غزہ پر اسرائیلی بمباری سے 4 کروڑ 20 لاکھ ٹن عمارتی ملبہ جمع ہوگیا

غزہ(صباح نیوز) اسرائیل نے گزشتہ ایک سال کے دوران بمباری کر کے  ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ  غزہ  کے بنیادی ڈھانچے ، عمارتوں کو بھی تباہ کر دیا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں اس وقت چار کروڑ 20 لاکھ ٹن سے زائد ملبہ ہے جس میں پوری طرح تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے ساتھ بری طرح متاثر ہونے والے عمارتیں بھی شامل ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ملبے کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اس سے مصر میں جیزہ کے سب سے بڑے ہرم کو 11 مرتبہ بھرا جا سکتا ہے اور اس ملبے میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔اقوام متحدہ کے ڈیبریز مینجمنٹ ورکنگ گروپ نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر خان یونس اور وسطی غزہ کے دیر البلح علاقے میں ملبے کی صفائی کے لیے ایک پائلٹ   پروجیکٹ شروع کیا ہے۔اقوامِ متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے غزہ آفس کے سربراہ الیسینڈرو مراکک کا کہنا ہے کہ یہ چیلنج بہت بڑا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا آپریشن ہو گا۔ لیکن ساتھ ہی اہم یہ ہے کہ ہمیں فوری کام شروع کرنا پڑے گا۔

غزہ میں ہر جانب ملبے کے ڈھیر ہیں جن میں پیدل چلنے والوں اور گدھا گاڑیوں کی چھوٹی چھوٹی راہدریاں بنی ہوئی ہیں جن سے دھول اڑتی رہتی ہے۔ یہی پہلے مصروف پکی سڑکیں ہوا کرتی تھیں۔ایک ٹیکسی ڈرائیور یسری ابو شباب کا کہنا ہے کہ کون یہاں آ کر یہ ملبہ ہٹائے گا؟ کوئی نہیں۔ اس لیے ہم نے خود ہی یہ کام شروع کر دیا ہے۔ابو شباب نے خان یونس میں اپنے تباہ شدہ گھر کا اچھا خاصا ملبہ صاف کر کے وہاں خیمہ لگا لیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق جنگ سے قبل غزہ کی ایک لاکھ 63 ہزار عمارتوں میں سے دو تہائی یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں یا شدید متاثر ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی کثیر منزلہ عمارتیں تھی۔غزہ میں 2014 میں سات ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد یو این ڈی پی اور اس کے شراکت داروں نے 30 لاکھ ٹن ملبہ صاف کیا تھا جو موجودہ مقدار کا صرف سات فی صد بنتا ہے۔اقوامِ متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ ٹن ملبے کی صفائی پر کم از کم 28 کروڑ ڈالر خرچ آئے گا۔ اس طرح غزہ سے ملبے کی مکمل صفائی کے لیے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر سے زیادہ خرچ آئے گا اور وہ بھی اس صورت میں اگر جنگ فوری طور پر روک دی جائے۔اپریل میں اقوامِ متحدہ کے جاری کردہ ایک اندازے کے مطابق اس ملبے کو ہٹانے کے لیے 14 سال کی مدت درکار ہو گی۔فلسطینی حکامِ صحت کے مطابق ملبے کے نیچے لگ بھگ 10 ہزار لاشیں دبی ہوئی ہیں اور اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ اس میں کئی بم بھی موجود ہیں جو پھٹے نہیں ہے۔

کئی فلسطینی عمارتوں کے ملبوں یا ڈھانچوں کے اندر بھی پناہ گزین ہیں جو خطرناک ہے کیوں کہ کسی بھی وجہ سے بھاری بھرکم عمارتی ملبہ گرنے سے یہ لوگ شدید زخمی ہو سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق اس ملبے سے اٹھنے والی دھول میں تعمیرات میں استعمال ہونے والے مواد کے ایسے اجزا بھی شامل ہیں جو پھیپھڑوں کے کینسر سمیت موذی امراض کا سبب بن سکتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی ترجمان بسمہ اکبر کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی اور فضا کی وجہ سے صحت کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار کے مطابق معالجین خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملبے سے ہونے والی آلودگی کے باعث آنے والے برسوں میں کینسر اور پیدائشی معذوریوں سمیت کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ملبے میں سانپ اور بچھو سے اموات کے علاوہ دیگر حشرات کے کاٹنے سے ہونے والے انفیکشنز کا بھی خطرہ ہے۔ماضی میں غزہ سے اٹھایا گیا ملبہ بندرگاوں کی تعمیر کے لیے استعمال ہوا تھا۔ اقوامِ متحدہ کو توقع ہے کہ اس ملبے کو ری سائیکل کرنے کے لیے اس کا کچھ حصہ سڑکوں کی تعمیر اور کچھ ساحلی پٹی پر پشتے وغیرہ بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔جنگ سے قبل کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی کل آبادی 23 لاکھ ہے جو 45 کلو میٹر لمبی اور 10 کلو میٹر چوڑی اس پٹی میں رہتی ہے۔ تاہم ملبے کی وجہ سے ان کے لیے جگہ مزید تنگ ہو گئی ہے اور اس لیے بھی ملبہ ٹھکانے لگانا ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق ری سائیکلنگ کے لیے بھاری مشینری اور سرمایہ درکار ہو گا۔

اس کے علاوہ کام کی رفتار میں بھی رکاوٹیں آئیں گی کیوں کہ ملبہ لے جانے والے ٹرکوں کو بھی اسرائیلی فوج کی بنائی گئی کراسنگز سے گزرنا پڑے گا۔مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے پابندیوں کے باعث ایندھن اور مشینری کی کمی ہے جس کی وجہ سے ملبے کی صفائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اسرائیلی حکام سے اجازت نامے منظور کرانے کا عمل بھی بہت لمبا ہے جس میں بہت وقت لگتا ہے۔اسرائیل نے مشینری وغیرہ پر پابندیوں کے الزامات کا واضح جواب نہیں دیا ہے۔اقوام، متحدہ کے مطابق ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی جگہ سے ملبہ ہٹانے کے لیے متاثرہ عمارت کے قانونی مالک کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔لیکن غزہ میں جس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہوئی ہے اس نے جائیدادوں کی حدود کو دھندلا دیا ہے اور جنگ کے باعث کئی لوگوں کے پاس جائیداد کے کاغذات بھی دستیاب نہیں ہیں۔لسطینی حکومت کی دعوت پر 12 اگست کو مغربی کنارے میں ہونے والے ایک اجلاس میں کئی ڈونرز نے ملبے کی صفائی کے کام میں مدد کی پیش کش کی ہے۔