پاکستان کے تمام صاحب شعور اور باضمیر سیاسی اور صحافتی مبصرین اصولاً اس سوچ و فکر کے حامی اور قائل ہیں کہ پاکستان میں مثالی جمہوری نظام رائج ہو اور پارلیمانی نظام حکومت رکھنے والے دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی تقسیم اختیارات اور اپوزیشن کا مقام و مرتبہ پارلیمانی نظام کی حقیقی روح کے مطابق ہونا چاہیے یہ نہیں کہ کسی بھی قسم کے قانون کو پاس کروانے کے لیے یا آئین میں ترمیم کے لیے دوسری جماعتوں کے ممبران کو لالچ ترغیب یا ڈرا دھمکا کر ان کا ووٹ لیا جائے اگر چہ ہر سیاسی جماعت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو لوٹا ازم کے خلاف خوب شور و غوغا کرتی ہے مگر جب خود برسر اقتدار آتی ہے تو اپنے سیاسی مقاصد اور اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کو جائز سمجھنا شروع کر دیتی ہے مشرف دور میں پیپلز پارٹی سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا فارورڈ بلاک بنا کر مسلم لیگ (ق) دھڑلے سے پرویز مشرف کی چھتر چھاؤں میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی بجائے اس کے لوٹا ازم کی ڈھسی پیپلزپارٹی آج واشگاف انداز میں یہ موقف اپناتی کہ 26 آئینی ترمیم میں ہم تحریک انصاف کے لوٹوں کے ووٹ نہیں لیی چہ جائے کہ تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی ان ترامیم کے لیے آن بورڈ ہو جائے مگر پاکستان میں سیاست نام ہی بے اصولی کا ہے ویسٹ منسٹر جمہوریت میں اس قسم کے ہتھکنڈے اپنانا نا ممکن ہو تا ہے بابائے قوم قائد اعظم نے بھی جس حقیقی پارلیمانی جمہوریت کے خدوخال پاکستان کے لیے لازمی قرار دیے تھے ان کے مطابق بھی پارلیمانی آمریت کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے مگر ہمارے ہاں کے حکمران جو کل تک لوٹا ازم کی شدید مذمت کرتے تھے اور ان کو قابل نفرت سمجھتے تھے مگر آج 26 ویی آئینی ترمیم کے لیے تحریک انصاف کے لوٹوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہر حد عبور کر رہے ہیں جسے پارلیمانی نظام کی روح کے منافی ہی قرار دیا جائے گا
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی
ہمارے ہاں عام طور پر یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ امریکی طرز کے صدارتی نظام میں صدر کے ہاتھ میں اختیارات کا غیر معمولی ارتکاز ہوتا ہے اور یہ چیز آمرانہ رجحانات کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے اس لیے آمریت سے بچنے کے لیے ہمیں پارلیمانی جمہوری نظام اپنانا چاہیے مگر جب پارلیمنٹ کے ایوان میں قائد ایوان اپوزیشن کے مینڈیٹ کو بلڈوز کر کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے راتوں رات ایکٹ اور آئینی ترامیم پاس کرانے کی کوشش کرے گا یا پھر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے حکومتی مفادات کا تحفظ کرے گا تو معزرت سے اسے پارلیمانی فاشزم کا نام تو دیا جا سکتا ہے لیکن جمہوریت کا انداز کار نہیں کہا جائے گا تاہم ایوب خان نے 1962 کے آئین کے تحت جو آمرانہ نظام قائم کیا تھا اس کو کوئی بے خبر یا بدیانت دانشور ہی معیاری صدارتی نظام کہ سکتا ہے اسی طرح ہمارے پارلیمانی نظام میں جو اسمبلیاں انتخاب دھاندلی سے وجود میں آئیں اور فوجی ڈکٹیٹرز کی مرضی و منشا کے تابع تھیں انہیں بھی عوام کا حقیقی نمائندہ قرار دینا عوام کی توھین ہے پاکستان میں اکثر سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان کبھی بھی منصفانہ انتخابات کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا ہے کیونکہ 1970 میں ایک دفعہ فری اینڈ فیئر الیکشن ہوئے تھے جس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا تو اس کے بعد بزرجمہروں نے انتخابی نتائج کو” قومی مفاد” کے تابع کر دیا یعنی ووٹ ڈالنا عوام کا حق ہے مگر نمائندہ چننے کا حق اس کے پاس نہیں ہے میں بات کر رہا تھا کہ ہم نے پارلیمانی نظام کو دو وجوہ کی بنا پر اختیار کرنا ضروری سمجھا اول ہم انگریز کی غلامی کی وجہ سے اس نظام سے زیادہ آشنا تھے اور حقیقی صدارتی نظام جیسا کہ امریکہ میں ہے اس کو چلانے کے لیے جس سطح کا سیاسی اور جمہوری سوچ، فکر اور کمٹمنٹ درکار تھی اس کا ہمارے ہاں شدید فقدان تھا دوسری وجہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے تینوں چھوٹے صوبوں کی مجموعی عددی طاقت سے زیادہ قوت رکھتا ہے اگر صدارتی نظام اپنایا جائے گا تو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پنجاب کے عوام کی رائے فیصلہ کن حیثیت اختیار کر جائے گی وہ الگ بات ہے کہ ایوب خان کا بنیادی جمہوریت کا فراڈ یا ضیاء الحق کے مضحکہ خیز ریفرنڈم سے صدارتی ڈکٹیٹر شپ قائم کر دی جائے.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ کہ ایسی ڈکٹیٹر شپ کو امریکی صدارتی نظام کا پرتو نہیں قرار دیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پارلیمانی نظام حکومت پر تمام صوبوں کا اجماع ہے مگر جب ممبران اسمبلی اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر تو کبھی وزیر بننے کے لیے، یا پیسوں کی خاطر سینٹ اور قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی سے غداری کر کے حکومت کے پیش کردہ بلوں کی حمایت کرتے ہیں تو یہ بے ضمیر ہونے اور اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ غداری ہے جو کس صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے یہ حلقے کے عوام کی توہین ہے جہنوں نے اس کو اپنی پارٹی کے نمائندے کے طور پر چنا ہوتا ہے پارلیمانی نظام حکومت میں وزیراعظم مکمل با اختیار نہیں ہوتا ہے اسمبلی اور سینٹ میں قائم کمیٹیاں قانون سازی میں حکومت کو بزور طاقت قانون سازی نہیں کرنے دیتی ہیں یہ کہنا کہ پارلیمنٹ برتر ہے درست نہیں ہے آئین بالادست ہے مگر غلط قانون سازی کو آئین کے تابع مہمل بنا نے کے لیے غیر جانبدار عدلیہ کا بھی بے حد اہم کردار ہے وگرنہ انتظامیہ تو حکمران وقت کے مرغ دست آموز کا کام کرتی ہے یہ بات بھی کوئی راز نہیں کہ ہمارے ہاں ارکان اسمبلی اپنے مفادات کی خاطر حکمران وقت کی ہر جائز اور ناجائز بات کا ساتھ دینے اور اس کی ہاں میں ملانے کی روش پر عمل پیرا رہے ہیں لہذا پارلیمانی آمریت کا راستہ روکنے کے لیے غیر جانبدار عدلیہ کا ہونا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے مگر پی ڈی ایم کے دونوں ادوار حکومت میں الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے ججز کے فیصلوں کو ماننے سے انکاری دکھائی دیتا ہے تو پھر ایسے میں بنیادی انسانی حقوق اور اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کون کرے گا مثالی پارلیمانی نظام میں عدلیہ کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام رکھنا نا گزیر ہے وگرنہ اولیگارکی نظام حکومت میں تمام اختیارات چند شخصیات کے ہاتھوں میں مرکوز ہو جاتے ہیں جو ڈ کٹیر شپ کی ایک قسم ہے اور عوام کو جب جمہوری اور سیاسی آزادی نہیں ملتی ہے تو وہ ایجیٹشن کے لیے سڑکوں پر نکل کھڑے ہوتے ہیں آج ایسا ہی ہو رہا ہے کیونکہ عوام کی اکثریت کو موجودہ نظام حکومت سے کوئی امید نہیں ہے ان حالات میں تحریک انصاف کو سیاسی حقیقت تسلیم کر کے تمام آئینی اور قانونی معاملات میں مشاورت ہی جمہوریت کی اصل روح ہے آج صرف ایک سیاستدان مولانا فضل الرحمن حقیقی جمہوری روایات کی پاسداری کر رہا ہے وگرنہ حکومت اور تحریک انصاف کے بے لچک سیاسی رویوں سے ہم بار بار ایک قسم کی انتہا پسند ی سے دوسری قسم کی انتہا پسند ی کی طرف لڑھک جاتے ہیں جوکہ کسی صورت میں بھی ملک کے عوام کے دیرپا مفاد میں نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح جمہوریت حقیقی معنوں میں پھل پھول سکتی ہے