مقبوضہ کشمیر پر پھر شیخ عبداﷲ خاندان کی حکمرانی؟۔۔۔تحریر تنویر قیصر شاہد


سچی بات یہ ہے کہ ہمسایہ ملک، بھارت، کے انتخابی عمل اور نتائج دیکھ کر رشک بھی آتا ہے اور حسد بھی ہوتا ہے ۔ 9ماہ قبل ہمارے ہاں قومی انتخابات کا رَن پڑا۔ نتائج بھی آگئے ۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں بھی تشکیل پا گئیں ۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں بھی بن گئیں ۔ وزیر اعظم اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ نے حلف بھی اُٹھا لیا۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ 9مہینے گزرنے کے باوجود ہنوذ قومی اسمبلی کی کئی(خصوصی) نشستوں کا واضح فیصلہ نہیں ہو پایا ۔

یہ متنازع(خصوصی) نشستیں پی ٹی آئی کی ہیں ، سُنی اتحاد کونسل یا آزاد ارکان کی؟ اِن نشستوں بارے ہمارا مرکزی الیکشن کمیشن کچھ فیصلے دے رہا ہے اور ہماری عدالتیں کچھ اور ۔ بانی پی ٹی آئی اور اُن کے پیروکاروں نے اِنہی نشستوں کی بنیاد پر قومی سیاست اور قومی اسمبلی میں ایک مستقل اُدھم مچا رکھا ہے۔ دھرنے ہورہے ہیں ۔احتجاجی جلسے کیے جارہے ہیں ۔

سیاست کا چہرہ داغدار ہونے کے ساتھ قومی معیشت ڈول رہی ہے۔ اِس کے برعکس ہمارے ہمسائے ، بھارت، میں ہم سے بعد میں قومی انتخابات (لوک سبھا) ہُوئے ۔ وہاں سبھی نے نتائج بھی تسلیم کرلیے اور پھڈا بھی کوئی نہیں ۔ نریندر مودی جمہوری انداز میں تیسری بار وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ چکے ہیں جب کہ ہمارے ہاں انتخابات اور سیاست کا اونٹ کسی کروٹ ہی نہیں بیٹھ رہا ۔ سماجی خلفشار اور سیاسی عدم استحکام نے ہر پاکستانی کو ذہنی اذیت میں مبتلا کررکھا ہے ۔

8اکتوبر2024 کو بھارتی الیکشن کمیشن نے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابی نتائج کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ مودی حکومت نے ڈر اور خاصے بڑے رسک کے سائے میں اِن انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ بی جے پی اور انڈین اسٹیبلشمنٹ نے5سال قبل بھارتی آئین میں شامل مقبوضہ کشمیر کے بارے میں جو اہم ترین شق (370) ختم کرکے کشمیر کے مسلم اکثریتی تشخص کو ختم کرنے کی قابلِ مذمت کوشش کی تھی، مودی حکومت کو خوف تھا کہ جب کبھی مقبوضہ کشمیر میں انتخابات ہوں گے ، بھارت کے لیے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوں گے۔ مودی حکومت خائف تھی کہ کشمیری ووٹ ہی ڈالنے نہیں آئیں گے ۔

مقبوضہ کشمیر کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے پاکستانی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اگر مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات ہوتے بھی ہیں اور کشمیری ووٹ ڈالتے بھی ہیں تو یہ ووٹ کاسٹنگ بھارت کے لیے منفی نتائج نکالے گی ۔ پچھلے ایک عشرے سے مقبوضہ کشمیر میں انتخابات بھی نہیں کروائے جارہے تھے ۔ یہ بھی مگر ایک کشمیری سیاسی جماعت ہی تھی جو یہ مقدمہ بھارتی سپریم کورٹ لے گئی تھی۔ اِسی کیس کی بنیاد پر انڈین سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ستمبر2024کے ختم ہونے سے پہلے پہلے (مقبوضہ) کشمیر میں انتخابات کا ڈول ڈال دیا جائے ۔

بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھارتی حکومت نے من و عن عمل کیا ۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات تین مراحل میں کروا دیے گئے : 18ستمبر،25ستمبر اور یکم اکتوبر کو!مقبوضہ کشمیر کی 6بڑی سیاسی جماعتوں اور آزاد اُمیدواروں نے اِن انتخابات میںحصہ لیا ۔ چھ بڑی جماعتیں یہ تھیں:نیشنل کانفرنس، بی جے پی ، پی ڈی پی ، انڈین نیشنل کانگریس،پیپلز کانفرنس اور کمونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ)۔یہ انتخابات بھارتی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے مہیب سائے تلے ہُوئے ہیں ۔ اور اِس حقیقت کی موجودگی میں منعقد ہُوئے ہیں جب مقبوضہ کشمیر کے300سے زائد حریت پسند لیڈرز بھارتی عقوبت خانوں میں قید ہیں ۔

ایسے میں اِن انتخابات کی Legitimacyکیا ہو سکتی ہے؟ کئی اطراف سے کہا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں نئی دہلی سے شدید نالاں کشمیری ووٹ ہی ڈالنے نہیں آئیں گے ۔ کشمیریو ںنے مگر ووٹ ڈالے ، اگرچہ بندوقوں کے سائے تلے ہی سہی ۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کہا ہے کہ (مقبوضہ) کشمیری انتخابات میں64فیصد کشمیریوں نے ووٹ ڈالا ہے ۔

اب مقبوضہ کشمیر اسمبلی( جس کی کُل سیٹیں 90 ہیں) انتخابات کے مکمل نتائج بھی ہمارے سامنے آ چکے ہیں۔ نیشنل کانفرنس نے42سیٹیں جیتی ہیں، بی جے پی نے 29، انڈین نیشنل کانگریس نے6،پی ڈی پی نے 3،آزاد اُمیدواروں نے7اور پیپلز کانفرنس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور عام آدمی پارٹی نے ایک ایک سیٹ حاصل کی ہے ۔ مقبوضہ اسمبلی کے اِن انتخابات کے لیے نیشنل کانفرنس، انڈین نیشنل کانگریس اور کمونسٹ پارٹی آف انڈیا نے انتخابی اتحاد کیا تھا ۔ مقبوضہ کشمیر ریاستی اسمبلی کی حکومت بنانے کے لیے آئینی طور پر 46 سیٹوں کی جیت ضروری ہے ۔

کسی سنگل پارٹی کے پاس مگر یہ مطلوبہ تعداد نہیں ہے؛ چنانچہ اب معاہدے کے مطابق نیشنل کانفرنس، انڈین نیشنل کانگریس اور کمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) مل کر حکومت بنائیں گے۔ اِن کے پاس کُل49سیٹیں آ چکی ہیں اور یوں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد حاصل ہو چکی ہے ۔ نتائج بتا رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر نیشنل کانفرنس کی حکومت بن رہی ہے ۔ عمر عبداللہ ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ بننے جا رہے ہیں کہ وہ نیشنل کانفرنس کے چیئرمین ہیں اور اُن کے والد ، فاروق عبداللہ، صدر ۔

مقبوضہ کشمیر کی پچھلی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ نیشنل کانفرنس مجموعی طور پر پہلے بھی25سال مقبوضہ کشمیر پر حکومت کر چکی ہے ۔ عمر عبداللہ کے دادا،شیخ عبداللہ، بھی مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہے ، اگرچہ کشمیریوں کے اعتبارواعتماد کو دھوکہ دے کر ۔عمر عبداللہ کے والد، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، بھی ایک سے زیادہ بار مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ منتخب ہُوئے ۔ فاروق عبداللہ نے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابی نتائج کے سامنے آتے ہی مسرت سے اعلان کر دیا تھا کہ عمر عبداللہ ہی کشمیر کے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ تو صاحبو، اب عمر عبداللہ ’’صاحب‘‘ دوسری بار مقبوضہ کشمیر کی وزارتِ اعلیٰ کا حلف اُٹھانے جا رہے ہیں ۔

وہ خود بھی اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ہوں گے کہ(۱) بھارتی آئین نے (مقبوضہ) کشمیر کے زیادہ تر اور اہم ترین اختیارات مقبوضہ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کو سونپ رکھے ہیں (۲)مقبوضہ کشمیر کے ہر ’’منتخب‘‘ وزیر اعلیٰ کی انتظامی طنابیں نئی دہلی کے استحصالی ہاتھوں میں ہوتی ہیں ۔ تازہ ترین مقبوضہ کشمیر اسمبلی انتخابات کے نتائج کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ چونکہ مقبوضہ کشمیر کا اصل حکمران وہاں پر تعینات لیفٹیننٹ گورنر(منوج سنہا) ہے، اس لیے یہ الیکشنزبھی لا یعنی اور بے معنی ہیں ۔

مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابی نتائج سامنے آتے ہی عمر عبداللہ ، جو ایک برطانوی ماں کے بیٹے ہیں،فوری طور پر نئی دہلی میں وزیر اعظم ، نریندر مودی، سے ملے ۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں موصوف نے کہا کہ ’’مَیں نے مودی جی سے کہا ہے کہ اب جب کہ ہمارے ہاںانتخابات ہو چکے ہیں، (مقبوضہ) کشمیر کی سابقہ ریاستی حیثیت ( معہ آرٹیکل370 اور35اے) بحال کر دی جائے ۔‘‘اِن تِلوں میں مگر تیل کہاں؟ کشمیریوں کے جانی دشمن ، نریندرمودی، کے سامنے بھلا عمر عبداللہ کی گزارشات کیا حییثیت رکھتی ہیں؟ کیا سب کچھ جانتے پہچانتے ہُوئے عمر عبداللہ خود بھی احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں اور دوسروں کو بھی فریب دے رہے ہیں؟ اُنھوں نے کشمیریوں سے اِس وعدے پر ووٹ تو بٹور لیے کہ کامیاب ہو کر آرٹیکل 370بحال کرواؤں گا ،مگر کون پہنچا ہے تری زلف کے سر ہونے تک ۔ یہ درست ہے کہ اِن انتخابات سے قبل مودی جی نے بین السطور کچھ ایسا بیان دیا تھا جس سے یار لوگوں نے یہ مطلب اخذ کر لیا کہ یہ استحصالی ہندو بھارتی حکمران کشمیریوں کو اُن کا منفرد حقِ تشخص واپس کر دے گا۔ نریندرمودی ایسے سفاک شخص سے ایسی توقع ہی محال ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر پھر ایک فریبی خاندان حکمران بننے جارہا ہے ۔