آئی پی پی آڈٹس اور خصوصی اقتصادی زون کی ترقی ، پاور سیکٹر کے موثر انتظام کے لیے ضروری ہیں: ماہرین

اسلام آباد(صباح نیوز) بجلی کی پیداوار کے مسائل کے لیے اہداف پر مبنی حل، جو کہ انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے کیس بہ کیس جائزوں اور آڈٹس کے ساتھ ساتھ ملک کی نصب شدہ پیداوار کی صلاحیت کے استعمال کو بہتر بنانے اور خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زی) کے ذریعے بجلی کی طلب کو بڑھانے کی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کریں، بجلی بنانے والی کمپنیاں اور صارفین دونوں کے لیے زیادہ مساوی اور موثر نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے ہدفی حل حاصل کرنے کے لیے ایک شفاف اور موزوں طریقہ کار اپنانا ضروری ہے۔ آئی پی پیز کا کیس بہ کیس جائزہ لینا بہت اہم ہے، کیونکہ  ان میں سے ہر ایک مختلف مالی اور عملی حالات کے تحت کام کرتا ہے۔ اسی طرح، انفرادی آئی پی پیز کے مرحلہ وار، ترجیحی بنیادوں پر آڈٹس کرنا معاہداتی اور عملی چیلنجز کو زیادہ مثر طریقے سے حل کرے گا، اور ان کے مخصوص مسائل پر بھی توجہ مرکوز کرے گا۔

مزید برآں، بجلی کی طلب بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، خاص طور پر خصوصی اقتصادی زونز کی ترقی کو تیز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جو بجلی کی کھپت میں اضافہ کرنے اور شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کا ایک اسٹریٹیجک موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ بات “آئی پی پیز معاہدوں میں مسائل کا تجزیہ: تجربات اور ابھرتے ہوئے منظرناموں سے بصیرت” کے عنوان سے ایک مشاورتی اجلاس میں زیرِ بحث آئی، جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مختلف شعبوں میں تجربہ رکھنے والے کنسلٹنٹ انجینئر نوید صدیقی، آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمن، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی مرزا حامد حسن، اور قابل تجدید توانائی کے ماہر اسد محمود نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

 آئی پی ایس کے ریسرچ آفیسر محمد ولی فاروقی نے پاکستان کے آئی پی پیز کی نقشہ سازی پر انفو گرافکس کی مدد سے ایک جامع مطالعہ پیش کیا۔ اس مطالعے میں ملک کے پاور جنریشن لینڈ سکیپ کا ایک مکمل جائزہ  فراہم کیا گیا ، جس میں شعبہ کے اندر موجود چیلنجوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے آئی پی پیز کی تقسیم اور آپریشنل میٹرکس پر روشنی ڈالی گئی۔  ترسیل اور تقسیم (ٹی اینڈ ڈی) کے بنیادی ڈھانچے میں ناکامیوں اور صنعتی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے شرکا نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مختلف وقتوں میں   جیسے روزانہ، ماہانہ، اور موسمی لحاظ سے  ترسیل کی رکاوٹوں کی شناخت اور نشاندہی کرے تاکہ ڈسپیچ آپریشنز کو بہتر بنایا جا سکے۔ موجودہ زبردستی کم اور زیادہ کی گئی ترسیلات ، جو ان حدود کی وجہ سے ہیں، ناکامیوں اور مہنگائی کا باعث بنتی ہیں۔

 ان خدشات کے پیشِ نظر شرکا نے تجویز دی کہ حکومت نیس پاک کے ذریعے  تکنیکی اور لاگت کے حوالے سے ٹی اینڈ ڈی نظام کا ایک آزاد جائزہ لے۔ اس جائزے میں آئی پی پیز کو کسی بھی غیر مناسب ادائیگی کی نشاندہی کی جائے اور ریٹائرڈ لیکن آپریشنل پلانٹس کے ساتھ معاہدوں کے لیے ایک نئے فریم ورک کی سفارش کی جائے ، جس میں “لے لو اور ادا کری” ماڈل کے تحت ذیلی خدمات پر توجہ مرکوز کی جائے۔ مزید برآں، یہ جائزہ پاور سیکٹر کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور مستقبل کی نجکاری اور ڈی ریگولیشن کی کوششوں کی رہنمائی کے لیے ایک روڈ میپ پیش کرے گا۔  ماہرین نے حکومت کی جانب سے نصب شدہ صلاحیت بڑھانے پر توجہ دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ طلب پوری کرنے کے لیے کافی صلاحیت پہلے ہی موجود ہے۔ اس کے بجائے،

انہوں نے موجودہ وسائل کے استعمال کو بہتر بنانے اور لوڈ شیڈنگ، تکنیکی نقصانات، اور ٹرانسمیشن کی رکاوٹوں میں ناکامیوں کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ، جو بجلی کی فراہمی یا استطاعت میں بہتری لائے بغیر صارفین پر بڑھتے ہوئے ٹیرف اور کیپیسیٹی پیمنٹس کا بوجھ ڈالتے رہتی ہیں۔ یہ تجویز دی گئی کہ نصب شدہ صلاحیت کی توسیع کو مستقبل میں طلب کے اضافے سے براہ راست منسلک کیا جانا چاہیے، تاکہ غیر ضروری صلاحیت کے مہنگے اضافے اور ادائیگیوں کو روکا جائے۔ بحث نے ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان باہمی تعاون کے فریم ورک کو اپنانے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس کے لیے،

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ خصوصی اقتصادی زونز کی ترقی کو تیز کرے، جس سے صنعتی بجلی کی کھپت کو بڑھانے اور ملک کی نصب شدہ پیداواری صلاحیت کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے میں مدد ملے گی۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمن نے آئی پی پی کے معاہدوں کی شفافیت اور موثر مینیجمنٹ کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے صارفین پر مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے ٹیرف اسٹرکچر اور کیپیسیٹی پیمنٹس پر نظرثانی کرنے پر زور دیا۔ مزید برآں، انہوں نے ملک کے ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کو زیادہ سستی اور عوام کے لیے قابل رسائی بنانے کی وکالت کی،  تاکہ زیادہ لاگتوں اور قابلِ اعتماد بجلی کی فراہمی میں رکاوٹ بننے والی رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔