روزنامہ جنگ لاہور کے کلچرل، سماجی و مذہبی وِنگ کے زیراہتمام ” اِقراء“ کے عنوان کے تحت تعلیم کے موضوع پر سیمینار کا اہتمام کیا گیا، پروگرام آرگنائزر (انچارج) واصف ناگی اور کوآرڈی نیٹر افتخار احمد سعید نے بہت محنت سے پروگرام آرگنائز کیا۔ بطور مہمانِ خصوصی شرکت اور طبقاتی نظامِ تعلیم، تعلیمی پالیسی، نصابِ تعلیم اور نئی نسل کی بہتر کونسلنگ اور رہنمائی کے حوالہ سے مقالہ پیش کیا۔ اس اہم موضوع کے حوالہ سے لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر، ماہرینِ تعلیم، محکمہ تعلیم سے وابستہ افسران اور دیگر معززین نے بھی خطاب کیا۔ موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر اس موقع پر پیش کردہ اپنے مقالہ کو زیرِ نظر تحریر کی شکل میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
تعلیم کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں:
تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا اخلاق و کردار سنوراتی ہے۔ دنیا میں ہر چیز بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے۔ اسلام میں تعلیم کے حصول کو فرض کا درجہ دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔اسلام کی سب سے پہلی وحی اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ؐ پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے۔قرآنِ مجید کی سورۃ العلق (آیت 1 تا 5) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾
(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑا کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا)۔
آنحضرتﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ “حصول علم ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض ہے”۔ ایک دوسری حدیث مبارکہ میں سرورِ کائناتﷺ کا فرمانِ مبارک ہے کہ “علم حاصل کرو، چاہے اس کے لیے تمہیں چین کیوں نہ جانا پڑے”(چین کا استعارہ انتہائی دور دراز علاقے کی مناسبت سے استعمال کیا گیا ہے)۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت کے ذریعے اخلاق ، امانت و دیانت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی لیکن مسلمان جوں جوں تعلیم و تعلم سے دور ہوتے گئے، وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے اور دیگر قومیں اُن پر غالب آگئیں۔ نظامِ تعلیم ایسا ہو جو فرد میں احساسِ ذمہ داری، خیرخواہی، تحمل، برداشت اور ایک دوسرے کی عزت و احترام کا جذبہ پیدا کرے۔ اسلامی فلسفہ تعلیم یہی ہے کہ لوگوں کی ذہنی ، علمی اور دماغی صلاحیتوں کو اعلیٰ انسانی اقدار پر استوار کیا جائے، تاکہ معاشرے میں نیکی رائج ہو، کسی کی حق تلفی و دل آزاری نہ ہو، باہمی احترام و یگانگت پر مبنی معاشرہ قائم ہو اور خالق ِ کائنات کی رضا اور فکرِ آخرت کو پیش ِنظر رکھ کر مقصدِ زندگی کا تعین کیا جائے۔ دراصل اسلام میں تعلیم ایک ایسا بامقصد عمل ہےجس کے ذریعے معاشرے میں اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں فرد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے سرانجام دینا مقصود ہے۔
پاکستان میں نظامِ تعلیم کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ یہ ہے ریاستی سطح پر دو قومی نظریہ، قیامِ پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں یکساں نظام و نصابِ تعلیم کی بجائے نظام و نصابِ تعلیم کی طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل آج کا نوجوان بنیادی اسلامی تعلیمات اور اقدار سے عاری اور عملی زندگی میں اپنے مقصدِ حیات سے لاعلم رہتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب محض اسکول، کالج، یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ تہذیب و تمدن ، اخلاق و کردار کی بلندی پر فائز ہونا ہی دراصل حصولِ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ فرد کی اصلاح کے ذریعے انسانی معاشرہ میں مثبت روایات اور اقدار کا فروغ ہمارے تعلیمی نظام کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ آج کا دور ڈیجیٹل میڈیا، کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دورہے ، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے، تعلیمی اداروں میں بنیادی عصری علوم ،ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، لاء، میڈیکل اور دیگر جدید علوم و فنون کی تعلیم آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے۔ یہ سارے جدید علوم و فنون تو ضروری ہیں ہی البتہ اس کے ساتھ ساتھ بحیثیت مسلمان ہمارے لیے دینی علوم ، احکاماتِ الٰہیہ ، سیرتِ رسول ﷺ ، صحابہ کرامؒ اور یگر مشاہیرِ اسلام کی زندگی اور کارناموں سے خاطر خواہ آگاہی بھی ضروری ہے، تاکہ عملی زندگی میں ایک باعمل مسلمان اور ذمہ دار شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔ ایک مسلمان کی زندگی میں عبادات و معاملات کی درستگی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ حقوق اللہ کیساتھ ساتھ حقوق العباد کا اہتمام معاشرے میں باہمی محبت، خلوص،ایثار،خدمتِ خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات کو بیدار اور فروغ دینے کا سبب بنتے ہیں ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صالح اور نیک معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے اور باہمی رواداری و یگانگت فروغ پاتا ہے۔
کسی بھی قوم کے تابناک مستقبل کا انحصار اُس کے بہترین تعلیمی نظام کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ آئین کے مطابق تعلیم ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، لیکن ریاست اپنی اس بنیادی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہونے کی بجائے دانستہ روگردانی کا ارتکاب کررہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر میں فرسودہ ، طبقاتی اور جاگیردارانہ تسلط پر مبنی نظامِ تعلیم رائج ہے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے تو دوسری طرف بے روزگاری کے باعث لوگ اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے سے قاصر ہیں۔ تعلیم کے لیے مختص حکومتی بجٹ میں مسلسل کمی، بلکہ اب تو پنجاب، سندھ حکومت کی طرف سے سرکاری تعلیمی اداروں کی نج کاری کا اعلان کیا جاچکا ہے جس پر عملدرآمد جاری اور جس کے خلاف ماہرینِ تعلیم، اساتذہ کرام اور والدین سراپا احتجاج ہیں۔ لہذا عوام بالخصوص غریب طبقہ کے اندر تعلیم کی اہمیت بارے آگاہی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات میں کمی لانے اور تعلیم سب کے لیے یقینی بنانے کے عزم کیساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ڈھائی کروڑ سے زائد بچے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوسکیں۔ بالخصوص شمالی علاقہ جات، دور دراز علاقوں میں تعلیمی اداروں میں اضافہ اور پہلے سے موجود اداروں میں اساتذہ اور بنیادی سہولیات کی فراہمی اور انرولمنٹ میں اضافہ کے لیے حسبِ ضرورت نئے بلاکس کی تعمیر و توسیع کے جامع پروگرام پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ طبقاتی نظامِ تعلیم کے باعث ملک کا تعلیمی نظام بھیڑ چال کا شکار ہے۔ قیامِ پاکستان کے مقاصد سے ہٹ کر سیکولر/لادین سوچ کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کی بھرمار نے سوسائٹی کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات میں منشیات کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان مستقبل کے معماروں کو دیمک زدہ کررہی ہے، جس کے خلاف بھرپور اور نتیجہ خیز ایکشن پر مبنی آپریشن کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح تکنیکی تعلیم کی بجائے روایتی تعلیم پر توجہ کے باعث اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہورہی ہے جو عملی میدان میں اپنی صلاحیتیں ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کرنے سے عاری ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ اِن نوجوانوں میں بے روزگاری، غربت، ذہنی، نفسیاتی مسائل سمیت صحت عامہ سے متعلق مسائل میں غیرمعمولی اضافہ ہورہا ہے، عمومی معاشرتی عام ہورہی ہیں اور بحیثیتِ مجموعی شعور سے عاری ایک بے ہنگم معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے۔ قومی ترقی میں نوجوانوں کی عدم شمولیت کے باعث معاشی تنزلی اور مثبت سیاسی، سماجی سرگرمیاں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ پسماندہ معاشروں میں اشرافیہ (ایلیٹ طبقہ) ترقی یافتہ، عیاش اور باقی سارے ملک کی عوام محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی حالت اِس وقت ہمارے ملک کی ہوچکی ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی استحصال پرمبنی قوم کے اندر کبھی بھی تحقیق و جستجو اور آگے بڑھنے کا رجحان فروغ نہیں پاسکتا۔ عمومی معاشرتی انحطاط کے اس گرداب سے نکلنے کا وحد راستہ نوجوانوں میں قرآن و سنت اور بنیادی دینی مسائل و معاملات سے آگاہی ، غیر تعلیم یافتہ افراد کے اندر تعلیمِ بالغان یا تعلیمی ایمرجنسی پر مبنی دیگر پروگرامات کے ذریعے بامقصد اور نظریہ پاکستان کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم کا فروغ ہے۔
آج مغربی معاشرہ ٹیکنالوجی اور مادیت پرستی کے دوڑ میں ترقی کے منازل تو طے کررہا ہے لیکن دُنیا میں ظلم، جبر و استبداد اور قتل و غارت گری کی نئی تاریخیں بھی اُن ہی کے ذریعے رقم ہورہی ہیں۔ فلسطین غزہ پر امریکی، برطانوی سرپرستی میں اسرائیلی صیہونی درندگی نے 23 لاکھ انسانوں کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے، لیکن انسانی حقوق کے نام نہاد لبرل، مغربی علمبردار تاریخ کی اِس بدترین انسانی نسل کشی (genocide) کو روکنے سے قاصر ہیں۔ بدقسمتی سے 2 ارب مسلمانوں کی نمائندہ، 80 لاکھ فوج کی حامل اسلامی دنیا کے حکمران بھی اسلامی تعلیمات سے روگردانی اور دنیاوی جاہ و جلال، عیش و عشرت میں مبتلا ہوکر اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے قتلِ عام کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا ہے اور ظلم کا خاتمہ کرنا ہے تو نظامِ حکومت، نظامِ معاشرت کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے تابع کرکے چلانا ہوگا۔
اِنسانی معاشرے میں تعلیم کی بے پناہ اہمیت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نہ تو ؑعصری تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے، نہ ہی دینی تعلیم کا فروغ حکومتی ترجیحات کا حصہ رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں سرکاری خرچ سے چلنے والے تعلیمی ادارے معیاری تعلیم دینے سے قاصر ہیں وہیں ملک کے طول و عرض کے دینی مدارس میں اپنی مدد آپ کے تحت بہترین پاکیزہ دینی ماحول میں زیرِ تعلیم 20 لاکھ طلبہ و طالبات آج نہ صرف کسی قسم کی حکومتی سرپرستی سے محروم ہیں بلکہ اُن کے لیے حصولِ علم کی راہ میں رُکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف ملک میں رائج الوقت عصری نظامِ تعلیم کی زبوں حالی اور اس جانب حکومت کی عدم توجہی کا یہ حال ہے کہ پاکستان میں اڑھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی 2021-22ء کی تعلیمی شماریات رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں سے پنجاب میں ایک کروڑ 17 لاکھ، سندھ میں 76 لاکھ، خیبر پختون خوا میں 36 لاکھ، بلوچستان میں 31 لاکھ ، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 80 ہزار بچے اسکول نہیں جارہے ۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سکول جانے کی عمر کے اوسطاً 39 فیصد بچے اِس وقت اسکول سے باہر ہیں،بلوچستان میں سب سے زیادہ 65 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے چلڈرن ایمرجنسی فنڈ کے مطابق پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی عالمی فہرست میں پاکستان سب سے اوپر ہے، یہ ایک الارمنگ صورتِ حال ہے۔ حکومت ہر بار تعلیمی ایمرجنسی کے اعلانات تو کرتی ہے لیکن نتائج ہمیشہ کی طرف صفر ہی رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کو ترجیحِ اول بنائیں ، حقیقی معنوں میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کرکے مانیٹرنگ اینڈ ایویلو ایشن کے مؤثر نظام کے ذریعے معیارِ تعلیم اور تعلیمی انرولمنٹ میں اضافے کو یقینی بنائے۔
طبقاتی نظامِ تعلیم کے ذریعے قوم کو تقسیم کرکے ریاست تعلیم سے ہاتھ کھینچ رہی ہے، ریاست کا تعلیم کیساتھ یہ معاندانہ رویہ فرسودہ طبقاتی، جاگیردارانہ نظام کی سہولت کاری کا سبب بن رہا ہے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں کے مطابق کسی شعبہ زندگی کے انتخاب اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی غرض سے نوجوانوں کے لیے کیریئر پلاننگ کا باقاعدہ نظام نہ ہونے کے باعث وہ عملی زندگی میں مؤثر کردار ادا کرنے سے عاری ہیں۔ بھیڑ چال کے اس ماحول میں پرائیویٹ شعبہ کی کارکردگی نسبتاً بہتر تو ہے، تاہم نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم مہنگی بلکہ مہنگی ترین ہے، جسے برداشت کرنا غریب اور متوسط طبقے کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ایک عام کسان، مزدور یا کم تنخواہ دار فرد کے بچوں کے لیے نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ خواب ہی ہے، جس سے طبقاتی نظامِ تعلیم کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ تعلیم کی کمرشلائزیشن کے باعث تعلیم و تربیت دو الگ الگ شعبوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ۔
ملک میں نظامِ تعلیم کے انحطاط کی ایک بنیادی وجہ تعلیمی ترقی سے متعلق حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد بھی ہے۔سرکاری تعلیمی اداروں میں ہر سال تعلیمی ترقی کے نام پر کئی ہزار ارب روپے خرچ کیے جانے کے باوجود نتائج قابلِ اطمینان نہیں۔ مشترکہ نصاب سازی پر عدم اتفاق، اساتذہ کی تربیت کے فقدان ، سرکاری تعلیمی اداروں میں 39 فی صد گھوسٹ ٹیچرز ، اِن گھوسٹ اساتذہ کو علاقے کے جاگیرداروں کی سرپرستی کے باعث اکثر اسکولوں کا اوطاق، بیٹھک، اصطبل یا اسی طرح کے دیگر کاموں کے طور پر استعمال، تعلیمی اداروں بالخصوصی دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ریاست کی واضح ناکامی اور تعلیم کے شعبہ کے حوالے سے حکومتی عدم توجہی کا واضح ثبوت ہے ۔ اب تو اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ بھی متعلقہ صوبے کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ایس ڈی جیز (SDGs) کے معیار کے مطابق تعلیم پر جی ڈی پی کا چار فی صد خرچ ہونا ضروری ہے، اس لحاظ سے پاکستان کو رواں سال چار ہزار 242 ارب روپے تعلیم پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے لیکن ملک کے چاروں صوبوں ، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو ملاکر تعلیم کے لیے مختص بجٹ مجموعی قومی آمدن کا ایک اعشاریہ 91 فی صد بنتا ہے ، جو لگ بھگ 2 ہزار 32 ارب روپے بنتے ہیں۔ ایک جانب تعلیم کے لیے مختص رقم ٹھیک طور پر خرچ نہیں کی جاتی تو دوسری جانب بیشتر رقم تنخواہوں کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے ، جبکہ تعلیم کے لیے انفراسٹرکچر کی فراہمی، تحقیق اور تعلیمی معیار کو بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ ملک میں پی ایچ ڈیز کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے مگر معیارِ تعلیم پر بڑے سوالات ہیں۔ طلبہ و طالبات کے لیے حسبِ ضرورت کھیل کے میدان نہیں ہیں، اورجو ہیں اُن میں سہولتیں میسر نہیں۔ سپورٹس آرگنائزیشنز میں سیاسی مداخلت کے باعث کھیلوں کا شعبہ بھی زبوں حالی اور سوشل میڈیا ردعمل کے باعث نوجوان فرسٹریشن، جرائم او رمنشیات کا شکار ہورہے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے تمام اضلاع سمیت بلدیات کی سطح پر تعلیمی اداروں کی کارکردگی سے متعلق پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی جاری کردہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن پرفارمنس رپورٹ (جس کا اجراء امسال ستمبر کے آخری ہفتے میں اسلام آباد میں ہوا ) میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی کارکردگی میں نمایاں تفاوت اور تنزلی کا انکشاف ہوا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں تعلیمی کارکردگی کی پیمائش اور اس کے کلیدی نتائج کے مطابق تعلیم تک رسائی، لرننگ یعنی سیکھنے کے بعد کے نتائج، مساوات اور ٹیکنالوجی کے استعمال، گورننس اور مینجمنٹ (انتظام و انصرام)، انفراسٹرکچر اور پبلک فنانسنگ سمیت سب ہی انڈیکیٹرز وال پذیر دکھائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک کے 134 اضلاع میں پہلے 10 نمبروں میں شمار ہونے والے اضلاع میں اسلام آباد کے بعد پنجاب کے سات اور خیبر پختونخوا کے دو اضلاع شامل ہیں۔سندھ اور بلوچستان کا کوئی ضلع پہلے 10 اضلاع میں جگہ نہیں بنا سکا۔ اسی طرح سب سے پست اسکور کے حامل 10 اضلاع میں بلوچستان کے چھ، سندھ اور خیبر پختونخوا کے دو دو اضلاع شامل کیے گئے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا ضلع شرقی تعلیمی کارکردگی کے حوالے سے سب سے آگے رہا، جس کا 134 میں سے 14 واں نمبر ہے۔اِسی طرح کراچی کے ہی اضلاع وسطی 15 ویں، کورنگی 20ویں، جنوبی 26 ویں، کیماڑی 40 ویں ، غربی 49 ویں اور ملیر 52ویں نمبر پر رہے۔ اندرونِ سندھ تو تعلیم کا کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں۔
08 ستمبر کو دنیا بھر میں ورلڈ لٹریسی ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان 25 ناخواندہ ترین ممالک کی عالمی درجہ بندی میں 16ویں نمبر پرہے۔ دنیا کے جن ممالک میں شرحِ خواندگی زیادہ ہے وہاں انسانی ترقی کی شرح بھی زیادہ ہے اور جن ممالک میں شرح خواندگی کم ہے وہاں انسانی ترقی کی شرح بھی اُسی نسبت سے کم ہے۔ انسانی ترقی کی کی درجہ بندی میں پاکستان کی کارکردگی نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ سمیت کم و بیش 150 ممالک سے بھی نیچے ہے۔
حل کے لیے تجاویز:
ملک میں شرحِ خواندگی میں اضافہ اور معیارتعلیم کی بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ قابل اساتذہ ، معیاری نصاب ، تعلیمی ماحول ، تحقیق، معاشرتی سپورٹ ،ریاستی عزم ،طلبا کا ذوق و شوق جیسے عوامل پر توجہ سے ہم شرحِ خواندگی میں اضافہ کیساتھ ساتھ معیارِ تعلیم میں خاطر خواہ بہتری لاسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ
تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے، جی ڈی پی کا 5 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔
ملک بھر میں آئینِ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے تقاضوں سے ہم آہنگ یکساں نظامِ تعلیم رائج کیا جائے۔
قومی تعلیمی پالیسی کا باقاعدہ اعلان کرکے تعلیمی ایمرجنسی کے تحت آئندہ 5، 10 سالہ اہداف کا واضح تعین کیا جائے۔
تعلیم کو قیامِ پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت کے پیشِ نظر پرائمری سطح سے ہی قرآن و حدیث کی تعلیم لازمی قرار دی جائے ۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تقابلِ ادیان، بین المذاہب ہم آہنگی، مسلکی اتحاد و یگانگت اور قومی رواداری پر مبنی مضامین کو قومی تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کی تعلیم دشمن پالیسی ترک کرکے اعلیٰ تعلیم تک غریب اور متوسط طبقے کی رسائی آسان اور یقینی بنائی جائے۔
وفاقی حکومت نے جو ایجوکیشن ٹاسک فورس تشکیل دی ہے، اس میں ماہرینِ تعلیم، دینی مدارس بورڈز کے ذمہ داران کو شامل کیا جائے۔
ایجوکیشن ٹاسک فورس معیارِ تعلیم کی بہتری کے لیے تجاویز/اقدامات کیساتھ متفقہ قومی نصابِ تعلیم کی نگرانی کے لیے بھی میکانزم ترتیب دے۔
استاد تعلیمی نظام کا محور و مرکز ہے، اس لیے نظامِ تعلیم کی بہتری، تعلیمی اداروں کی اپ گریڈیشن کیساتھ ساتھ اساتذہ کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں ان کی عزت و تکریم میں اضافے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
سیاسی مداخلت سے پاک اور نظامِ تعلیم کے مؤثر اور غیرجانبدارانہ انسپکشن پر مبنی نظام قائم کیا جائے۔
طلبہ و طالبات کی جمہوری، سیاسی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ و طالبات کے اندر ملک و قوم کی خدمت اور اونرشپ کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے اُن پر اعتماد کیا جائے ، تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کے انتخابات کا حق بحال کیا جائے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے لیکن عملدرآمد نہیں ہورہا۔
امتحانی نظام کی خرابیوں کو دور کیا جائے اور امتحانی مراکز میں طلبہ و طالبات کیساتھ غیر منصفانہ طرزِ عمل، بدعنوانی اور غیرقانونی رشوت کے سدباب کے لیے امتحانی نظام کی اصلاح پر مبنی جامع نظام ترتیب دیا جائے۔
امتحانی نگرانی اور معائنہ کے جسمانی اور نظریاتی پہلوؤں کو بہتر بنانے کیساتھ ساتھ احتساب کے نظام کو بھی بہتر بنایا جائے۔
تعلیمی اداروں میں تحقیق کے کلچر کو فروغ اور اس مقصد کے لیے ہائیر ایجوکیشن کے فنڈز میں اضافہ کیا جائے۔
تعلیم کے ذریعے زندگی کے سماجی، اخلاقی، روحانی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں کی ترقی و فروغ پر مبنی اقدامات کیے جائیں۔
نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کی بہتری کے لیے مضبوط اور خودمختار مالیاتی و انتظامی نظام تشکیل دیا جائے۔
۔۔۔۔۔ ٭ ۔۔۔۔۔