اسرائیل نواز آکٹوپس … تحریر : وسعت اللہ خان


گزشتہ مضامین میں ہم متواتر ان تاریخی اسباب اور شخصی کرداروں کے بارے میں بات کرتے آئے ہیں جن کے سبب آج امریکا اسرائیل سے بھی زیادہ اسرائیل نواز ہے۔اب ہم جائزہ لیں گے کہ امریکی آبادی کا محض سوا دو فیصد حصہ ہونے کے باوجود یہ تاثر کیوں ہے کہ اسرائیل نواز امریکی یہودی لابی کانگریس اور وائٹ ہاوس کے بعد امریکی اسٹیبلشمنٹ کا تیسرا غیر مرئی ستون ہے۔

صرف یہودی لابی کی اصطلاح کا استعمال علمی تحقیق آگے بڑھانے کے لیے مناسب نہیں۔ہر برادری کی طرح امریکی یہودی بھی کسی ایک اکائی کا نام نہیں۔بلکہ اس دائرے میں ایسی یہودی تنظیمیں اور شخصیات بھی ہیں جو صیہونیت کی کٹر مخالف ہیں۔انھیں اسرائیل کی فلسطین کش پالیسیاں ایک آنکھ نہیں بھاتیں اور وہ اس معاملے میں فلسطینی کاز کے ساتھ کھڑی ہیں۔ کہنے کو بارنی سینڈرز اور نوم چومسکی بھی یہودی ہیں مگر اسرائیل کی ناپسندیدہ فہرست میں شامل ہیں۔چنانچہ یہودی لابی کے بجائے اسرائیل نواز امریکی لابی کی اصطلاح کا استعمال زیادہ متوازن رہے گا اور ہم ایک بند گلی کے بجائے ایک بڑی دائرے میں اسرائیل نوازوں کا اجمالی جائزہ لینے کے قابل ہو سکیں گے۔

اسرائیل نواز لابی دراصل کثیر بازو آکٹوپس کی طرح ہے۔ان میں امریکا کے ایوانجلیکل چرچ کے وہ پیرو کار جو خود کو مسیحی صیہونی (کرسچن زانسٹ) سمجھتے ہیں اور اس چرچ کے لگ بھگ ستر لاکھ پیروکار کرسچن یونائیٹڈ فار اسرائیل نامی تنظیم کے متحرک رکن ہیں۔ کانگریس اور صدارتی انتخاب میں یہ ستر لاکھ ووٹ بہت اہم ہیں۔

آکٹوپس کا دوسرا اہم بازو امریکن اسرائیل پبلک افیرز ( ایپک ) نامی طاقتور لابی گروپ ہے۔ اس کی شاخیں امریکی کانگریس میں اسرائیل نواز ارکان کو منتخب کروانے اور اسرائیل مخالف ارکان کی انتخابی جیت کو مشکل بنانے کے لیے دامے درمے سخنے متحرک رہتے ہیں۔ایپک کا بجٹ کروڑوں ڈالر میں ہے۔

آکٹوپس کا تیسرا بازو امریکی کارپوریٹ سیکٹر کی وہ کمپنیاں ہیں جن کے بورڈ رومز میں اسرائیل نواز یہودی یا غیر یہودی ارکان کی اکثریت ہے یا پھر ایسی کمپنیاں جن کا اسرائیلی ہائی ٹیک کمپنیوں سے قریبی اشتراک ہے۔

جب کہ مشرقِ وسطی کے تعلق سے آئیل لابی اور سب سے بڑھ کے امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں اس آکٹوپس کے اضافی بازو ہیں۔ ایک اور طاقتور بازو امریکی بیوروکریسی کی اہم پالیسی ساز کرسیوں پر فائز اسرائیل نواز بابو ہیں۔

جب آکٹوپس اپنے تمام بازوں کی مدد سے انتخابی نظام ، کیپیٹل ہل ( کانگریس ) اور وائٹ ہاوس کو جکڑتا ہے تو نتیجہ ایک کٹر اسرائیل نواز پالیسی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔آگے چل کر ہم فردا فردا ہر کردار کو دیکھیں گے۔مگر آپ تو جانتے ہیں کہ کوئی بھی تجزیہ پس منظر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

دیگر فرقوں کی طرح کرسچن ایوانجلیکل چرچ کے پیروکاروں کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ قیامت آنے سے پہلے ظہورِ عیسی ہو گا۔ یہ ظہور تب ہو گا جب فلسطین میں یہودی پچھلے ڈھائی ہزار برس میں دو بار تباہ ہونے والے ہیکلِ سلیمانی کو تیسری بار تعمیر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر جب ظہورِ عیسی ہو گا تو یہودیوں سمیت پوری انسانیت شریعتِ عیسوی قبول کر لے گی۔

البتہ تیسرا ہیکل تب ہی تعمیر ہو سکتا ہے جب عہدنامہ عتیق کے مطابق یہودیوں کو عراق تا مصر کھوئی ہوئی سابق سلطنت دوبارہ عطا ہو جائے اور خدا کی یہ برگزیدہ امت اس قدر مضبوط ہو جائے کہ ہیکل کی تعمیر کر سکے۔چنانچہ تمام مسیحی دنیا کا مذہبی فرض ہے کہ وہ اسرائیل کو ہر طرح سے مضبوط بنائے اور اس کا ساتھ دے۔

اس عقیدے کی روشنی میں صیہونیت کی پیدائش سے بھی تریپن برس پہلے اٹھارہ سو چوالیس میں نیویارک یونیورسٹی کے شعبہِ انجیل کے استاد اور مبلغ جارج بش ( موجودہ بش خاندان کے جدِ امجد میں سے ایک)نے ظہورِ اسرائیل و عیسی کے موضوع پر ایک کتاب ( دی ویلی آف ویژن ) شایع کی۔اگلے بیس برس میں اس کتاب کے ایک ملین نسخے فروخت ہوئے۔

اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ کئی صدیوں سے راندہِ درگاہ اہلِ یہود کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی ہم سب کا مذہبی فریضہ ہے۔تاکہ خداوند کی اس چنیدہ امت کے وسیلے سے ہمارا خدا سے رابطہ مستحکم ہو سکے۔

اٹھارہ سو اکیانوے میں تصورِ ظہورِ مسیح کے ایک سرکردہ مبلغ ولیم بلیک اسٹون نے امریکی صدر بنجمن ہیریسن کو ایک عرضداشت بھیجی۔اس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومتِ امریکا سلطنتِ عثمانیہ کو باور کروائے کہ ارضِ فلسطین یہودیوں کی سرزمین ہے۔اس عرضداشت کے چھ برس بعد اٹھارہ سو ستانوے میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بیسل میں پہلی عالمی صیہونی کانفرنس میں یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ قومی وطن کے حصول کی کوششیں تیز کرنے کا عہد کیا گیا۔

اس کانفرنس میں اس وقت کی یورپی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے اہم یہودی خانوادوں بشمول روتھ چائلڈز فیملی کی نمایندگی بھی تھی۔روتھ چائلڈز کی معاشی طاقت کا اندازہ یوں لگائیے کہ وہ انیسویں صدی میں نپولین سے لڑائیوں کے دور سے پہلی عالمی جنگ تک یورپی بادشاہتوں کو جنگی قرضے دیتا آیا تھا۔لہذا اس خاندان کی ہر یورپی دربار میں بلا روک ٹوک رسائی تھی۔

انیس سو سترہ میں برطانوی وزیرِ خارجہ لارڈ آرتھر بالفور کے جس شہرہِ آفاق خط میں جنگ کے بعد فلسطین میں ایک یہودی قومی وطن کے قیام میں مدد دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔اس خط کے مخاطب لارڈ والٹرروتھ چائلڈز ہی تھے۔بالفور اور والٹر صیہونی تحریک کے بانی اور کیمیاوی سائنسدان خائم ویزمین کے قریبی دوست تھے۔ والٹر روتھ چائلڈز صیہونی تحریک کی مالیاتی آکسیجن تھے۔

امریکا میں صیہونیت کی مقبولیت پہلی عالمی جنگ سے قبل پھیلنی شروع ہوئی۔ سپریم کورٹ کے ایک ایڈیشنل جج ( انیس سو سولہ تا انتالیس ) لوئی برینڈیز نے جنگ کے نتیجے میں یورپی ممالک میں آباد یہودیوں کی امداد کے لیے بھاری چندہ جمع کرنے کے لیے ایک صیہونی کمیٹی تشکل دی۔ اس کمیٹی نے امریکی کانگریس کو اپنے موقف کے حق میں ہموار کرنے کی پہلی کامیاب کوشش کی۔

چنانچہ اعلانِ بالفور کے پانچ برس بعد اکیس ستمبر انیس سو بائیس کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں نے فلسطین میں ایک یہودی قومی وطن کے حق میں قرار داد بھاری اکثریت سے منظور کر لی۔ اسی روز اقوامِ متحدہ کی پیش رو تنظیم لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو شکست خوردہ سلطنت عمثانیہ کے علاقے فلسطین کا نگراں مقرر کر دیا۔برطانوی افواج دو ہزار سترہ میں ہی فلسطین پر قابض ہو چکی تھی۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر نازی کیمپوں سے آزادی پانے والے یہودیوں کے غول کے غول برطانوی حمائیت سے بحری جہازوں کے ذریعے فلسطین کے ساحل پر اترنے لگے۔ اقوامِ متحدہ کے جھنڈے تلے فلسطین پر قابض ویٹو طاقت برطانیہ ، برطانیہ کی اتحادی ویٹو طاقت فرانس اور قوم پرست چین اور ان سب کی سرپرست ویٹو طاقت امریکا کی چھتر چھایا تلے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے فلسطینیوں سے رائے لیے بغیر نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ پچپن فیصد فلسطین دس فیصد یہودیوں کو اور پینتالیس فیصد فلسطین نوے فیصد آباد عربوں کو دے دیا گیا۔اس قرار داد کے منظور ہوتے ہی مسلح یہودی جتھوں نے فلسطینی آبادی کو اپنے الاٹ شدہ علاقے سے کھدیڑنا شروع کر دیا اور ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کے سر پر گٹھڑی رکھوا کے ہنکال دیا۔

پارٹیشن قرار داد منظور ہونے کے چھ ماہ بعد پندرہ مئی انیس سو اڑتالیس کو اسرائیل کے قیام کا اعلان ہو گیا اور اگلے دو برس میں اسرائیل نے عربوں کو الاٹ ہونے والے علاقے میں سے بھی ستر فیصد علاقہ چھین لیا۔

اس ناجائز قبضے کو حلال بنائے رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ اب دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی سرکار اور منتخب ارکان کو مسلسل مٹھی میں رکھا جائے۔یوں ایک وسیع تر اسرائیل نواز امریکن لابی کے آکٹوپس کا جنم ہو ا (جاری ہے)۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس