ہم اور مولانا فضل الرحمان ساتھ ساتھ اچھے لگتے ہیں۔سینیٹرعرفان صدیقی

اسلام آباد(صباح نیوز)سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی لیڈرسینیٹرعرفان صدیقی نے کہا ہے کہ حکومت اور سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان کے درمیان آئینی ترمیم اور ججزتقرری کے لئے پارلیمینٹ کے اختیار کی بحالی سے متعلق اصولی اتفاق رائے پایاجاتا ہے،آئینی ترمیم کو ٹائم فریم میں قیدنہیں کیا جاسکتا،دوتین ہفتے بھی لگ سکتے ہیں،کسی جج کے جانے کی مدت یا کسی کے آنے سے اس ترمیم کا کوئی تعلق نہیں ہے،ہم نہیں چاہیں گے کہ مولانا کے بغیر یہ ترمیم ہو، ہم  اور مولانا فضل الرحمان ساتھ ساتھ  اچھے لگتے ہیں،نوازشریف اورمولانا فضل الرحمان کے درمیان گرمجوش تعلقات کسی پیغام رسانی کے محتاج نہیں ہیں ۔

ان خیالات کا اظہارانھوں نے اسلام آباد میںسربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحما ن سے طویل ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ ملاقات کامقصد مولانافضل الرحمان کو جے یو آئی کا امیر منتخب ہونے پر مبارکباد دینا تھا ،غیرسیاسی نوعیت کی ملاقات تھی،تاہم ملک کی سیاسی صورتحال،مجوزہ آئینی ترمیم، سیاسی تعلقات کار کے حوالے سے طویل گفتگوبھی ہوئی۔

مولانا فضل الرحمان سے میری دیرینہ رفاقت ہے طویل مدتی تعلقات ہیں  ہمارے درمیان باہمی احترام کا رشتہ پایا جاتاہے۔سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ غیرسیاسی نوعیت کی ملاقات تھی۔مولانا سے تعلقات دوتین دہائی پر مشتمل ہیں،ان سے ترامیم اور رابطوں کے حوالے سے بات چیت ہوئی، سربراہ جے یو آئی کا بھی اصولی موقف یہی ہے کہ آئینی عدالت ہونی چاہیے، ججز تقرری کے لئے عدلیہ کے دباؤپر 19ویں ترمیم کے تحت پارلیمینٹ سے جو اختیار چھین لیا گیا تھا اسے بحال ہونا چاہیے، دونوں میں ان معاملات پر اصولی اتفاق رائے موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمان چاہتے ہیں کی انھیں ترمیم کا حتمی مسودہ ملے جسے ن کے آئینی ماہریں دیکھیں اس کے بعد ہی کوئی سوچ اور رائے بن سکتی ہے،  وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ترمیم  بنیادی حقوق  اورآئینی شہریوں آزادیوں سے متصادم نہ ہو۔ جے یوآئی میں جائزہ کاکام مکمل ہوجائے گا تو کوئی حتمی فیصلہ ہوسکے گا اس میں دوتین ہفتے بھی لگ سکتے ہیں،آئینی ترمیم کی منظوری کو کسی ٹائم فریم میں قید نہیں کیا جاسکتا ہے۔ایک سوال کے جواب میںسینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کے تحفظات ہوسکتے ہیں مگر موجودہ پارلیمینٹ کی حیثیت جواز اور آئینی  ترمیم دو الگ نکات ہیں،مولانا فضل الرحمان پارلیمینٹ میں  کردار ادا کررہے ہیں اپنی بات کرتے ہیں رائے دیتے ہیں اورآئینی ترمیم کے بنیادی معاملے سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ  دوتہائی  اکثریت سے ترمیم ہوسکتی ۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی لیڈر نے کہا جب بھی ترمیم کے بارے میں شراکت داروں میں اتفاق اور دوتہائی اکثریت موجود ہوگی ترمیم پیش کردی جائے گی، ہم نہیں چاہیں گے کہ مولانا کے بغیر یہ ترمیم ہو، پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مولانا ہمارے ساتھ اور ہم ان کے ساتھ اچھے لگتے ہیں ۔

ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان باہمی تعلقات،قربت،گرم جوش تعلقات سے سب آگاہ ہیں اس کے لئے  دونوں رہنماؤں کو کسی پیغام  رسانی کی ضرورت نہیں ہے، میں کوئی پیغام نہیں لایا تھا نہ مولانا  ایسی کوئی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ  یہ نہیں ہوسکتا کی عدلیہ پارلیمینٹ کی کسی آئین شق کو اٹھاکر ایک طرف رکھ دے اور 63اے کے حوالے سے فیصلہ کردے آئین کو عدلیہ نہیں چھیڑ سکتی آئین میں کہاں لکھا ہے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے وا لے کا ووٹ شمار نہیں ہوگا عدلیہ کو اپنے فیصلہ پرنظر ثانی کرنی چاہیے، انھوں نے واضح کیا کہ کسی جج کے جانے کی مدت اور کسی جج کے آنے کا آئینی ترمیم کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ترمیم کے  وقت کوقید نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک سوال کے  جواب میں  لیگی پارلیمانی لیڈر نے کہ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کو اہم  اعلی غیرملکی شخصیات کی پاکستان آمد کے موقع پر احتجاج کیوں یاد آتا ہے چینی صدر کی آمد کے موقع پر بھی ہمارے ہی دور میں دھرنا کا اعلان کردیا گیا کیا ان کو ملک کا مفاد، معیشت عزیز نہیں ہے ؟ اگر انھوں نے اس جمعہ کو ڈی چوک میں آنے کی کال دی تو مجھے امید ہے اہم غیرملکی شخصیات کی آمد اور عالمی نوعیت کے اجلاس کے پیش نظر پی ٹی آئی کی طرف سے اس کال کو واپس لے لیا جائے گا ۔