میں کوئی پہلا یورپی سیاح نہیں جو اس خطے میں آیا ہوں۔ سب سے پہلا کٹیسیاز تھا جو ایران سے بلوچستان کے راستے اس علاقے میں آیا تھا، میں تو سیدھا جہازکے ذریعے اسلام آباد آیا ہوں۔کٹیسیاز پانچویں صدی قبل مسیح میں سکندر اعظم سے بہت پہلے آیا تھا ،میں پہلوان اعظم گنڈا پور کے جلوس کی اسلام آباد مراجعت سے تھوڑا پہلے آیا ہوں ۔کٹیسیاز کو بلوچستان کے صحراؤں سے گزر کر آناپڑا اور اس نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ دریائے سندھ میں مگرمچھوں کا راج تھا ارد گرد ہاتھی اور بندر رہتے تھے یہاں کے طوطے فرفر ہندوستانی زبان بولتے تھے اس نے کوبرا سانپ اور برگد کے بڑے بڑے درختوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ کٹیسیازCtesias))نے لکھا ہے کہ اس خطے میں انسانوں کی بونی نسل چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ 2500سال گزرنے کے بعد جسمانی کوہ قامتی تو کم ہوگئی ہے مگر کردار کے بونوں کی اب بھی اکثریت ہے۔ کٹیسیاز نے لکھا کہ یہاں انسانوں کی ایسی نسل بھی آباد ہے جو سیدھی زبان میں بات نہیں کرتی بلکہ جانوروں کی طرح غراتی ہے۔ اڑھائی ہزار سال گزر گئے مگر اب بھی ایسی نسل موجود ہے جو غراتی ہے، گالیاں بکتی ہے، لڑنے پر اتر آتی ہے، تہذیب اور انسانی شعور نے اس نسل کا کچھ نہیں بگاڑا۔ کٹیسیاز نے ایک اور انسانی نسل کا بھی نمایاں طور پر ذکر کیا ہے جس کے کان اتنے بڑے بڑے ہیں کہ وہ ان کانوں کو اپنے نیچے بچھا کر رات انہی پر سو جاتی ہے۔ دو ہزار سے زائد سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اب اتنے بڑے کان تو کہیں نظر نہیں آتے مگر بہت سے کانوں میں سیسہ بھرا ہوا ضرور نظر آتا ہے خاص کر اہل اقتدار اور طاقتور طبقوں تک عام لوگوں کی آواز بالکل نہیں پہنچتی پہلے کان بڑے تھے اب یہی کان چھوٹے ہوگئے ہیں مگر وہ بہرے ہو چکے ہیں۔ کٹیسیاز نے ایک اور انسانی نسل کا ذکر بھی کیا ہے اس کے مطابق اس انسانی نسل کی رانیں آپس میں جڑی ہوئی تھیں اور یہ بول و براز نہیں کرسکتے تھے بلکہ انہیں ہرشام الٹی کرنی پڑتی تھی۔ مجھ بوڑھے یورپی کو اب رانیں جڑے ہوئے لوگ تو نظر نہیں آتے مگر الٹی کی عادت اب بھی یہاں بڑی عام پائی جاتی ہے سیدھی بات پر بھی الٹی کر کے حالات کو بگاڑنے کے لوگ اب بھی ماہر نظر آتے ہیں۔
دنیا کے اولین تاریخ دانوں میں سے ایک ہیرڈوٹس (پانچویں صدی قبل مسیح) اور کٹیسیاز دونوں متفق ہیں کہ اس خطے میں سمیرغ یا عنقا نامی پرندہ بستا ہے جو سونے کی کانوں کا محافظ ہے۔ سمیرغ (GRIFFIN) مجھ بوڑھے یورپی کو کہیں نظر نہیں آئے مگر سونے او ر دولت کی تجوریوں کے بڑے بڑے انسانی محافظ ہر شہر میں پائے جاتے ہیں یہاں اقتدار کا سمیرغ یا ہما اس کے سر پر ہی بیٹھتا ہے جس کی شکل محافظوں کو پسند آئے عوام کی پسند ناپسند ضروری نہیں، آپ مقبول نہ بھی ہوں لیکن محافظ آپ کو پسند کرلیں تو اقتدار کا ہما فورا آپ کے سر پر بیٹھ جاتا ہے گویا 2500سال میں سمیرغ بہت سیانے ہوگئے ہیں اب صرف سونے کی کان ریکوڈک ہی ان کے پاس نہیں اقتدار کا سونے کا تخت بھی انہی کے پاس ہے۔
326 قبل مسیح کے موسم بہار میں سکندر اعظم ٹیکسلا پہنچا تاریخ دان سٹریبو نے بیان کیا ہے کہ سکندر اعظم کی یہاں ننگے فلاسفروں یعنی برہمنوں سے ملاقات ہوئی ان کے درمیان طویل مکالمہ ہوا یونانی تاریخ کے مطابق برہمن سب سے عقل مند تصور ہوتے تھے اور یہی ہندوستانی بادشاہ کے مشیر اور وزیر ہوا کرتے تھے، اشوک اعظم دورکے سب سے بڑے وزیر مشیر چانکیہ کا بھی اسی علاقے سے تعلق تھا اسی کے مشورے پر چل کر اس نے موریہ سلطنت کی مضبوط بنیاد رکھی اور نندہ خاندان کو شکست پر شکست دی۔ اڑھائی ہزار سال کے بعد میں بوڑھا یورپی ٹیکسلا سے تھوڑی ہی دور اسلام آباد میں مقیم ہوں آج یہاں ننگے برہمن اور بڑے فلاسفر تو کہیں نظر نہیں آتے۔
چانکیہ کے دو تاریخی پہلو مشہور ہیں ایک اسکی دور اندیشانہ دانش اور دوسری اسکی گٹھیا چالاکی۔ اڑھائی ہزار سال میں زوال اتنا آیا ہے کہ اسلام آباد میں ہر طرف چانکیے ہی چانکیے نظر آتے ہیں مگر یہ دور اندیش چانکیے نہیں چالاک چانکیے ہیں۔ ارسطو نے کہا تھا میں جتنا جانتا گیا اتنا ہی مجھے معلوم ہوتا گیا کہ مجھے کچھ علم نہیں مگر اسلام آباد کے چانکیے ہر چیز کے بارے میں گہرا اور مکمل علم رکھتے ہیں انہیں اپنے علاوہ ہر ایک کا علم سطحی نظر آتا ہے کوئی چانکیہ خود کو ہنری کسنجر جیسا ماہر امور خارجہ سمجھتا ہے حالانکہ وہ مجھ ناچیز کی طرح اِل کوکو بھی نہیں جانتا کوئی کشمیر اور فلسطین کا سر ظفر اللہ اور آغا شاہی بنا بیٹھا ہے حالانکہ مجھ بیچارے کی طرح اس کا علم چند کتابوں تک محدود ہے ہم یورپی خود کو ہمیشہ سطحی کہتے اور گردانتے ہیں اور دوسرے کو عزت دینے کیلئے اسے علم کی گہرائی حاصل ہونے کا خطاب دیتے ہیں ہم ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کرکے مخالف دلائل کو فروغ دیتے ہیں لیکن آج کے اسلام آبادی کلچر میں ہر کوئی خود کو عالم فاضل اور دوسروں کو بے علم قرار دیتا ہے۔ میرے جیسے یورپی بوڑھے کا ان عالموں فاضلوں کو ایک ہی جواب ہے ہم سطحی اور نالائق ہی ٹھیک ہیں آپ چانکیوں نے جو سرخاب کے پر لگا رکھے ہیں،لگائے رکھیں ہم فقیر ان کے بغیر ہی ٹھیک ہیں۔ان نام نہاد ہنری کسنجروں، آغا شاہیوں، چانکیوں اور ذات کے برہمنوں کو اپنے ترکش کے سارے تیر بے علموں پر چلانے دیں ہمارا ننگا سینہ حاضر ہے۔
ہزاروں سال گزر گئے اس خطے میں گہری نہیں البتہ سطحی تبدیلیاں تو آئی ہیں تہذیب، ترقی اور جدیدیت کی جھلک جگہ جگہ نظر آتی ہے مجھ بوڑھے یورپی سیاح کو جو چیز سب سے زیادہ کھٹکتی ہے وہ یہاں کی منافقت اور تضادات بھری زندگی ہے یہاں کہا کچھ جاتا ہے اور کیا کچھ جاتا ہے۔ یورپ میں جھوٹ کا وجودتک نہیں مگر یہاں جھوٹ کا راج ہے یہاں بے فائدہ اور مسلسل جھوٹ بولے جاتے ہیں، سیاست میں یہ روش سب سے عام ہے۔
سب سے پہلے تو یہ حکومت جھوٹی ہے، سیاست کے نام پر برسراقتدار آنے والی حکومت سیاست سے مکمل تائب ہے، ایک جماعت کے ووٹوں سے حکومت بنانے کا دعوی کرنے والے ٹیکنو کریٹ سسٹم چلا رہے ہیں بڑے بڑے جغادری وزرا غیر سیاسی احد چیمہ کے سامنے بے بس ہیں ، بیوروکریسی اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ کا مکمل کنٹرول وزیر اعظم کے لاڈلے احد چیمہ کے پاس ہے شہباز شریف بے چارے تو اختیار استعمال نہیں کرتے مگر ان کے لاڈلے مشیرسپر وزیر اعظم بنے ہوئے ہیں، دو تین وزرا نے مجھے بتایا کہ ان کے ہر کام میں احد چیمہ رکاوٹیں ڈالتے ہیں آج کل وہ وزیر اعظم کے شریف النفس پرنسپل سیکرٹر ی اسد گیلانی کو بدلنے کے درپے ہیں دیکھیں وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیںیا نہیں؟ کچھوے جیسی چال چلنے والی شہباز حکومت کی سپیڈ تیز نہ ہونے کی وجہ یہی ٹیکنو کریسی ہے۔ حکومت سیاسی نہیں ہوگی تو سیاست کیسے کرے گی؟دوسری طرف بڑی اپوزیشن پارٹی بھی جھوٹ پر جھوٹ بولتی ہے انہیں مان لینا چاہیے کہ وہ فوجی بغاوت کے خواہش مند تھے کوشش کے باوجود ناکام ہوئے، عدالتوں اور ججوں کے ذریعے سیاسی تبدیلی چاہتے تھیبری طرح ناکام ہوئے، اوورسیز کے ذریعے ملک کی امداد رکوا کر اسے معاشی طور پر مفلوج کرنا چاہتے تھے اس میںبھی ناکام ہوئے، اب مظاہروں کے زور پر حکومت کو اتارنا اور تنگ کرنا چاہتے ہیں اس میں بھی سوائے انتشار کے کسی بڑی کامیابی کا امکان نہیں۔ مجھ بوڑھے یورپی کو سمجھ نہیں آتی کہ کپتان خان پرامن جمہوری جدوجہد اوراتحادوں کی سیاست کی طرف کیوں نہیں آتے۔ اب تو آگ اور پانی یعنی جماعت اسلامی اور بلاول بھٹو مل کر فلسطین پر ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، پی ٹی آئی کیوں تعصب کا بت توڑ کر دوسری جماعتوں کو گلے نہیں لگاتی؟؟(کتاب کے بیشتر تاریخی حوالے رچرڈ سٹون مین کی کتاب الیگزینڈر دی گریٹ سے لئے گئے ہیں)۔
بشکریہ روزنامہ جنگ