ڈاکٹر ذاکر نائیک، بلاول اور مریم نواز … تحریر : حامد میر


ڈاکٹر ذاکر نائیک اور 26ویں آئینی ترمیم کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن یہ دونوں آگے پیچھے پاکستان میں وارد ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان تشریف لائے تو یہاں 26ویں آئینی ترمیم کے پہلے مسودے پر بحث جاری تھی۔ مولانا فضل الرحمان نے اس مسودے کو مسترد کرتے ہوئے اسے پاکستان میں مارشل لا نافذ کرنے کی ایک آئینی کوشش قرار دیا تھا۔ اس دوران ڈاکٹر ذاکر نائیک حکومت پاکستان کے سرکاری مہمان بن کر تشریف لے آئے اور پھر ان کے بیانات اور انٹرویوز سے ایسی بحثوں نے جنم لیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم پس منظر میں چلی گئی۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن 26 ویں آئینی ترمیم اور ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے میزبانوں کو خاصی مشکل میں ڈال رکھاہے۔بہت عرصہ پہلے میں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں دارالعلوم دیو بند کا ایک فتوی پڑھا تھا جس میں کہاگیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو علما حق سے برگشتہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس کے بعد جامع العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کا بھی ایک فتوی سامنے آیا جس میں کہاگیا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک مذاہب کے تقابل پر کافی معلومات رکھتے ہیں لیکن حدیث اور فقہ میں ان کی علمیت مسلمہ نہیں لہذا دینی مسائل میں ان کی آرا پر اعتماد ضروری نہیں۔ وہ جب پاکستان پہنچے تو سرکاری میڈیا نے بتایا کہ بھارتی حکومت نے ان کے پیس ٹی وی پرپابندی لگا رکھی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان کے ٹی وی چینل پر بنگلہ دیش، کینیڈا اور برطانیہ میں بھی پابندی ہے۔ بھارت میں ان پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔بھارتی حکومت نے اس قسم کے الزامات کشمیری حریت پسندوں اور اپنے سیاسی مخالفین پر بھی لگا رکھے ہیں لہذا ڈاکٹر ذاکر نائیک پر منی لانڈرنگ کے الزام کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن بنگلہ دیش اور برطانیہ میں ان کے پیس ٹی وی پر پابندی کیوں لگائی گئی؟۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک پر نفرت انگیز گفتگو کرنے کا الزام ہے۔ اس الزام کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔جب سے وہ پاکستان آئے ہیں تو یہاں ان کی گفتگو کا جائزہ لیتے ہیں۔ جب وہ پاکستان تشریف لائے تو یتیم، بچوں اوربچیوں کا ادارہ پاکستان سویٹ ہوم چلانے والے زمرد خان نے ان کے اعزاز میں ایک استقبالیے کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں زمرد خان نے اپنے ادارے کی طالبات کی طرف سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ایک اعزازی شیلڈ دینے کا اعلان کیا۔ جب یہ طالبات شیلڈ دینے کیلئے سٹیج پر آئیں تو ڈاکٹر صاحب ان بچیوں کو دیکھ کر بوکھلا گئے۔ انہوں نے سٹیج سے چھلانگ لگائی اور ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں ان لڑکیوں سے شیلڈ نہیں لوں گا۔ میں نے اس واقعے کی تصدیق کیلئے زمرد خان سے رابطہ کیا تو وہ بڑے دکھی نظر آئے۔ انہوں نے بتایا کہ میری بیٹیاں تیرہ یا چودہ سال کی تھیں۔ میں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے کہا کہ یہ ہماری بیٹیاں ہیں ان سے شیلڈ لے کر ہماری حوصلہ افزائی کریں لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ یہ نامحرم ہیں اور میں ان کو ٹچ نہیں کرسکتا۔ بعد میں ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بڑے فخر سے اس پورے واقعے کو بیان کیا اور کہا کہ میں نے ایک یتیم خانے کے مالک سے کہا کہ تم بھی ان لڑکیوں کو بیٹی کہہ کر چھو نہیں کرسکتے۔ یقین کریں کہ یہ الفاظ سن کر مجھے بھی تکلیف ہوئی۔ زمرد خان کسی یتیم خانے کا مالک نہیں بلکہ منتظم ہے۔ میں زمرد خان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ رکن قومی اسمبلی تھے۔ پھر انہوں نیسیاست چھوڑ دی اور خدمت خلق میں مصروف ہوگئے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کوبڑا فخر ہے کہ انہوں نے بہت سے غیر مسلموں کو مسلمان بنا دیا۔ زمرد خان کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے ہزاروں یتیم بچوں اوربچیوں کو بھکاری بننے سے بچایا اور مفت تعلیم دلوا کر ایک خوددار شہری بنایا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک ان یتیم بچوں کو دھتکارنے کی بجائے خوش اخلاقی سے ان کے سامنے اپنا موقف بیان کرسکتے تھے۔ ان کے نامناسب رویے کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ کچھ دن بعد انہوں نے پاکستان کی قومی ایئر لائن کے خلاف بیان دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملائشیا سے پاکستا ن آتے ہوئے ان کے پاس پانچ چھ سو کلو اضافی سامان تھا پی آئی اے والوں نے ہمیں اس اضافی وزن پر 50 فیصد رعایت کی پیشکش کی لیکن ہم نے کہا کہ رعایت دینی ہے تو مفت کریں ورنہ مت کریں کیونکہ میں اسٹیٹ گیسٹ ہوں۔ بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کا پی آئی اے پر غصہ بے جا تھا کیونکہ انہوں نے قطر ایئر ویز میں سفر کیا۔ پی آئی اے کے بارے میں بیان پر انہوں نے معذرت کرلی لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے اتنی غلط بیانی کیوں کی؟۔

ایک اور اجتماع میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے سوال کیا گیا کہ اسلام میں مرد کے مقابلے میں عورت کا درجہ کم کیوں ہے اور مرد کو چار شادیوں کی اجازت کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب بڑا سادہ تھا جو میں بہت سے علما کی زبان سے کئی دفعہ سن چکاہوں۔ اسلام نے یہ کہیں نہیں کہا کہ عورت کا درجہ کم ہے اسلام صرف یہ کہتا ہے کہ عورت مرد سے مختلف ہے۔ دونوں میں فرق کا معاملہ ہے دونوں میں مقابلہ تو کیا ہی نہیں گیا۔ خود ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام میں عورتوں کے حقوق پر اپنی کتاب میں اعتراف کر چکے ہیں کہ ایک مرد کے مقابلے پر دو عورتوں کی گواہی صرف مالی معاملات اور قتل میں مانگی گئی ہے دیگر معاملات میں ایک عورت کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔مثلا رمضان یا عید کا چاند دیکھنے کیلئے ایک عورت اور مرد کی گواہی برابر برابر ہے۔ چار شادیوں کی اجازت کو بیویوں میں عدل سے مشروط کیاگیا ہے۔ خود ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی ایک ہی شادی کی ہے۔ عورت ایک سے زیادہ شادی اس لئے نہیں کر سکتی کہ اس کی اولاد کو اپنے والد کا پتہ ہی نہیں چلے گا۔

ڈاکٹر صاحب نے ایک خاتون ٹی وی اینکر فریحہ ادریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ٹی وی پر ایک خاتون نیوز ریڈر کو 20 منٹ تک دیکھنے سے کسی مرد کے دل میں ہلچل پیدا نہیں ہوتی تو پھر اس مرد کو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ جو خاتون انٹرویو کر رہی تھی اس کے سر پر کپڑا تھا اور چہرے کے سوا پورا جسم ڈھکا ہوا تھا۔ صرف کسی خاتون کا چہرہ دیکھ کر مرد کے دل میں ہلچل پیدا ہونا ذہنی بیماری ہے یا ہلچل پیدا نہ ہونا بیماری ہے؟ اسی انٹرویو میں ڈاکٹر صاحب نے کہا عورت سربراہ مملکت نہیں بن سکتی کیونکہ اسے مردوں سے ہاتھ ملانا پڑے گا اور پھر کہا کہ جب کوئی عورت حکمران بنتی ہے تو اس کی آخرت برباد ہو جاتی ہے۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے وہ علما یاد آئے جنہوں نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی اور نواز شریف کے مقابلے پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حمایت کی تھی۔ کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مریم نواز کا راستہ روکنے کیلئے پاکستان بلایاگیا ؟ایک اور انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگر ڈکٹیٹر قرآن و حدیث پر عمل کرتا ہے توکوئی پرابلم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سن کر میں نے سوچا کہ اگر قائد اعظم اور علامہ اقبال آج زندہ ہوتے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی باتوں پر ان کا کیا ردعمل ہوتا؟ آج کل بلاول بھٹو زرداری آئینی عدالت کے حق میں قائد اعظم کے حوالے دے رہے ہیں۔ ان سے پوچھنا تھا کہ قائد اعظم کے پاکستان میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے طرز فکر کی کتنی گنجائش ہے؟۔

بشکریہ روزنامہ جنگ