ہو، عدالت کی جانب سے دائرہ اختیارکے حوالہ سے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ہماری معاونت کریں ۔
جسٹس شاہد بلال حسن کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے 6مئی2024کاحکم درخواست کے ساتھ نہیں لگایا وہ لگادیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم مدعاعلیہان کونوٹس جاری نہیں کریں گے البتہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کررہے ہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔ بینچ نے قتل کیس میں گرفتار نابالغ ملزم عمران کی جانب سے دائر ضمانت بعد گرفتاری پر سماعت کی۔ درخواست میں عبدلظاہرخان اوردیگر کوفریق بنایا گیا تھا۔ خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل الطاف خان پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نابالغ بچوں کاہمیں تھوڑاساخیال رکھنا چاہیئے۔ الطاف خان کاکہنا تھا کہ درخواست گزار پر قتل کاالزام ہے،نابالغ بچوں کے حوالہ سے قانون ہے کہ اگر بچے کی عمر 16سال سے زائد ہوتووہ کسی رعایت کامستحق نہیں۔
الطاف خان کاکہنا تھا کہ 3جنوری2024کودرخواست گزارپر فرد جرم عائد ہوئی تھی، 13سماعتیں ہوچکی ہیں اور8گواہوں کے بیان رکارڈ ہوچکے ہیں، کل 15گواہ ہیں، ایک، دوماہ میں ٹرائل مکمل ہوجائے جائے، عدالت اس حوالہ سے ہدایات جاری کردے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ سے اسٹیٹس رپورٹ لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ بتائے کہ کیا ٹرائل میں تاخیر درخواست گزار کی وجہ سے ہورہی ہے۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ سے 10روز میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ا س کے بعد مقررکرنے کی ہدایت کی ہے۔ بینچ نے بینک سے جعلی دستاویزات بنواکر قرض نکلوانے کے کیس میں گرفتار ملزم سکندر حیات کی جانب سے دائر درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پرسماعت کی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس اور ایف آئی اے حکام پیش ہوئے۔ ملک جاوید اقبال وینس کاکہناتھا کہ جس زمین پر قرض لیا گیااُس کاکوئی وجود ہی نہیں تھا جبکہ پاسپورٹ بنواکرقرض لیا گیا، جس پٹواری سے تصدیق کروائی گئی اس کابھی وجود نہیںتھا۔ ملک جاوید اقبال وینس کاکہناتھا کہ درخواست گزار نے 40لاکھ روپے قرض لیا جبکہ اس سکینڈل میں کل 4کروڑروپے قرض نکلوایا گیا ہے جس کی ایف آئی اے تحققیات کررہی ہے، دوملزمان بیرون ملک فرارہوچکے ہیں۔ چیف جسٹس کاملک جاوید اقبال وینس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ٹرائل نہیں چلائیں گے اور کہیں گے کہ بڑااسکینڈل ہے اوراس کی تحققیات جاری ہیں۔ عدالت نے مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔