ابھی قیام پاکستان کو 4 سال ہی ہوئے تھے کہ 16؍اکتوبر 1951 کواس نئے ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں اسی مقام پر شہید کر دیا گیا جہاں 66 سال بعد ایک اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا اور وہ ہے لیاقت باغ۔ دونوں ہی ’’قتل کی فائلیں‘‘ یہ کہہ کر بند کر دی گئیں کہ یہ کوئی غیر ملکی ہاتھ ہے اصل قاتل بھی بچ گئے اور سازش بھی بے نقاب نہ ہوئی یا نہ ہونے دی گئی۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ ہم 76سال میں نہ قوم بن سکے نہ قومی جمہوری سوچ بنا سکے بس نعرہ ہی لگاتے رہے
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
آج کی صورت حال دیکھیں تو اس سوچ کا فقدان واضح طور پر ہماری لیڈر شپ میں اور ریاستی بیانیہ میں نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ یہ پاکستان کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اسلام آباد میں ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کی سربراہی کانفرنس ہو رہی ہے جس نے مجھے 1974 کی اسلامی سربرا ہی کانفرنس کی یاد دلا دی بس فرق نظر آیا تو اتنا کہ اس وقت کی قومی قیادت حکومت اور اپوزیشن نے اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ دیے تھے اور دنیا کو ایک مثبت اور متحد قوم کا پیغام دیا تھا۔ مگر اس وقت دونوں ہی جانب سے نہ صرف غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا جا رہا ہے بلکہ شاید ہم اتنے اہم مواقع کو پاکستان کے حق میں بدلنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ اس غیر دمہ داری کی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ پچھلے ایک دو ہفتہ میں کیا ہوا اور کیا ہونا چاہئے تھا۔
(1) پاکستان تحریک انصاف کی کانفرنس کے عین موقع پر احتجاج کی کال سمجھ سے بالاتر ہے۔ 15 تاریخ اور ڈی چوک کا انتخاب جس پر خود پارٹی میں تقسیم نظر آئی۔ اگر پی ٹی آئی یا بانی پی ٹی آئی ایک ہفتہ کیلئے تمام سرگرمیاں ملتوی کرتےاور غیر ملکی مہمانوں کو خیر مقدمی بیانات کے ذریعہ مثبت پیغام دیتے تو ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہوتا۔ تاہم پیر کی رات پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کی جانب سے ایس سی او اجلاس کے موقع پر 15 اکتوبر کے احتجاج کو موخر کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی بانی کے طبی معائنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پی ٹی آئی غیرمشروط طور پر اعلان کرتی اور حکومت پہلے ہی انکی بہن سے ملاقات کراتی اور طبی معائنہ بھی۔ آخر ہم کب تک انا کی سیاست کے اسیر رہیں گے۔
(2) حکومت اگر 26ویں آئینی ترمیم کی مہم جوئی موخر کردیتی، پی ٹی آئی پر کریک ڈائون روک دیتی تو کوئی قیامت نہیں آنی تھی نہ حکومت جانی تھی۔
(3) کیا یہ وقت تھا کہ ایک طرف پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی لگانے کا اور پھر دو دن بعد ہی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز کتنا اچھا پیغام گیا! جب کے پی کے وزیراعلیٰ علی مین گنڈا پور درمیان میں وزیر داخلہ محسن نقوی ان کے بائیں جانب اور گورنر فیصل کریم کنڈی دائیں جانب بیٹھے نظر آئے۔ اور ایجنڈا پی ٹی ایم کا جرگہ جس کو چند دن پہلے کالعدم قرار دیا تھا۔ پابندی کی ضرورت کیا تھی؟
(3) بلوچستان کی اس وقت سب سے موثر اور مقبول آواز ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ہے۔ جتنی کوششیں 26 ویں آئینی ترمیم اور آئینی عدالتیں قائم کرنے کی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کر رہی ہے اس سے کم میں ماہ رنگ کو مذکرات کی ٹیبل پر لایا جاسکتا تھا۔ مگر ہوا کیا وہ امریکہ جا رہی تھی وہاں کے جریدے “TIME” کی ایک تقریب میں شرکت کیلئے مگر کراچی ایئرپورٹ پر اسے روک لیا گیا۔ میں نے اس سے پوچھا آخر کیا وجہ تھی اس نے جواب دیا ’’FIA کے ایک افسر نے آکر کہا آپ کے ویزا میں کچھ مسئلہ ہے میں نے کہا اگر ایسا ہے تو امریکہ میں مجھے داخل نہیں ہونے دیا جائے گا مگر یہ آپ کا مسئلہ نہیں‘‘۔ اس کی باتوں سے ریاست اختلاف کر سکتی ہے مگر وہ کہتی ہے میں جمہوریت پر یقین رکھتی ہوں مگر جمہوریت آئے تو۔ رہی سہی کسر ہم نے کراچی میں ہی اس پر غداری کا مقدمہ قائم کرکے پوری کر دی۔ (4) عملی طور پر اس وقت پورے ملک میں دفعہ 144 لگی ہوئی ہے اور کراچی میں تو ’’رواداری مارچ‘‘ کو غیر رواداری طریقہ سے ریاستی جبر سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ جو ویڈیو اور تصاویر ٹی وی چینل، سوشل میڈیا اور اخبارات میں نظر آئیں وہ ایک ایسے موقع پر جب ہم اتنی بڑی کانفرنس کرنے جارہے ہیں، کیا پیغام گیا دنیا میں؟
(5) کراچی ایئر پورٹ پر چینی انجینئرز پر خود کش حملہ جس میں دو چینی باشندے ہلاک ہوئے نقصان اس سے زیادہ ہوسکتا تھا۔ ہم نے بڑی آسانی سے اسے غیر ملکی سازش کہہ کر نمٹا دیا۔ اس موقع پر اس سے بڑی انٹیلی جنس کی ناکامی کیا ہو سکتی ہے۔ ذرا غور کریں شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس ، چین کے وزیر اعظم کا چار روزہ دورہ پاکستان اور یہ واقعہ۔
اگر اس دوران واقعی کوئی مثبت پیغام اور روشنی کی کرن نظر آئی تو وہ کراچی میں ہی بین الاقوامی تھیٹر، کلچرل فیسٹیول جس میں 38 ممالک کے گروپس شرکت کر رہے ہیں۔ اس کا کریڈیٹ یقینی طور پر آرٹس کونسل کی گورننگ باڈی اور صدر احم دشاہ کو جاتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ کی آمد سے دونوں ملکوں کے درمیان برف نہ بھی پگھلی ہو لیکن بہرحال پیش رفت کو مثبت ہی کہا جا سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی پوری تاریخ ہے اور جو مواقع ملے وہ بھی ہم نے ضائع کر دیئے مثلاً جب بھارتی وزیراعظم واجپائی لاہور آئے تھے یا جب صدر پرویز مشرف آگرہ گئے تھے۔ یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی کہ پڑوسی تبدیل نہیں کیےجا سکتے ہماری سوچ بدقسمتی سے تعلقات کشیدہ رکھنے کی ہی رہی ہے اور بی جے پی کی تو سیاست کا محور ہی پاکستان دشمنی رہا مگر مواقع ہم نے اپنی غلطیوں سے گنوا ئے۔
سوال یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس تو کل تک ختم ہو جائے گی بس دعا ہے کہ سب ٹھیک رہے کیونکہ پاکستان کسی طرح کی منفی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ معاشی طور پر آگے بڑھنا ہے تو جمہوری نظام کو مستحکم کرنا ہو گا۔مگر آنے والے دو ہفتوںمیں ہم جو کرنے جا رہے ہیں اس کے مثبت اشارے نہیں آ رہے۔ جو زبان علی امین گنڈا پور یا خواجہ آصف استعمال کر رہے ہیں اس سے تصادم تو ہو سکتا ہے تعاون نہیں پیدا ہو سکتا ۔ لہٰذا 17اکتوبر سے 25اکتوبر تک ہم اگر کسی اتفاق رائے پر پہنچ گئے 26ویں آئینی ترمیم پر تو اچھی خبر ہوگی مگر مجھے تو جمہوریت پر سیاہ بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں یہ برسے بغیر چلے جائیں تو بہتر ہو گا۔