خود کو بہتر بنانے کا جذبہ انسانوں میں سب سے بہترین فطری رویہ ہے۔ یہ انسان کے اندر موجود اس خواہش کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ترقی کرے، بہتر ہو اور اپنے آپ کو نکھارے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور ان کی اصلاح کرنا اللہ کے پسندیدہ بندوں کی ایک اہم خصوصیت ہے، جو نہ صرف اپنی غلطیوں کو قبول کرتے ہیں بلکہ انہیں دوبارہ دہرانے سے بھی بچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ خصوصیت بہت پسند ہے اور وہ اپنے بندوں کو سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ لیکن آج کے معاشرے میں جب کوئی ہماری غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے یا ہمیں اصلاح کی نصیحت کرتا ہے، تو ہم اکثر دفاعی رویہ اور طنزیہ انداز میں جواب دیتے ہیں، جیسے “تم کون ہوتے ہو مجھے کہنے والے؟ کیا تم نے خود بھی یہی غلطی نہیں کی تھی؟” یہ رویہ اصلاح کے لیے مشورہ قبول کرنے سے انکار اور اپنی ذمہ داریوں سے گریز کی علامت ہے۔ لیکن آخر ہم خود کی اصلاح سے کیوں کتراتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہمیں مشکل کیوں محسوس ہوتا ہے؟
پہلی بات یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے لیے عاجزی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ انسان اپنے نفس کا سامنا کرے اور تسلیم کرے کہ وہ غلطی پر ہے، جو کہ بعض اوقات ناگوار ہوتا ہے۔ انسانوں میں ایک فطری رجحان ہوتا ہے کہ وہ اپنی عزت نفس کی حفاظت کریں، اور تنقید قبول کرنا ان کے لیے ایک خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ جب کوئی ہمیں ہمارے رویے کی اصلاح کا مشورہ دیتا ہے تو یہ ہماری انا کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے، اور ہم اس کے بر عکس اپنے رویے پر غور کرنے کی بجائے غصے میں جواب دیتے ہیں۔ ایسے لمحوں میں ہم تنقید کو جھٹک کر اس شخص کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، تاکہ اپنی غلطیوں سے توجہ ہٹائیں۔
تاہم اسلامی تعلیمات میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا ایک اعلیٰ عمل سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کمال کا مطالبہ نہیں کرتا، لیکن وہ اخلاص کے ساتھ توبہ اور اصلاح کی کوشش کی توقع کرتا ہے۔ قرآن مجید میں بار بار توبہ اور اصلاح کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہوتا ہے: “بے شک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے” (2:222)۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ توبہ ایک وقتی عمل نہیں، بلکہ ایک مسلسل عمل ہے۔ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو بار بار اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنی روح کو گناہوں سے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “آدم کی تمام اولاد خطاکار ہیں، اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں” (ترمذی)۔ یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ ہر انسان سے غلطیاں ہو سکتی ہیں، لیکن اصل فضیلت ان غلطیوں کو پہچان کر اللہ سے معافی مانگنے میں ہے۔ اسلام ہمیں خود کو بہتر بنانے کی ترغیب دیتا ہے، جہاں ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے اور آئندہ بہتر بننے کی کوشش کرنے سے نہیں ڈرتے۔
لیکن یہ اصلاح کا عمل مشکل بن جاتا ہے جب معاشرتی رویے اس کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔ آج کل بہت سے لوگ اپنی غلطیوں کا اعتراف اس خوف سے نہیں کرتے کہ انہیں تنقید یا مذاق کا نشانہ بنایا جائے گا۔ اصلاح کی کوشش کرنے والوں کو اکثر طعنہ دیا جاتا ہے یا ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اس سے ایک ایسا دائرہ بنتا ہے جہاں لوگ اپنی غلطیوں کو کھلے عام قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ جب انہیں مشورہ دیا جاتا ہے تو وہ اسے اپنے عوامی امیج یا شہرت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، اور اصلاح کی بجائے اپنے آپ کو دفاعی رویے میں ڈھال لیتے ہیں۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ روحانی آگاہی کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ دنیا کی چکاچوند میں مگن ہو کر ہم اپنے اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں: اللہ کی عبادت اور سیدھے راستے پر چلنا۔ جب ہماری توجہ آخرت کی بجائے دنیاوی زندگی پر مرکوز ہو جاتی ہے، تو خود کی اصلاح ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہتی۔ ہم اپنی انا کی حفاظت اور ظاہری تصویر کو بچانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
اس سلسلے میں قرآن پاک ہمیں ابدی بصیرت فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الحشر میں فرماتا ہے: “اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا ہے” (59:18)۔ یہ آیت ہمیں مسلسل اپنے اعمال کا جائزہ لینے اور ان کے آخرت میں اثرات پر غور کرنے کی نصیحت کرتی ہے۔ یہ خود احتسابی کی ایک پکار ہے، جو ہمیں اپنے اعمال پر نظر رکھنے اور انہیں درست کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عاجزی اور خود کی اصلاح کا بہترین نمونہ تھے۔ حالانکہ وہ معصوم تھے، پھر بھی روزانہ اللہ سے معافی مانگتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا: “اللہ کی قسم، میں دن میں ستر سے زیادہ بار اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں” (بخاری)۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم، جو تمام مخلوقات میں بہترین تھے، مسلسل توبہ کرتے تھے، تو ہمیں اپنی اصلاح کے لیے کتنی زیادہ کوشش کرنی چاہیے؟
آخر میں، خود کی اصلاح کے عمل میں صبر اور استقامت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ عمل راتوں رات مکمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مستقل مزاجی اور پختہ عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں، ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت ضرور دیں گے” (29:69)۔
خود کو بہتر بنانا ایک خوبصورت عمل ہے جو زندگی کے اعلیٰ مقصد کی عکاسی کرتا ہے۔ اصلاح کے ذریعے ہم روحانی طور پر ترقی کرتے ہیں اور اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے عاجزی، خود احتسابی اور دوسروں کی نصیحت کو قبول کرنے کی صلاحیت درکار ہے۔ جب کوئی ہماری غلطیوں کی نشاندہی کرے تو ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ہماری اصلاح میں مدد کی۔ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو خود کو پاکیزہ بناتے ہیں اور سیدھے راستے پر چلتے ہیں، اور قرآن و حدیث اصلاح کے خواہاں لوگوں کے لیے بہت سی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ آئیے ہم اس اصلاح کی پکار کو سنیں کیونکہ یہی اللہ کے پسندیدہ بندوں کا راستہ ہے۔