کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریبان کا جالبچاروں جانب سناٹا ہے، دیوانے یاد آتے ہیںسمیع اللہ بٹ (7فروری1950۔اگست 2024) گجرات کے گاں نت میں پیدا ہوئے، والدین کی جدائی مرحلہ وار پیش آئی۔ ماموں نے بڑی شفقت اور محبت اور اپنی زندگی بھانجوں سمیع اللہ، رفیع اللہ کے لیے وقف کیے رکھی۔ تعلیم، ملازمت، کاروبار، اقامتِ دین کی جدوجہد، علم و ادب کی محفلوں، علما، مفسرین اور صاحبانِ علم کی مجالس میں شرکت کے شوق نے انہیں بہت ہی شاندار پیرائے میں ڈھال دیا تھا۔ اِسی وجہ سے وہ وسیع المشرب انسان تھے۔ وہ کسی فرقہ بندی کے قائل نہیں تھے، ان کا واحد مقصد اقامتِ دین، قرآن و سنت کی بنیاد پر امتِ مسلمہ کا اتفاق و اتحاد تھا۔ بندگانِ خدا کی فوز و فلاح کے سِوا ان کا کچھ اور مقصد نہ تھا۔ شرافت، خیر اور حق کے پیغام کو عام کرنا ہی ان کی زندگی کا مشن تھا۔ وقت گواہ ہے کہ وہ ہر میدان میں خوب چمکے اور اپنی ذہانت، معاملہ فہمی کا ڈنکا بجایا۔ پوری زندگی تنگی، محنت اور قناعت کے ساتھ گزاری۔ جب بھی ملاقات ہوتی، مجالس، نشستوں، احباب کے ساتھ ضیافت میں اکٹھے ہوتے، خصوصا سید احسان اللہ وقاص صاحب، ادریس چوہدری، وحید چوہدری، سعید چوہدری صاحبان، مجیب الرحمن شامی صاحب اور حفیظ اللہ نیازی صاحب،سید نبی برادران خصوصا مشتاق چوہدری صاحب امریکہ سے آتے تو کھانے قطار اندر قطار طے ہوجاتے ہیں تو پرانے دوستوں کی محفلیں سجتی تو وہاں بٹ صاحب کی مسکراہٹ، صوفے پر ایک سائیڈ ڈھلک کر بیٹھ جانا، متلاشی شرارتی آنکھوں سے ہر ایک کی بات سنتے، ناگوار بات کو بھی مسکراہٹ کی ناگواری سے اڑا دیتے۔ چہرے پر خوش گوار مسکراہٹ کے ساتھ کھنگورا اور قہقہہ تو کمال ہوتا۔ بس ان کی کھلی جاگتی سوتی موٹی آنکھیں، سوتے سوتے ویسپاسکوٹر، گاڑی چلاتے بھی سولینے کو فرماتے کہ قلب جاری رہتاہے۔ سر پر بال بڑے نہیں ہونے دیتے تھے اور داڑھی کو شریعت کی آخری چھوٹی حد سے بڑھنے نہیں دیتے تھے۔ نیند کے تو بادشاہ تھے۔ حجام صاحب ان کی نیند میں تراش خراش کا عمل مکمل کرلیتے۔ آستینوں کے بٹن بند کرنے کا تکلف بھی ان میں نہیں تھا۔ ازار بند کو لٹکنے کی بھی بٹ صاحب نے مکمل آزادی دی ہوئی تھی۔ لیکن بولنے سے پہلے غور کرتے، گھورتے، ہاتھ پر ہاتھ پھیرتے اور گویا ہوتے تو دلائل کا انبار، ندیوں کی روانی اور مردِ میدان کی طرح باتوں میں وسعت آجاتی۔ رفتہ رفتہ گفتگو میں دلائل کی قوت کے ساتھ جلال کا کہر بھی شامل ہوجاتا۔ کیا خوب، مرنجان مرنج، باغ و بہار، شرافت اور متانت، علم و تحقیق اور خیر کے متلاشی عظیم شخص تھے۔ آنکھیں آج بھی متلاشی ہیں،روح آج بھی تڑپ رہی ہے،ماضی کی خوشگوار یادیں رلاتی ہیں،اوہو! اوہو! سنا ہے،سمیع اللہ بٹ بھی رخصت ہوگئے۔ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے، ہر شئے نے فنا ہوجانا ہے، باقی صرف ذات مالکِ کائنات کی رہ جانی ہے، یہ ہی تو ہمارا ایمان ہے، لیکن اپنوں کا موت کی آغوش میں چلے جانا ہر بِیتا لمحہ یاد تو دِلاتا ہے کہ کیا خوب اور آزاد اور قابلِ فخر شخصیت تھے۔ ہمارے سمیع اللہ بٹ۔ بیٹے احمد بٹ کا فون آیا کہ ابی فوت ہوگئے۔ آواز بھی رندی ہوئی تھی، لمحہ بھر کے لیے شک تو پڑا سمیع اللہ بٹ صاحب کے بیٹے کی آواز ہے، لیکن یہ اطلاع سن کر یقین نہیں ہورہا تھا۔ تصدیق کی، گھر پر ہیں یا ہسپتال میں؟ نیشنل ہسپتال ڈی ایچ اے میں ہی ہیں، میت لے کر گھر جائیں گے؛ غم، صدمہ، دکھ نے ایسا گھیرا کہ ارادہ اور تیاری کے باوجود ہسپتال جانے کو دِل نے آمادگی نہ دی۔ چند گھنٹے بس اِسی فکر اور یاد میں گزرے کہ ابھی چار دِن پہلے گھر مِل کر آیا ہوں، طبیعت بہت بہتر تھی۔ پھر اچانک کیا ہوا، ہسپتال جانے کی خبر بھی نہ ہوئی۔ خیر موت کی خبر ایک مرتبہ تو بندے کو ہلادیتی ہے، صدمہ اور دھچکا تو لگتا ہے لیکن قدرت کا یہ ہی اٹل اصول ہے جو آیا ہے اس نے جانا تو ہے۔ بس باری کی بات ہے۔ جنازہ وقت کی اطلاع ہوئی، نمازِ جنازہ سے پہلے گھر حاضر ہوا، میت کے ساتھ جنازہ کے لیے پہنچے، تمام دوست احباب، پیپر مارکیٹ کے ساتھی اور جماعت اسلامی کے ذمہ داران سب ہی تو بٹ صاحب کو رخصت کرنے کے لیے پہنچ گئے تھے۔ کینیڈا سے احسان اللہ وقاص صاحب اور امریکہ سے سید اظہر شاہ کا فون آیا اور دکھ اور صدمہ کا اظہار کیا کہ جنازہ میں شرکت نہ ہوسکے گی۔ بس موت کی اطلاع، جنازہ کی تیاری، نمازِ جنازہ کی حافظ محمد ادریس صاحب کی امامت میں ادائیگی، یوں زندگی کے اختتام اور تدفین کے ساتھ سمیع اللہ بٹ عِلم، محنت، محبت، وقار اور ادبی وجاہت کا دریا خاموش ہوگیا۔ اِنا لِلہِ واِنا اِلیہِ راجِعون۔ حق تعالی مغفرت فرمائے (آمین!)کئی دِن سے مسلسل سوچ و بچار میں رہا کہ سمیع اللہ بٹ کے متعلق جذبات، یادداشتوں اور احساسات کو تحریر کی شکل دوں۔ بس دِن ٹلتے رہے لیکن یہ خیال ایک لمحہ کے لیے بھی ذہن سے اوجھل نہ ہوا۔ اِس دوران سید احسان اللہ وقاص صاحب نے بہت ہی شاندار محبت بھری یادیں تحریر کردیں، جِس سے ڈھارس بندھی۔ خیر! آج ارادہ کو عمل کی شکل دی کہ بٹ صاحب کے ساتھ 52 سال کی رفاقت، محبت و عقیدت، جو دین کی بنیاد پر رہی، اِسے تحریر میں لایا جائے۔ انتقال سے چند دِن پہلے سمیع اللہ بٹ کو فون کیا، آواز میں بہت نقاہت لیکن نقرئی ہلکا قہقہہ موجود تھا، لیکن صحت کی کمزوری عیاں تھی۔ کہا کہ کئی دِن ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد گھر آیا ہوں۔ یوں لمحہ بھر تاخیر کیے بغیر عیادت، ملاقات اور زیارت کے لیے گھر پہنچ گیا۔ گھر پر خود ہی تھے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے، بیماری اور طبیعت کا حال احوال ہوا۔ نقاہت، کمزوری کے باوجود یادیں رواں ہوگئیں۔ دو گھنٹے تک محفل رہی۔ بٹ صاحب نے کمالِ ہمت، للہیت اور تقوی کی طاقت سے ہر ہر بات کو دہرایا اور کہا کہ اب دمِ واپسی ہے۔ سب سے بیتے ایام میں اپنی کسی بھی زیادتی کی معافی مانگ رہا ہوں، میں نے اپنا دِل سب کے لیے صاف کرلیا ہے، اور میں بھی سب دوست احباب، کرم فرماں سے توقع رکھتا ہوں کہ مجھے معاف کردیں گے، میرا بوجھ ہلکا کردیں گے۔ میرے گھر اہلیہ،بچوں کے بارے بھی اپنی محبت کا اظہار کیا،سلیم منصور خالد صاحب کے لیے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا، سید احسان اللہ وقاص صاحب کی شفقتوں کا بے پناہ ذکر کیا، سلیم میر مرحوم کی یاد تازہ کی، ملک محمد اسلم سے محبتوں کو یاد کیا اور خصوصا اپنی اہلیہ محترمہ کی ہمت، تعاون اور استقامت کا بڑی عقیدت و احترام سے ذکر کیا کہ میں نے تو بس زندگی ایسی ہی گزار دی، گھر کا ہر محاذ بس اسی نے ہمت اور سلیقہ سے سنبھالے رکھا۔ میں نے گرہ لگائی کہ بٹ صاحب صرف ہماری بہن ہی نہیں، آپ کی ساس مرحومہ اور سسر مرحوم بھی کمال شفیق لوگ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے جب یہ کہا تو بٹ صاحب کے آنسو بھی رواں ہوئے اور بے پناہ مغفرت کی دعائیں کیں۔ حافظ محمدادریس صاحب،نوید صادق، اظہر شاہ، منظور خان ،سلطان ججہ ،خالد ہمایوں، راجہ منور احمد،حافظ سلمان بٹ، بشیر عارف، نذیر احمد جنجوعہ، عثمان غنی، میرسلیم، فرید احمد پراچہ،ڈاکٹر سید وسیم اختر ، میاں مقصود احمد، ملک محمد اکرم، سلمان صدیق، نعیم ملک، خلیل ملک، شاہد اسلم، چوہدری رحمت الہی کے بیٹوں، شفیق چوہدری، خالدی مرحوم،وحید چوہدری،سجاد نیازی،میاں عبدالوحیداور کراچی، گنپت روڈ مارکیٹ کے ساتھیوں اور شمیم ملک مرحوم،نذیر پردیسی اور عبدالغفور مرحوم کے حوالہ سے بھی خوب ذکر کیا۔ دِل تو نہیں چاہتا تھا کہ ملاقات ختم ہو۔ جماعت اسلامی کے حوالہ سے بھی انہوں نے اپنی محبتوں، عقیدت کا اظہار کیا۔ مولانا مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم،سیدمنورحسن، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، اسعد گیلانی مرحوم، میاں طفیل محمد مرحوم، ملک غلام علی مرحوم، صفدر چوہدری مرحوم ہی کیا سب کا کسی نہ کسی طرح ذکر ہوتا رہا۔ یوں ملاقات، خوشگوار لمحات کا اختتام ہوا، رخصت لی۔ اس کے چند روز بعد بس اطلاع ملی کہ ابی جان فوت ہوگئے۔سمیع اللہ بٹ سے 1972 میں اسلامی جمعیت طلبہ کی داروغہ والا تربیت گاہ میں تعلق بنا۔ عبدالشکور صاحب اور سید احسان اللہ وقاص صاحب، سلیم منصور خالد صاحب، سجاد نیازی، عبداللطیف مرزا صاحب، ظفر اقبال شیخ سے تعارف ہوا۔ بس یہ اللہ کا خاص فضل رہا کہ اقامتِ دین کی جدوجہد میں یہ محبت اور اعتماد کا رشتہ پختہ تر ہوتا گیا۔ میں اس کے بعد ملتان سے لاہور اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کی نظامت کی وجہ سے منتقل ہوگیا۔ یوں اسلامی جمعیت طلبہ کے کام میں دیوانہ وار مصروفیات، طلبہ مسائل، طلبہ تحریک، بنگلہ دیش نامنظور تحریک، تحریکِ تحفظِ ختمِ نبوت، تحریکِ نظامِ مصطفےۖ اور بے شمار احتجاجی جدوجہد میں ساتھ رہے اور بٹ صاحب ہر ہر محاذ پر پختہ اور استقامت کے پہاڑ ثابت ہوئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں ہم اکٹھے رہے۔ جماعتِ اسلامی لاہور میں مل کر کام کیا اور ان کے کام کے جوہر کھلتے گئے۔ پنجاب جماعت میں ذمہ داری لگی تو سید وقاص جعفری صاحب اور شہدائے اسلام فانڈیشن میں نذیر احمدجنجوعہ صاحب کے ساتھ سمیع اللہ بٹ کا بھرپور تعاون اور ساتھ رہا۔ ذمہ داری ان کے سپرد جو بھی رہی اسے انہوں نے اپنی علمی استعداد، قرآن و سنت کے پیغام پر عبور اور اقامت دین کی اس فکر کی گہرائی کے ساتھ کام کیا جو مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے دی تھی۔ اجلاسات میں خاموشی سے سننا، نوٹس لینا، جب رائے دینے، محاکمہ کرنے، تجزیہ کرنے کا مرحلہ آتا تو علم، دلیل اور پورے جلال کے ساتھ اپنی رائے پیش کرتے، پھر جو طے ہوتا بس اس پر عمل کے لیے دِل و جان سے لگ جاتے۔سمیع اللہ بٹ کے ساتھ کئی یادیں، دِن رات سفر، احتجاجی تحریکوں، پولیس کی پکڑ دھکڑ، گرفتاریوں اور بزنس کمیونٹی کے ساتھ رابطوں کی لاتعداد یادیں ذہن پر نقش ہیں۔ کِس کِس یادگار لمحہ کو یاد کیا جائے اور یہ بالکل سچ ہے کہ بٹ صاحب کے ہاں کبھی یہ نہ ہوتا تھا کہ کوئی داد و تحسین دے، نہ یہ شوق کہ کوئی سر پر کلاہِ شہرت رکھے، حکایت سرائی کے ساتھ کوئی ان کا قد بڑا کرے۔ وہ کبھی بھی اپنے بارے میں کسی غلط فہمی میں نہ ہوتے، عاجزی، انکساری اور اپنائیت ہی ان کی شخصیت کا خاصا رہا۔ میں بھی اس تحریر میں کوشش کررہا ہوں کہ جو کچھ میرے سامنے بٹ کے ساتھ ایام بیتے، ان ہی کویادِ خیر کے پیشِ نظر لکھ دوں۔ سمیع اللہ بٹ کی زندگی اقامتِ دین کی تحریک کے لیے روشن باب ہے، ان کی جدوجہد کے چراغ روشنی دیتے رہیں گے۔ سمیع اللہ بٹ اقامتِ دین کی تحریک میں فکری، علمی اور عملی اعتبار سے بہت ہی پختہ کار اور بااعتماد ساتھی تھے۔ غلبہء دین کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں دعوتِ دین کا پیغام بہت ہی خوب اور دلنشیں طریقے سے بیان کرتے۔ درسِ قرآن، دعوتِ دین، قرآن و سنت کا انقلابی پیغام اور اتحادِ امت کے حوالہ سے سحر انگیز گفتگو کرتے اور محفل پر طمانیت، حیرانگی اور ذوق و شوق کا ماحول طاری کردیتے۔ یہ کمال خوبی تھی کہ مسکراتے رہنا، خوبصورت قہقہہ لگانا اور ہاتھ پر ہاتھ مارکر دلیل کی طاقت سے مقف پیش کرنا، محاکمہ کرنا، تنقید کرنا اور پورے جلال سے کسی بھی غلط کام اور مقف کے بخیے ادھیڑ دیتے، یہ کیفیت ان کی جلالی ہوتی۔سمیع اللہ بٹ کی مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے ساتھ انسیت، فریفتگی اور محبت کا خاص تعلق تھا۔ اِسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی کے لیے بھی ان کے جذبات بہت پاکیزہ اور محبتوں سے لبریز ہوتے۔ عمومی طور پر مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی مجالس، پروگرامات اور باہر سے آئے مہمانوں کی آمد پر ملاقاتوں میں حاضری تو ہوتی ہی لیکن خصوصا تین سال ماہِ رمضان کے آخری چار دِنوں میں جب سب گھروں کو روانہ ہوجاتے، ہم بعد عصر مولانا کے ہاں پہنچ جاتے، افطار ہوتی، مولانا کے گھر سے عشائیے کے لیے بڑا ٹرے آتا، پھر ان لمحات میں خوب باتیں ہوتیں اور بٹ کی علمی چٹکیاں بھی خوب ماحول بنادیتیں۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے ساتھ ہماری خصوصا سمیع اللہ بٹ اور سلیم منصور خالد صاحب کی نشستیں اور ملاقاتیں تو الگ سے ایک موضوع ہے، خصوصا مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ قاضی حسین احمد، سید منور حسن کے ہمراہ ملاقات، عیادت اور گفتگو بھی یادگار نشست تھی، اس کا اہتمام بھی بٹ نے ہی کیا تھا۔ مولانا اصلاحی بہت اونچا سنتے، بلکہ سماعت عملا ختم ہی تھی لیکن سمیع اللہ بٹ اپنی بات سنانے کے لیے کان کے قریب ایک خاص زاویہ سے بولتے اور مولانا اصلاحی سن لیتے اور جواب دیتے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ مولانا آپ ہمیں نصیحت فرمائیں، جماعتِ اسلامی کے لیے رہنمائی دیں۔ مولانا اصلاحی نے فرمایا کہ بھائی میں کیا بات کروں، میرا بات کرنے، نصیحت کرنے کا حق نہیں، مرفوع القلم ہوں سماعت نہیں، بینائی بہت کمزور ہوگئی، نہ جانے اللہ نے کیوں رکھا ہوا ہے؟ بہرحال جماعتِ اسلامی اچھا کام کرتی ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے، کسی خبرِ بد کی اطلاع ملتی ہے تو تشویش ہوتی ہے۔ آپ لوگ ہی میدان میں ہیں، آپ لوگوں کو ہی کام کرنا ہے۔ میری آپ سب کے لیے دعائیں ہیں، اللہ تعالی مولانا مودودی کے مشن کو کامیابیاں عطا کرے۔سمیع اللہ بٹ کی تحریر بہت ہی پختہ تھی۔ فقروں، الفاظ کا نکھار اور علمی وجاہت خداداد تھی۔ خصوصا بحیثیت نقاد اور کسی مرحلہ پرنظریاتی فکر اور اسلامی تحریک کی فکری بنیاد پر کوئی وار کرتا تو ان کا جلال بھی دیدنی ہوتا اور تحریر میں بھی جلال اپنے جوبن پر ہوتا۔ گذشتہ عرصہ میں ہمارے بہت ہی مہربان مربی پروفیسر عثمان غنی کی اہلیہ نے رابطہ کیا کہ پروفیسر عثمان غنی کے لیے مختلف مضامین، تثرات اور آرا کو کتابی شکل دی جارہی ہے، میں بھی ضرور تحریر دوں۔ میں نے ارادہ و تیاری کرلی، اس عرصہ میں بٹ آئے اور عثمان غنی کے بارے میں مضمون تحریر کرنے کی بات کی۔ یوں ہمارا تبادلہ خیال ہوا۔ انہوں نے بہت ہی شاندار تحریر تیار کردی اور ہر ہر پہلو کو بہت خوب سے ضبطِ تحریر میں لے آئے۔پھر میں نے بھی اکتفا کیا کہ بہت خوب تحریر تیار ہوگئی۔ تحریر میں طاقت اور اثر اس لیے بھی تھی کہ علمی استعداد، قرآن، احادیث، دینی و عمومی وسیع مطالعہ اور بہت ساری کتب کے حوالوں کے لیے اتھارٹی تھے اور خوب گرفت تھی۔ جو بھی بات تحریر کی، مضمون لکھا، کسی کا محاکمہ کیا، وہ معرک الارا تحریر ہوتی۔ علمی شعبدہ بازوں کے تو محتسبِ اعلی تھے۔سمیع اللہ بٹ خوش خوراک اور خوراک پکوانے کا اعلی ذوق رکھتے تھے۔ جماعتِ اسلامی کے وہ پروگرام جن میں کھانے کا انتظام ضروری ہوتا، خصوصا ضلعی، صوبائی،شہدائے اسلام فانڈیشن کے اجلاسات کے انتظام اور کھانے کی تیاری کا بھی کمال انتظام کرتے۔ شرکا کے لیے کھانے کی لذت ہمیشہ بٹ کے شہرہ بنی رہتی۔ ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلسِ عمل اور دینی مسالک کے درمیان مصالحت کے حوالہ سے مجھے پنجاب بھر میں دوروں پر جانا ہوتا تو ملک محمد اسلم مرحوم، میر محمد سلیم مرحوم بھی ہمارے ساتھ ہوتے۔ سفر بھی خوب رہتا اور خوشگوار لمحات یادگار ہوتے اور یہ ہی یاد اور ماحول نئے سفر کے لیے تیار کردیتے۔ میر محمد سلیم کی خوش مزاجی، طبعِ ظرافت اور سمیع اللہ بٹ کے چٹکی اور گرہ ماحول میں جوبن اور قہقہوں کی بہار لے آتی۔ عبدالغفور ڈرائیور مرحوم ہمارے ہر سفر میں آمادہِ محنت و احترام رہتے، اللہ تعالی چاروں حضرات کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کردے، آمین!سمیع اللہ بٹ نیند اور خراٹوں کے محاذ پر کمالِ عروج رکھتے تھے۔ بیٹھے اونگھ لینا بلکہ مکمل سولینا اور خراٹوں پر کوئی کچھ کہتا تو وہ فرماتے یہ خراٹے نہیں throat voice ہے۔ ایک مرتبہ جنرل کے ایم اظہر مرحوم، سیکرٹری جنرل جمعیت علمائے پاکستان نے افطار ڈنر کا ایرانی قونصل جنرل کے اعزاز میں اہتمام کیا۔ اللہ کے بندوں نے شدید سردی میں کھلے صحن میں افطار ڈنر کا انتظام کیا، سردی بھی پوری شدت پر تھی۔ جنرل صاحب مرحوم نے کہا کہ مختصر مختصر کلمات کہہ لیے جائیں۔ آخر میں ایران کے قونصل جنرل کی گفتگو کی باری آئی، ان دِنوں شیعہ سنی کشیدگی بھی جاری تھی کہ قونصل جنرل کے خطاب کے شروع ہوتے ہی بٹ صاحب نے زبردست خراٹوں کی بمباری کی۔ معزز مہمان تو اپنی تقریر ہی بھول گئے، یوں فورا ہی ڈنر مل گیا۔ قاضی حسین احمد نے کرپشن کے خلاف لانگ مارچ، دھرنے کا اعلان کیا۔ طے پایا کہ ہم لاہور سے کارواں لے کر جائیں گے۔ مینارِ پاکستان کارکنان کو جمع کیا، احتجاجی تحریک کے انسدادکے لیے پولیس نے رکاوٹیں تو ہر طرف کھڑی کردی تھیں، ہم نے مینارِ پاکستان سبزہ زار پر جلسہ/تقاریر شروع کردیں۔ پولیس نے گھیرا ڈال لیا، اللہ کے فضل و کرم سے سمیع اللہ بٹ کا نفسِ مطمئنہ اس ماحول میں بھی خراٹوں کی مشین چلائے بیٹھا تھا۔ ایک مرتبہ جلسہ میں جانا تھا، پولیس گرفتاری کے لیے میرے گھر اور دفتر چھاپے مار چکی تھی۔ طے پایا کہ پروگرام سے پہلے گرفتاری نہ دی جائے۔ یوں پہلے مرحلہ میں پڑا نوید صادق صاحب کے گھر مسلم ٹان میں ہوا، وہاں بھی سمیع اللہ بٹ نے بستر پر لیٹتے ہی ایسے زوردار /خوفناک خراٹے شروع کیے کہ گھر اور اِدھر ادھر کے بچے آکر نظارہ کرتے رہے۔ ٹرین مارچ میں بھی بٹ ہمیشہ فعال رہتے، دوران سفر وہاں بھی نیند خراٹے اپنے جوبن پر ہوتے۔ میڈیا ٹیم نے ان کے خراٹوں کی باقاعدہ ریکارڈنگ کرالی جو بعد میں دوست احباب کے درمیان دلچسپی اور خوشی کا باعث بنی رہی۔سمیع اللہ بٹ کا جواں سال بیٹا عمر بٹ سویمنگ پول میں دورانِ سویمنگ ڈوب کر شہید ہوگیا، گھر خاندان والوں اور خود بٹ صاحب کے لیے بڑی آزمائش کی گھڑی تھی لیکن صبر و استقامت کا بڑا مظاہرہ کیا۔ اِن اللہ مع الصابرین کے مصداق اللہ کی رضا پر راضی تھے۔ اِس سانحہ کے بعد بٹ صاحب مسلسل کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دِل کی تکلیف ہوئی اور اطلاع مِلی کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہیں۔ میں فورا ہسپتال پہنچا، دیکھا کہ او پی ڈی میں وہیل چیئر پر ہیں، وہیں ڈرِپ لگی ہوئی ہے۔ مریضوں کا بے پناہ رش، خیر بھاگ دوڑ کی اور ہسپتال میں مناسب جگہ مل گئی۔ اللہ تعالی نے صحت یاب کردیا۔ ایک مرتبہ علی ملک صاحب اور ہم دونوں عمرہ پر گئے، ماہِ رمضان کے ایام تھے، بٹ صاحب کو شوگر کا مرض بھی لاحق ہوچکا تھا لیکن مسجد الحرام بیت اللہ شریف میں افطار دسترخوان پر کھجوریں کھانے میں بے دریغ ہوگئے۔ رات تقریبا پونے دو بجے میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ طبیعت بہت خراب ہے، فورا انہیں لے کر ہوٹل کے قریب جیاد ہسپتال لے گیا۔ وہاں پہنچے تو انڈیا اور مقبوضہ کشمیر کے ڈاکٹرز مل گئے، جنہوں نے پہچان لیا۔ بٹ صاحب کو فورا ایمرجنسی اور ٹیسٹ کے لیے بھج دیا، ڈاکٹرز کے کمرے میں بیٹھے ان کے ساتھ گپ شپ ہوئی۔ اِسی لمحے رپورٹ لاکر ڈاکٹر صاحب کو دے دی گئی۔ شوگر رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب بلند آواز میں بولے کہ مریض زندہ ہے۔ بھاگ کر بٹ صاحب کے پاس گئے، علاج ہوا، طبیعت کنٹرول میں آگئی۔ اگلے دن پھر کھجوروں کی بخشش تو نہ ہوئی البتہ تعدادمیں کمی آگئی۔ کئی واقعات، اجلاسات اور اسفار کے بے شمار یادگار لمحات میں کیا کیا یاد ہے اور کیا کیا لکھا جائے۔سمیع اللہ بٹ کا وسیع مطالعہ، ادبی ذوق اور خطابت بھی کمال تھی۔ احسان دانش کی شاعری کے تو فریفتہ تھے اور ان کا کلام یاد بھی تھا اور ترنم سے دانش کا کلام سناتے۔ پروگرامات، تربیت گاہوں میں بھی بڑی فرمائش ہوتی اور بٹ صاحب پورے اہتمام، عقیدت سے احسان دانش کا کلام سناتے۔ تیرے سِوا کروں پسند، کیا تری کائنات میں دونوں جہاں کی نعمتیں، قیمتِ بندگی نہیںدل کی شگفتگی کے ساتھ راحتِ مے کدہ گئی فرصتِ مہ کشی تو ہے، حسرتِ مہ کشی نہیںزخم پے زخم کھاکے جی، اپنے لہو کے گھونٹ پی آہ نہ کر لبوں کو سی، عشق ہے دل لگی نہیںدیکھ کے خشک و زرد پھول، دل ہے کچھ اس طرح ملول جیسے تری خزاں کے بعد، دور بہار ہی نہیںاِسی طرح سمیع اللہ بٹ آغا شورش کاشمیری کی تحریر، ادب معلی اور خطابت کی روانی سے بہت متثر تھے، انہیں شورش کاشمیری مرحوم کی تقاریر کے کئی حصے ازبر تھے اور جب انہیں اصرار کرکے سنانے کے لیے کہاجاتا تو شورش کے طرز، لہجے اور روانی سے ایسی شاہکار خطابت کرتے کہ چس آجاتی اور ایک بار سننے والا بار بار سننے کی خواہش رکھتا۔ آغا شورش کاشمیری مرحوم کے ساتھ ہفت روزہ چٹان کے دفتر اور مال روڈ پر مرحوم کی رہائش گاہ ملاقات کے لیے ہم کئی مرتبہ اکٹھے گئے اور آغا مرحوم کی باتوں اور کھلی ڈھلی باتوں سے محظوظ ہوتے۔ شورش کی تقاریر اور کلام سنانے کا کیا خوب، جلالی انداز ہوتا۔ میں نے پردیس میں یارانِ وطن ڈھونڈے ہیں ناچ اے گوہرِ نایاب فضا رقص میں ہیمیں نے پرہول بیاباں میں چمن ڈھونڈے ہیں ناچ اے پیکرِ مہتاب وفا رقص میں ہیمیں نے تاریک چٹانوں میں سمن ڈھونڈے ہیں ناچ اے نغمہء شاداب ہوا رقص میں ہیمیں نے کچھ اور بھی موضوعِ سخن ڈھونڈے ہیں میں نے کچھ اور بھی موضوعِ سخن ڈھونڈے ہیںوارثِ تختِ رسالت دار پر بچھتے گئے یہ سوچتا ہوں کہ اے تاجرانِ دینِ مبیںسجدہ محراب و منبر کی زبانیں کٹ گئیں خطا وہ کیا ہے کہ جس پر مجھے سزا دو گیکوچہ و بازار میں خاکِ حرم اڑنے لگی میرے خلاف ابھاروگے سادہ لوگوں کوبوذر و سلمان و طارق کی سنانیں کٹ گئیں بزعمِ خویش مِرا نام تک مِٹا دو گیگردنِ طاغوت و باطل کو جھکایا جائے گاخواجہء کونین کا ڈنکا بجایا جائے گاہم کسی فرعون کی طاقت سے ڈر سکتے نہیںناچ تِگنی کا حریفوں کو نچایا جائے گاآغا شورش کاشمیری کی تقاریر/ خطابت کے کئی شذرے انہیں ازبر تھے اور پورے جذبہء ایمانی سے، روانی کیساتھ محوِ گفتگو ہوتے:بانیء احمدیت نے تاریخِ انسانیت میں عموما اور تاریخ ایشیا میں خصوصا ختمِ نبوت کے اسلامی فکر کی ثقافتی، تہذیبی قدر و قیمت سمجھی اور یہ تصور قائم کرلیا کہ ختمِ نبوت اِن معنی میں رسول اللہۖ کا کوئی پیروکار درجہء نبوت تک نہیں پہنچ سکتا، رسول اللہۖ کی نبوت میں ناتمامی کا نشان ہے، میں اس کی نفسیات کا مطالعہ کرتا ہوں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اپنے ادعائے نبوت کی خاطر وہ اسلام کے مقدس پیغمبر کی اس خصوصیت سے فائدہ اٹھاتا ہے جسے وہ تخلیقی روحانیت قرار دیتا ہے اور ساتھ ہی رسول اللہ کی خاتمیت سے انکار کردیتا ہے کیونکہ اِس روحانیت کی تخلیقی صلاحیت صرف ایک ]جھوٹے [ نبی یعنی بانی تحریکِ احمدیت تک محدود رکھتا ہے۔ اِس طرح یہ نیا ]جھوٹا[ نبی چپ چاپ اِس بزرگ ہستی کی خاتمیت پر متصرف ہوجاتا ہے جسے وہ اپنا روحانی مرث قرار دیتا ہے۔ اِس جھوٹے، مکار، مرتد کے مقاصد کا صاف الفاظ میں مطلب یہ ہوا کہ محمدۖ (معاذ اللہ!) آخری نبی نہ تھے، آخری نبی میں ہوں! یہ جھوٹا ہے، ختمِ نبوت کا منکر ہے، دائرہء اسلام سے خارج ہے، کافر ہے۔(تحریکِ ختمِ نبوت 1974 میں بٹ آغا شورش کاشمیری کے خطاب کو پورے جوش سے سناتے)آغا شورش کاشمیری غلبہء اسلام کے داعی، مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی فکر سے ہم آہنگ تھے۔ سمیع اللہ بٹ کو بھی آغا کے خطابات کے وہ حصے اور الفاظ جن میں اسلامی فکر کی گہرائی اور مغربی فکر پر چوٹ ہوتی، انہیں ازبر تھے اور جذبہء ایمانی سے سناتے بھی:۔اسلام قرونِ وسطی کے تصوف کا احیا بھی برداشت نہ کرے گا جس نے اِس کے پردوں سے صحت مندانہ وجدانات چھین لیے اور ان کے بدلے محض مبہم افکار دے دیے۔ اِس تصوف نے گذشتہ صدیوں میں اسلام کے بہترین دل و دماغ اپنے اندر جذب کرلیے اور ملک داری کے معاملات اوسط درجے کے آدمیوں پر چھوڑ دیے۔ دورِ حاضر کا اسلام اِس تجربے کے اعادے کا روادار نہیں ہوسکتا، اور یہ بھی برداشت نہیں ہوسکتا کہ پنجاب کا تجربہ دھرایا جائے، یعنی مسلمانوں کو نصف صدی تک ان دینی مسائل میں الجھائے رکھا جائے جن کا زندگی سے کوئی بھی تعلق نہ تھا۔ اسلام تازہ فکر و تجربہ کی وسیع روشنی میں پہنچ چکا ہے۔ کوئی ولی یا مدعیء نبوت اِسے قرونِ وسطی کے کہر میں واپس نہیں لاسکتا۔جب تک دریاں میں پانی بہتا ہے، پہاڑوں کے سینے تنے ہوئے ہیں، سورج نکلتا ہے، ستارے چمکتے ہیں، چاند دمکتا ہے، ہوائیں چلتی ہیں، کائنات قائم ہے، خدا کا نام لیا ہی جائے گا۔ انسان فانی ہے، نہ کسی انسان کی مصیبت ہمیشہ رہتی ہے، نہ اقتدار۔کسی ماں نے آج تک وہ بچہ نہیں جنا جو میرے قلم و زبان کو خرید سکے۔ میرے نزدیک قلم فروشی عصمت فروشی سے کم نہیں، بلکہ اِس سے بھی قبیح اور مکروہ ہے۔ قدرت نے قلم اِس لیے نہیں دیا کہ بیچا جائے۔ اِس سے بہتر ہے کہ ہاتھ شل ہوجائیں، زبان اِس لیے نہیں بخشی کہ مرہونِ غیر ہو، ایسی زبان پر فالج گِرجائے تو خدا کا احسان ہے۔حاجی محمدیونس ،سید مراد علی شاہ کے بھائی،میاں عبدالوحید، عطا الرحمن، میاں محمد عثمان، عبدالرحمن(آرے والے اِچھرہ)، عبدالوحید سلیمانی، عبدالسلام خان، عبدالحفیظ احمد، عبدالحفیظ اعوان اور دیگر احباب سے مرحوم کی خوب بنتی اور اپنے کاموں میں لگے رہتے۔ جماعتی ذمہ داریوں کے دوران جہادِ افغانستان، افغان مہاجرین کی خدمت، جہادِ کشمیر اور کشمیری مہاجرین کی مدد کی سرگرمیوں، اِسی طرح لاہور میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں امدادی کیمپ اور سرگرمی بھی پوری ذمہ داری سے ہوتی۔ بنگلہ دیش نامنظور تحریک، طلبہ مطالبات تحریک، تحریکِ تحفظِ ختمِ نبوت، تحریکِ نظامِ مصطفےۖ اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بِہاری واجپائی کے لاہور یاترا پر جماعتی پالیسی کے مطابق احتجاج میں ہر اول دستے میں ہوتے اور آخری مرتبہ تو واجپائی کی لاہو رآمد اور احتجاج کی پاداش میں پابندِ سلاسل ہوئے۔ میانوالی سنٹرل جیل میں سید منور حسن اور دیگر احباب کے ساتھ تھے، ملاقات کے لیے حاضر ہوا، سب سے ملاقات ہوئی لیکن سمیع اللہ بٹ، میاں مقصود احمد، محمد جاوید قصوری کے ساتھ الگ ملاقات بہت خوب تھی اور بٹ کے جوہر بیان ہوئے۔بٹ صاحب کا سیاسی تجزیہ اور رجحان بھی دبنگ، دلیل کی بنیاد پر ہوتا۔ ضیا الحق مرحوم کے ریفرنڈم کے موقع پر وہ بہت بے چین اور بے قرار رہے۔ افتخار چوہدری(فارماسسٹ)، اِن کے جذبات کو پٹرول مہیا کرتے۔ نوابزادہ نصراللہ خان اور علامہ احسان الہی ظہیر شہید کے ساتھ نشستوں میں کئی مرتبہ میرے ساتھ ہوتے اور جو بات کرتے خوب کرتے۔ پیر اعجاز ہاشمی صاحب (صدر جمعیت علمائے پاکستان) سے خاص محبت اور انسیت پیدا ہوئی تھی۔ چوہدری ظہور الہی شہید کے ساتھ اِس حوالہ سے اچھی شناسائی تھی کہ گجرات میں سمیع اللہ بٹ بھی نت گاں کے ہی تھے۔ چوہدری شجاعت حسین صاحب نے بیٹے کی شادی، ولیمہ تقریب نت گاں کے چوہدری کمپلیکس میں رکھی تو بٹ بھی میرے ساتھ تھے۔ وہیں گاں کے بِیتے ایام سے بھی آگہی دی۔5-اے ذیلدار پارک اِچھرہ، بانیء جماعت مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی رہائش اور مولانا کے ساتھ بٹ صاحب کو خاص لگا اور انس تھا۔ مولانا موودودی کی رحلت کے بعد خاندان سے ہی بات سامنے آئی کہ وہ رہائش گاہ کو علم و تحقیق کا مرکز بنائیں گے۔ سب نے خوشی کا اظہار کیا، مرحلہ وار خاندان میں ہی اختلافِ رائے ہوا اور معاملات پر اتفاقِ رائے نہ ہوسکا۔ خاندان نے جماعت اسلامی سے رجوع کیا، جماعت اسلامی نے خاندان کی خواہش کے مطابق کام کا آغاز کیا لیکن پھر اختلاف کی وجہ سے گھر، عمارت واپس کردی گئی۔ ایک مرحلہ پر دوبارہ جماعت اسلامی کی قیادت سے مولانا مودودی کی بیوہ اور اولاد نے رابطہ کیا۔ خیر یہ الگ سے پوری داستان ہے، اِس کام میں بھی سمیع اللہ بٹ اور سلیم منصور خالد صاحب،سید احسان اللہ وقاص صاحب نے بڑی محبت، عقیدت سے مولانا کے تمام علمی اثاثہ کو محفوط کرلیا۔ اب یہ پراجیکٹ سید مودودی میموریل کی صورت میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی پوری زندگی، اقامتِ دین کی جدوجہد، علمی تحقیقی، عالمی محاذ پر کاوشوں کو نئی نسل کی جانب منتقل کرنے کے لیے اِن شا اللہ! بہت اچھا مرکز، تحریکی جذبوں کو زندہ رکھنے، جِلا بخشنے کا ذریعہ بنے گا۔ بٹ کی یہ کوشش بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ بنی رہے گی۔
Load/Hide Comments