1970 کی دہائی میں انقلاب کے خواب دیکھنے والے مائوزے تنگ سے بہت متاثر تھے۔ پاکستانیوں کو وہ اس وجہ سے بھی بہت پسند تھے کیونکہ 1965 میں بھارت کے خلاف ہوئی جنگ کے دوران ان کا ملک چین ہماری حمایت میں ڈٹ کر کھڑا نظر آیا تھا۔ مائوزے تنگ جس زبان ولب ولہجہ میں امریکا ہی کو نہیں بلکہ کمیونسٹ ہونے کے دعوے دار سوویت یونین کو بھی سامراج پکارتے ہوئے للکارتے وہ ہمارے لہو کو گرمادیتا۔ دنیا کی دونوں بڑی سپرطاقتوں پر کڑی تنقید کے علاوہ مائوزے تنگ بھارت کو بھی توسیع پسند ٹھہراتے ہوئے کشمیر پر اس کے قبضے کی مذمت کرتے سنائی دیتے۔
جس دہائی کی میں بات کررہا ہوں اس کے آغاز میں مائوزے تنگ کے مضامین آسان ترین اردو زبان میں ترجمہ ہوکر چھوٹے کتابچوں میں وسیع پیمانے پر میسر تھے۔ انقلابیوں کے لیے انھیں پڑھنا اور پڑھ کر سمجھنے سے کہیں زیادہ بسااوقات بلاجواز بحث کے دوران کوٹ کرنا بھی لازمی ہوتا تھا۔ جو کتابچے ہم صحیفوں کی صورت احترام سے پڑھاکرتے ان کے عنوان بہت سادہ اور اکثر نعروں کی طرح سنائی دیتے۔ ایسے ہی کتابچوں میں سے ایک کا عنوان تھا:انتہا پسندی کی مخالفت کرو۔ اسے پڑھنے کے دوران میری ایک فقرے پر نظر پڑی۔ فقرہ تھا سرخ جھنڈا اٹھاکر سرخ جھنڈے کی مخالفت کرنا۔ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود اس کتابچہ کا عنوان اور مذکورہ فقرہ مجھے آج بھی کئی بار اخبارات پڑھتے ہوئے یاد آجاتا ہے۔
مذکورہ مضمون لکھتے ہوئے مائوزے تنگ نے بنیادی پیغام یہ دیا کہ انقلابی جماعتوں میں اکثراوقات حکمران اشرافیہ ایسے ایجنٹ داخل کردیتی ہے جو خود کو کٹر انقلابی بناکر پیش کرتے ہیں۔ اپنا کٹرپن ثابت کرنے کے بعد ان کی خواہش ہوتی ہے کہ مناسب تیاری کے بغیر حکمران اشرافیہ کے ساتھ تخت یا تختہ والی جنگ چھیڑدی جائے۔ ایسی جنگ میں حکمران اشرافیہ کی کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ اس جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مگر انقلابیوں کو بے رحمی سے کچلنے کے جواز فراہم ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں تبدیلی کے خواب دیکھنے والے مایوس ہوکر امید کھودیتے ہیں۔ سرخ جھنڈا اٹھائے حد سے زیادہ کٹر سنائی دیتے انقلابیوں سے مرعوب ہونے کے بجائے ان کے پوشیدہ عزائم کی جانکاری درکار ہے۔
یہ کالم اگر آپ نے یہاں تک پڑھ لیا ہے تو یقینا ذہن میں سوال آیا ہوگا کہ اکتوبر 2024 کی ایک صبح اٹھ کر مجھے مائوزے تنگ اور اس کے لکھے کتابچے کیوں یاد آرہے ہیں۔ فورا عرض کیے دیتا ہوں کہ وجہ اس کی تحریک انصاف کے چند انقلابی رہنماؤں کی جانب سے ہوا یہ اعلان ہے جس کے ذریعے وہ عاشقان عمران کو 15اکتوبر بروز منگل کے دن ہر صورت اسلام آباد کے ڈی چوک میں جمع ہوا دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس روز اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اجلاس منعقد ہورہا ہوگا۔ مذکورہ اجلاس میں روس اور چین کے وزرائے اعظم شریک ہوں گے۔ بھارت کے وزیر خا رجہ بھی ایک طویل وقفے کے بعد پاکستان کے دارالحکومت میں اسی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی خاطر موجود ہوں گے۔ اس کے علاوہ ہنگائی حالات میں محصور ہونے کے باوجود ایران کے وزیر خارجہ نے بھی اس کانفرنس میں آنے کا وعدہ کررکھا ہے۔
ایس سی او کا جو اجلاس منگل کے روز شروع ہونا ہے اس کے لیے معزز مہمانوں کی آمد کا آغاز پیر کے دن سے شروع ہوجائے گا۔ جن ممالک کے حکومتی یا ریاستی سربراہ ایس سی او کے اجلاس میں شریک ہورہے ہیں وہاں کے مختلف محکموں کے اعلی سطحی افسران کی بڑی تعداد ہفتے کی شام ہی سے اسلام آباد پہنچ کر مذکورہ اجلاس کا ایجنڈا اور اس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلانات کے متن پر غوروخوض میں مصروف ہوچکی ہے۔ اسلام آباد کے ریڈزون کو اس کانفرنس کی وجہ سے بقیہ شہر سے تقریبا کاٹ دیا گیا ہے۔
کسی اور کی مثال کیا دینا، میں ان دنوں ایک ٹی وی چینل کے لیے شام کے 8بجے براہِ راست ٹاک شو کرتا ہوں۔ حفاظتی انتظامات کی خاطر 24/7خبر دینے پر مامور اس ادارے کا دفتر مگر تکنیکی اعتبار سے ریڈزون میں واقع ہے۔ پیر سے بدھ تک میں اپنا شو اپنے گھر سے ڈی ایس این جی کے ذریعے ناظرین تک پہنچاؤں گا۔ فقط ریڈ زون ہی نہیں وہاں تک جانے والے راستے بھی پورے تین دنوں تک کرفیو کی زد میں آئے نظر آئیں گے۔ ایسے عالم میں خبر نہیں کہ عمران خان کا دل وجان سے فدائی شخص بھی کیسے ڈی چوک پہنچ سکتا ہے۔ اِکا دکا افراد اگر پہنچ بھی گئے توان کے ساتھ ممکنہ سلوک کا سوچتے ہوئے دل گھبرارہا ہے۔
تحریک انصاف کے سرخ جھنڈا اٹھاکر اپنی ہی جماعت کو مشکل میں ڈالنے والے انقلابیوں کو جانے کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے مخالفین ابھی تک یہ بات نہیں بھولے کہ 2014 کے دوران جب عمران خان پارلیمان کے سامنے دھرنا دے رہے تھے تو چینی صدر کو پاکستان آنا تھا۔ تحریک انصاف کے بانی کو بے شمار واسطوں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ وہ کم از کم دو روز کے لیے اپنا دھرنا موخر کردیں تانکہ چینی صدر یہاں تشریف لاسکیں۔ آج آپ کو یہ خبر بھی دے سکتا ہوں کہ اسلام آباد میں ان دنوں تعینات چینی سفارت کاروں کے ایک وفد نے شاہ محمود قریشی صاحب سے براہِ راست رابطہ کرتے ہوئے بھی یہ درخواست کی تھی۔ عمران خان مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بالآخر چینی صدر پاکستان تشریف نہیں لائے۔ ہمارے لیے مزید سبکی کا باعث یہ حقیقت بھی تھی کہ جو دن انھوں نے پاکستان میں گزارنا تھا اس دن وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم مودی کے آبائی شہر احمد نگر تشریف لے گئے۔
چینی صدر عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے پاکستان نہ آپائے تو سازشی تھیوری یہ چلی کہ عمران خان کو سی پیک کے دشمن پاک چین دوستی میں دراڑ ڈالنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ بعدازاں 2018 میں اقتدار سنبھالتے ہی عمران حکومت کے رزاق داؤد اور مراد سعید جیسے وزرا نے سی پیک منصوبوں کے خلاف جو بیانات دیے انھوں نے مذکورہ تھیوری کو ایک اعتبار سے سچا ثابت کرنا شروع کردیا۔ میں ذاتی طورپر سازشی تھیوریاں نہایت شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ اس کے باوجود حیران ہوں کہ اگر چین کے وزیر اعظم 11برس کے طویل وقفے کے بعدپاکستان آرہے ہیں تو عاشقان عمران کو ان کے یہاں قیام کے دنوں میں ہنگامہ آرائی کو کیوں اکسایا جارہا ہے؟
بات فقط انتہا پسند عاشقان عمران تک ہی محدود رہتی تو شاید اتنا پریشان نہ ہوتا، حسین اتفاق یہ بھی ہوا ہے کہ 10اکتوبرکے روز امریکی ایوان نمائندگان کے دو اراکین -تھامس سوزی اور جیک برگ مین- نے امریکی وزیر خارجہ کو ایک چٹھی لکھ کر عمران خان کی قید تنہائی کے حوالے سے عاشقان عمران کی تشویش کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے گویا 15اکتوبر کے روز ہونے والے احتجاج کا جواز فراہم کردیا ہے۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری جانتے ہیں کہ میں عمران خان کے اندازِ سیاست کا مستقل ناقد رہا ہوں۔ اس کی سزا بھی ان کے دور اقتدار میں بھگتی ہے۔ اس کے باوجود نہایت خلوص سے تسلیم کرتا ہوں کہ اقتدار سے رخصت کیے جانے کے بعد موصوف نے نہایت ثابت قدمی سے اپنی جماعت میں دراڑ آنے نہیں دی۔ اپنے حامیوں کو مسلسل متحرک رکھا۔ ان کی جماعت سے سرخ جھنڈا اٹھائے انقلابیوں نے مگر 15اکتوبر کے حوالے سے جو پروگرام بنایا ہے وہ حکومت وقت اور اس کے غیر سیاسی سرپرستوں کو یہ حق فراہم کرے گا کہ تحریک انصاف کو وحشیانہ ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جائے۔ ایس سی او کے انعقاد کے دنوں میں اسلام آباد کی سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کی کوشش کرتی یہ جماعت پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششوں میں ملوث نظر آئے گی۔ کاش تحریک نصاف کے حامیوں نے سرخ جھنڈے نہ اٹھائے ہوتے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت