اسلام آباد میں غیرقانونی اجتماع کی اجازت نہیں دی جائیگی: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(صباح نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کا احتجاج رکوانے کیلئے دائر درخواست پر حکمنامہ جاری کردیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامرفاروق نے تاجروں کی درخواست پر سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کیا۔عدالت عالیہ نے ہفتہ کی سماعت کے حکمنامہ میں کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں غیر قانونی اجتماع کی اجازت نہیں دی جائے گی، یقینی بنایا جائے کہ ایس سی او سمٹ کے دوران اسلام آباد میں احتجاج اور لاک ڈاون کی صورتحال پیدا نہ ہو، اسلام آباد انتظامیہ اور حکومت احتجاج کیلئے مناسب جگہ مختص کرے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ مظاہرین انتظامیہ کی جانب سے مختص کردہ جگہ پر جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں، آئین کے آرٹیکل 16 اور 17 عوام کو اجتماع اور نقل و حرکت کے بنیادی حقوق فراہم کرتے ہیں تاہم یہ بنیادی حقوق قانون کے مطابق لگائی گئی مناسب قدغن پر منحصر ہیں۔عدالتی حکمنامہ میں کہا گیا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے ایک سیاسی جماعت کے کارکنان ریڈ زون کی جانب مارچ کر رہے ہیں، بتایا گیا کہ کارکنان کا ریڈ زون میں اجتماع دیگر شہریوں کی نقل و حرکت کو منجمد کر دے گا، حکم دیا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری حکم نامہ میں کہا گیا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ آرٹیکل 245 کے تحت امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے فوج کو بھی تعینات کیا گیا ہے، شہر بھر میں دفعہ 144 بھی نافذ ہے، اس صورتحال میں اسلام آباد میں کسی قسم کے بھی احتجاج کی اجازت نہیں دی جا سکتی، کیس کی آئندہ سماعت 17 اکتوبر کو مقرر کی جائے،اس سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کا احتجاج رکوانے کی درخواست پر سماعت کے دوران وزیر داخلہ سیکریٹری داخلہ اور پولیس کے اہم عہدیدار کو طلب کرلیا گیا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری داخلہ کو 3 بجے ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ جی راجہ صاحب کیا عجلت ہے؟ میں عموما ہفتے کو کیسز نہیں کرتا لیکن آپ بتائیں کہ کیاعجلت ہے۔جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ 2 دن سے پورا اسلام آباد بند ہے، کاروبار بند ہے، بچوں کے امتحانات ہیں، ڈیڑھ لاکھ بندوں کی روزانہ آمدورفت ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں صورتحال سمجھ سکتا ہوں، میں خود کنٹینرز کے درمیان سے گزر کر آیا ہوں۔وکیل نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس بھی ہونے جا رہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کانفرنس میں توابھی ہفتہ پڑا ہوا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک چیز ہر ایک کو یاد رکھنی چاہیے کہ ہر شہری کے حقوق ہیں، ایک شہری کے حقوق کے ساتھ ساتھ دیگر کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے، امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا حکومت کا کام ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ سیکرٹری داخلہ سے کہیں عدالت میں پیش ہو جائیں، پولیس کے بھی کسی ذمہ دار افسر کو پیش ہونے کا کہہ دیں، وزیر داخلہ کو بلانا تو شاید مناسب نہ ہو لیکن اگر ہوں تو انہیں بھی بلا لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت پی ٹی آئی کو کوئی ڈائریکشن نہیں دے سکتی، میں حکومتی اداروں کو آرڈر جاری کر سکتا ہوں کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں، موبائل سگنل دو دن سے بند ہیں کسی کی ایمرجنسی ہو جائے تو کیا ہوگا۔۔