کمزور پاکستانی۔ طاقتوروں سے زیادہ باشعور… تحریر : محمود شام


افراتفری ، الزام، دشنام، شیلنگ، بھگدڑ، سڑکوں پر خندقیں، ہتھکڑیاں، عدالتوں میں پیشیاں، سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کے موسم میں سب سے زیادہ مضطرب سر زمیں خیبر پختونخوا میں وزیراعلی ہاؤس میں ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے والے پہلو بہ پہلو بیٹھے دیکھ کر باد بہار کے جھونکے محسوس ہوئے۔ ذہن مہک گیا۔ امید نے سرگوشی کی کہ ابھی قیامت نہیں آئی۔ ابھی پاکستانی اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں۔ نفرتیں کم ہو سکتی ہیں۔ خلیجیں پاٹی جا سکتی ہیں۔ قوم ایسی نشست دیکھنے کو کب سے ترس رہی تھی۔ 23 مارچ گزر جاتی ہے۔ 14اگست الگ الگ مناتے ہیں۔ یوم جمہوریت پر اکٹھے نہیں ہوپاتے۔ غزہ میں بہنے والا لہو ہمیں یکجا نہیں کر پاتا۔ اس تصویر نے 8 فروری کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔ دو تہائی اکثریت والے منتخب قائد ایوان کی برتری کو مانا۔ آئینی عہدے سے زیادہ تکریم انتخابی عہدے کو دی گئی۔ شیر بکری کو ایک گھاٹ منرل واٹر پیتے دیکھا گیا۔

علامہ اقبال کی آواز گونج رہی تھی۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔ ہمارے پاس ذرا نم نہیں اللہ تعالی کے فضل سے پانچ بڑے اور چھوٹے بڑے کئی دریا ہیں۔ ہماری آنکھیں نم ہیں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ وقت آنے والا ہے جب 8 فروری کے مینڈیٹ کو دوسرے صوبوں میں بھی اسی طرح تسلیم کیا جائے گا۔

ہر صبح اپنے نزدیکی پارک میں سیر کے دوران اور بعد میں اپنے رفقائے سیر سے یہی کہتا ہوں کہ خوف اور گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کی سڑکوں پر قوم کی تربیت ہو رہی ہے۔ مینار پاکستان، ڈی چوک، تین تلوار جگہ جگہ ورکشاپیں ہو رہی ہیں۔ پولیس اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ کارکن اپنا۔ تماشائی اپنا۔ تربیت کے طریقے بدلے جا رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادیوں کو دہشت گردوں سے تفتیش کے وہی طریقے سکھائے تھے جو گوانتا ناموبے میں اختیار کیے جارہے تھے۔ وہ دہشت گرد تو کبھی کبھی ملتے تھے۔ انہیں تو عزت سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ خصوصی طیارے استعمال ہوتے تھے۔ سیکورٹی فنڈز میں ڈالر جمع ہوتے تھے۔ تربیت اپنی جگہ تھی۔ دہشت گرد نہیں ملتے تھے۔ تو جو شر پسند ہاتھ لگتا اس کے کپڑے اتارے جاتے۔ وڈیوز بنائی جاتی تھیں۔ سابق گورنر سندھ محمد زبیر درست کہہ رہے تھے۔ علینہ شگری کے سوال کے جواب میں کہ جب تربیت کے یہ طریقے کارگر نہیں ہورہے تو کوئی اور راستہ کیوں اختیار نہیں کیا جاتا۔

مجھے یاد آرہا ہے 90کی دہائی میں سندھ میں جب جام صادق علی اسی طرح وزیر اعلی بنائے گئے تھے۔ جیسے آج کل ہو رہا ہے۔ جناب آصف علی زرداری کراچی کے سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں زیر تفتیش تھے۔ میں نے جام صاحب سے عرض کی کہ اپنے ہم وطنوں سے گفتگو محبت سے بھی کی جا سکتی ہے۔ مخالفوں کو دھونس دھاندلی سے رام کرنے کی کوشش میں محنت مشقت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ نفرتیں بھی بڑھتی ہیں۔ آج بتائیے کوئی جام صادق علی کو ان کے سرپرست صدر غلام اسحاق کو یاد رکھتا ہے اور اللہ کی قدرت ملاحظہ ہو کہ جس شخص کی زبان کاٹی جا رہی تھی۔ تشدد ہو رہا تھا۔ وہ اب اس بد قسمت مملکت کا دوسری بار سربراہ ہے۔ بڑے بڑے طاقت ور اسے سیلوٹ کرنے پر مجبور ہیں۔یہ اتفاقات زمانہ ہیں۔ اب ہمارے معزز چیف جسٹس کے ایام ملازمت کے 12دن رہ گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی سالمیت کی جنگ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں لڑی جا رہی ہے۔ عدل کسی دن سر فخر سے اٹھاتا ہے۔ کسی دن وہ کسی چیمبر میں یا عدالت کی راہداری میں پڑے اسٹول پر سر گھٹنوں میں دے کر بیٹھ جاتا ہے۔ امریکہ اپنی ٹریول ایڈوائزری کسی بھی ملک کے بارے میں سی آئی اے، اپنے سفارت خانے کے بار بار سائفر ملنے پر جاری کرتا ہے۔ پاکستان کی طرف سفر کرنے سے اور عوامی مقامات پر جانے سے امریکیوں کو حال ہی میں منع کیا گیا ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں سے دوپہر کے کھانے پر مل بیٹھنے اور مستقبل کے خدشات اور سوالات پر ڈھیر ساری باتیں کرنے کا دن۔ میں تو اپنی اولادوں کے سامنے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کا اظہار کرتا ہوں۔ ایسا حساس محل وقوع، اتنا طویل ساحل، گہرا سمندر، دریا، سر سبز پہاڑ، خشک پہاڑ، چمکتے ریگ زار، جھیلیں، ثقافت، ادب، تمدن سے مالا مال صدیاں کتنے ملکوں کو نصیب ہیں۔ یہ نا انصافیاں جو آج کل جاری ہیں۔ بارشوں سے پہلے کا حبس ہیں۔ گھنگھور گھٹائیں تلی کھڑی ہیں۔ نو آزاد ملکوں کو ان تنگناؤں اور ناکوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی عظیم ہیں جو ان المیوں کی بھٹیوں سے گزر کر کندن ہورہے ہیں۔میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت عام پاکستانی، خاص پاکستانیوں یعنی اشرافیہ سے حکمرانوں سے، زیادہ باشعور ہیں۔ ہاری وڈیرے سے، کسان چوہدری سے، مزارع خان سے، سیاسی کارکن پارٹی لیڈر سے، شاگرد استاد سے، طالب علما سے، کلرک افسروں سے زیادہ با خبر ہیں۔ سوچنے میں زیادہ آزاد ہیں۔ اونچے سرکاری ایوانوں میں، اسمبلیوں میں، بڑے لوگ دباؤ کی وجہ سے بہت چھوٹے اور جھوٹے ہوجاتے ہیں۔ سیاسی، سماجی،علمی کشمکش عام ذہنوں کو صیقل کررہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ڈالر کمانے والے جھوٹی سرخیاں لگا لگا کر تھک چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں، وفاق اور صوبے کا مل بیٹھنا انہیں سمجھ میں نہیں آیا۔ تفہیم تو اس صورت حال کی حکمراں پارٹی کو بھی نہیں ہو پا رہی ہے۔ مگر یہ سب کچھ غیر جانبدار، مورخین کیلئے ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ ہماری یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے زحمت کریں واہگہ سے گوادر تک 15سے 25سال تک کے پاکستانی ذہنوں کا سروے کریں۔ گزشتہ تیس چالیس سال کی حکمرانیوں، خارجہ و داخلہ پالیسیوں کے بارے میں ان پاکستانیوں کے کیا تاثرات ہیں اور وہ کیا موقف رکھتے ہیں۔ اور اب جو کچھ گزر رہی ہے اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ آپ کیلئے حیران کن ہو گا کہ اب پہلے کی طرح نوجوان لسانی، نسلی، قبائلی زنجیروں میں جکڑے ہوئے نہیں ہیں۔ وہ کسی بھی پارٹی کے کارکن ہوں۔ ان میں حتی کہ پارٹی لیڈروں کے خاندانوں میں بھی اب آزاد اور غیر جانبدار سوچ پائی جاتی ہے۔

یہی وہ لمحہ ہے، جب ہمارے دانشور، اساتذہ، علما، رجحان ساز، نوجوان سوچ کو ایک دھارے میں لاسکتے ہیں۔ ہم ایک قوم بن سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام کا حکمران طبقے پر اب اعتماد نہیں رہا ہے۔ 40 سال سے حکومت کرنے والوں میں بہت کم ہیں جن کی باتوں پر نوجوان یقین کرتا ہو۔ اطمینان کا نکتہ یہ ہے کہ اب بلوچستان، سندھ، پنجاب، کے پی کے، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی پاکستان کے مستقبل اور سلامتی کے بارے میں ایک ہی رائے ہے۔ یہی وقت ہے،لمحے کو اپنی گرفت میں لینے کا،اس لمحے میں کئی برس پر پھیلا ہوا آئندہ تڑپ رہا ہے جس میں حسین صبحیں بھی ہیں اور ہولناک قیامتیں بھی۔ فیصلہ آپ بزرگوں کے ہاتھوں میں ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ