یقینا جب کبھی ریاست نے فرد کی جبر کے خلاف کی گئی بات سنی ان سنی کی ہوگی ، حقوق کی پامالی پر فضا کو چیرتی چیخ کو نظر انداز کیا ہوگا اور جب استحصال میں حد سے گزر گئی ہوگی تو پھر بہت سارے افراد نے مل کر طاقت کے خمار میں سرشار ریاست کے ایوانوں کے سامنے جمع ہو کر توجہ حاصل کرنے کیلئے آواز بلند کی ہوگی۔ان کا مقصد ریاست کو مکالمہ پر اکسانا ہوگا لیکن گزرتے وقت نے احتجاج کو بہت بے ہنگم اور خوفناک بنا دیا ہے۔دنیا بھر میں احتجاج ہوتے رہتے ہیں اس لیے کہ افراد اور ریاستوں کے مفادات اور ترجیحات آپس میں ٹکراتے ہیں ۔
آج پوری دنیا میں سڑکوں پر ہونیوالے احتجاج کی فہرست بنائیں تو 90فیصد سے زیادہ جلسے جلوس انسانی حقوق کی پامالی کو روکنے اور آئین کی پاسداری کیلئے ہوتے ہیں، کسی فرد کو حکومت دلوانے یا کسی سے حکومت چھیننے کے لیے نہیں۔ ہمارے ہاں کچھ عرصے سے ہر شخص خود کو منوانے کے لیے ریاست سے ٹکر لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔پہلے لوگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنایا کرتے تھے اب ڈیڑھ اینٹ کا الگ ملک بنانے کا رواج چل نکلاہے۔ ذرا سی سیاسی اونچ نیچ پر کچھ گھس بیٹھیے سیاستدان علیحدگی کا نعرہ لگا کر ریاست کو للکارنے لگتے ہیں۔بھلے یہ وقتی توجہ حاصل کرنے کا حربہ ہو مگر یہ نعرہ کئی خرابیوں کو جنم دیتا چلا جاتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ 10 سال سے احتجاج کی سیاست نے لوگوں کے مزاج کا پارہ کافی بلند کیا ہوا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ جس پر تشویش لاحق ہونی چاہیے وہ برداشت ،رواداری اور دوسرے کی رائے کو تسلیم نہ کرنے کا رویہ ہے۔جلوسوں اور دھرنوں نے ہماری نوجوان نسل کو قانون سے ٹکر لینے ، ملکی تنصیبات کی توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی طرف راغب کیا ہے اور اس سلسلے میں ان کی رہنمائی بڑے بڑے عہدوں سے ریٹائر ہونے والے افسران فرما رہے ہیں۔اگر ایک یک دن کی ہڑتال یا احتجاج کا نقصان اربوں میں ہے تو گزشتہ کچھ برسوں میں احتجاجوں کا تخمینہ کھربوں کے نقصانات کی سطح عبور کر چکا ہوگا۔معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پاکستان کا تہذیبی اور اخلاقی تشخص بری طرح مجروح ہواہے۔
کچھ لوگ اپنی منفی سرگرمیوں سے دنیا کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوئے کہ پوری قوم ہی ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ نتیجتا سرمایہ کار آنے سے گریز کرنے لگے بلکہ یہاں برسوں سے موجود غیر ملکی کیا اپنے بھی خوفزدہ ہوکر بوریا بستر سمیٹنے لگے۔ کسی کی یقین دہانی اور منت ترلہ کام نہ آیا کہ سرکار کی بے بسی سب پر عیاں ہو چکی۔سرمایہ کاری کے لیے سب سے زیادہ ضرورت پرامن حالات و واقعات کی ہوتی ہے۔جہاں آئے دن شہر بند کر کے رابطے مفقود کر دیے جائیں وہاں کون سرمایہ کاری کرنے کا خطرہ مول لے گا۔
جب سرمایہ کاری کے لئے ماحول سازگار نہیں ہوگا ،معیشت کا پہیہ بار بار پنکچر ہوگا، قرض کے دھکوں سے وقتی اسٹارٹ ہونے والی گاڑی ترقی کے موٹر وے پر دنیا کی رفتار کے ساتھ نہیں دوڑ سکے گی تو اس کا خمیازہ ہر فرد کو بھگتنا پڑے گا۔خصوصا سفید پوش اور غریب طبقہ زیادہ متاثر ہوگا ان کی زندگی زیادہ مشکلات تلے دبتی چلی جائے گی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہنگامہ آرائی میں ہونے والے نقصانات حکومت اپنی جیب سے ادا نہیں کرتی، عوام کی انتڑیوں سے کشید کرتی ہے ،شہری حکومت کو چلانے کے لیے بھی ٹیکس دیں اور ہجوم کے نقصانات کا ہرجانہ بھی بھریں۔یوں احتجاج کرنے والے حکومت کے خلاف نہیں عوام کے خلاف ہوتے ہیں۔ وہ راستے بند کرکے ترقی نہ کرسکنے کا جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔شنگھائی کانفرنس کے حوالے سے ایک بار پھر احتجاج کا اعلان سن کر حیرت بھی ہوئی اور شرمندگی بھی کہ ہم ایک ایسی قوم کے فرد ہیں جنہیں اپنی زمین کے افتخار اور اپنے لوگوں کی بھلائی کی کوئی پروا نہیں۔ہم بھیک کے کٹورے سے نجات نہیں حاصل کرنا چاہتے۔
حکومت سے مکالمہ کرنے ، اپنے مطالبات منوانے اور دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔ ملک و قوم کا ناطقہ بند کرنے کی بجائے کسی ہال ، چینل، پارک میں بیٹھ کر بات کریں،سوشل میڈیا کے توسط سے وہ دنیا تک پہنچے گی۔ کسی فرد کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ملک اور لوگوں کو نقصان پہنچاتا رہے اور ادارے تماشا دیکھتے رہیں۔سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر کتنے لوگ فیک خبروں کے ذریعے ہیجان پیدا کرنے میں مصروف ہیں مگر قانون بنانے والوں کی جرات حرکت میں نہیں آتی۔ اگر خلاف ورزیاں کرنے والوں کا محاسبہ ہوتا تو سلسلہ آگے نہ بڑھتا۔ یقینا اس میں کہیں نہ کہیں کسی کا فیض اور سہولت کاری جاری ہے۔ خدارا آپس میں نہ لڑیں ، ملک کی تقدیر سے نہ کھیلیں۔لوگوں کے حقوق سلب نہ کریں ، قانون ملک کے مفاد کے خلاف جانے والوں کا محاسبہ کرے۔ سول سوسائٹی کو بھی ملک کو انتشار کی سیاست سے نجات دلانے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔جب واضح ہوچکا کہ احتجاج کرنے والے اس ملک کی معیشت کو سنبھلنے کا موقع نہیں دینا چاہتے تو پھر ان سے نجات کی تدبیر کیوں نہیں کی جاتی؟
بشکریہ روزنامہ جنگ