ایک شاعر نے زندگی اور موت کی کیفیات نہایت سادہ پیرائے میں بیان کی ہیں۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے اِنہی اجزا کا پریشاں ہونا
آئین اور ضابطوں میں ڈھلے ہوئے معاشروں میں ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے جو عناصر کے اندر ترتیب کو مستحکم رکھتے ہیں جبکہ ہماری سوسائٹی میں ان افراد اور جتھوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے جو اجزا کو پریشان رکھنے میں بڑی مہارت کے حامل ہیں، تاہم ہماری یہ امید ابھی تک زندہ ہے کہ تجربات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد ہمارے رویوں میں بھی اعتدال آتا جائے گا۔ چچا غالب نے زندگی کو یبوست اور جمود سے محفوظ رکھنے کے لیے صدیوں پہلے ایک عظیم شعر تخلیق کیا تھا
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی
کرکٹ کے کھیل میں عالمی شہرت یافتہ جناب عمران خان نے اپنی غیرمعمولی ذہانت سے کام لیتے ہوئے ایک ہنگامے کو ایک جلسے میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک جلسے یا جلسوں کے ایک سلسلے سے بنگلہ دیش جیسا انقلاب آ سکتا ہے، چنانچہ انہوں نے 2011 میں مینارِ پاکستان کے وسیع و عریض گراونڈ میں بہت بڑے جلسہ عام کا جلوہ دِکھا کر اہلِ وطن کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا اور جوانوں اور خواتین کا ایک بڑا حلقہ ان سے تمام تر امیدیں وابستہ کر بیٹھا تھا۔
گزشتہ دو تین ہفتوں سے پی ٹی آئی کے دو جلسے ہماری قومی سیاست کا محور بنے ہوئے ہیں۔ ایک جلسہ 8 ستمبر کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک دورافتادہ علاقے اور اِنتہائی پراسرار ماحول میں منعقد ہوا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی جناب عمران خان نے پہلے 22اگست کو جلسہ کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر اچانک ایک غیرمتوقع واقعہ پیش آیا۔ اس روز صبح سویرے کوئی سات بجے کے لگ بھگ جناب اعظم سواتی جو کچھ عرصے سے پس منظر میں چلے گئے تھے، اچانک نمودار ہوئے اور اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملے۔ ان کے درمیان کیا کھسرپھسر ہوئی، اِس کا صحیح طور پر پتہ نہیں چل سکا، تاہم جیل سے پیغام آیا کہ جلسہ فوری طور پر ملتوی کر دیا گیا ہے۔ بعدازاں ضلعی انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد 8 ستمبر کی تاریخ اور جلسے کی جگہ طے پائی۔ انتظامیہ نے یہ شرط عائد کی کہ جلسہ چار بجے سہ پہر سے سات بجے شام تک محدود ہو گا اور اِشتعال انگیزی سے مکمل اجتناب کرنا ہو گا۔
جلسہ ہوا، مگر اس میں بیشتر مقررین نے حکومت، فوج اور عدلیہ کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی۔ خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلی جناب علی امین گنڈاپور جوشِ خطابت میں ہر اخلاقی اور قانونی حد پار کر گئے اور وہ پینترے بدل بدل کر افواجِ پاکستان کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر پر طبع آزمائی کرتے رہے۔ اخباری رپورٹس کے مطابق جلسہ رات کے دس بجے تک جاری رہا جس میں جناب گنڈاپور نے اعلان کیا کہ اگر ان کے لیڈر عمران خان کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا، تو وہ جیل توڑ کر انہیں رہا کرا لیں گے اور پندرہ دِنوں تک پنجاب پر بھی چڑھائی کر دیں گے۔ اِس پر پی ٹی آئی کے سنجیدہ افراد گہری تشویش میں مبتلا نظر آئے کہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہو سکتی ہے، مگر وہ غیرسیاسی طاقت جو اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتی ہے، اس نے ایک ایسا گل کِھلایا کہ حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ رات کے اندھیرے میں نقاب پوشوں کا ایک جتھہ پارلیمنٹ ہاوس میں داخل ہوا جس کے پاس کمروں کی چابیاں بھی تھیں۔ وہ پی ٹی آئی کے دس ارکانِ اسمبلی کو گرفتار کر کے لے گئے جس پر ہر طرف سے شدید احتجاج ہوا۔ اسپیکر قومی اسمبلی جناب سردار ایاز صادق نے جرات سے کام لیتے ہوئے فوری طور پر ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے، چنانچہ وہ اگلے روز رہا ہو کر پارلیمنٹ ہاوس پہنچ گئے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں فطری طور پر حددرجہ اشتعال انگیز تقریریں کیں اور حکومت کے خوب لتے لیے۔ اِس طرح تحریکِ انصاف بظاہر فتح یاب دکھائی دی اور اس کے حوصلے بڑھتے چلے گئے۔
اڈیالہ جیل سے اعلان ہوا کہ لاہور میں 21 ستمبر کو جلسہ ہر قیمت پر منعقد کیا جائے گا۔ بانی تحریکِ انصاف نے حکم دیا کہ گھروں سے نکل کر کچھ کر گزرو یا مر جاو اور مجھے آزاد کراو۔ انتظامیہ نے جلسے کی منظوری دینے میں بہت زیادہ لیت و لعل سے کام لیا اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر صرف ایک روز قبل مویشی منڈی کاہنہ میں جلسے کی اجازت دی اور اخباری اطلاعات کے مطابق کوئی پچاس کے لگ بھگ شرائط عائد کیں جو مذاق لگتی تھیں۔
طے پایا کہ جلسہ تین بجے سہ پہر سے چھ بجے شام تک ہو گا۔ صوبائی حکومت نے دانائی سے کام لیتے ہوئے تمام راستے کھلے رکھے، چنانچہ ایک غیرجانب دارانہ تجزیے کے مطابق جلسہ گاہ میں اٹھارہ بیس ہزار سامعین موجود تھے۔ ان میں خواتین بھی خاصی بڑی تعداد میں تھیں اور وہ حیرت کا اظہار کر رہی تھیں کہ راستوں میں حکومت نے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ عوام تو پہنچ گئے، مگر قائدین ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے۔ پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان بھی کوئی پونے چھ بجے کے قریب پہنچے اور ابھی تقریر کر ہی رہے تھے کہ چھ بجے کے بعد لاوڈ اسپیکر بند کر دیے گئے۔ علی امین گنڈاپور جلسے کے اختتام کے بعد پہنچے، مگر حماد اظہر نے اپنی تقریر میں عدلیہ کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔ حکومت کی حکمتِ عملی کا یہ اچھا نتیجہ سامنے آیا کہ لاہور میں پی ٹی آئی کا جلسہ بھی ہو گیا اور کوئی حادثہ بھی پیش نہیں آیا، البتہ پاکستان تحریکِ انصاف کی عوامی قوت میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ جلسہ بدنظمی کا شکار نظر آیا اور لاہور کے عوام نے بڑے پیمانے پر جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ تحریکِ انصاف کے جھنڈے نظر آئے نہ نعروں کی گونج سنائی دی۔ اس کی قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ اسے جلسے اور مخصوص نشستوں کی سیاست سے نکل کر اہلِ وطن کو ایک ٹھوس اور قابلِ اعتماد لائحہ عمل دینا اور ہر سطح کی قیادت کو مستقل مزاجی، متانت اور معاملہ فہمی کا ثبوت دینا ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ