یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا سیرتؐ فیسٹیول تھا جس میں نوجوانوں نے اپنے بزرگوں کیساتھ نبی کریم حضرت محمدﷺ کی تعلیمات پر مکالمہ کیا۔ اسلام آباد کی نیشنل اسکلز یونیورسٹی میں اس تاریخی سیرت فیسٹیول کا اہتمام نیشنل رحمت للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی نے کیا تھا۔اس اتھارٹی کے سربراہ جناب خورشید ندیم ملک کے معروف دانشور اور کالم نگار ہیں جنہوں نے تین روزہ سیرت ؐ فیسٹیول میں امریکہ ،برطانیہ اور دیگر ممالک کے اسکالرز کے علاوہ بشپ آف لاہور جناب ندیم کامران کو بھی مدعو کیا اور یوں اس فیسٹیول میں دو روزہ عالمی سیرت ؐ کانفرنس بین المذاہب مکالمے کی صورت اختیار کر گئی ۔ اس سیرت ؐ فیسٹیول میں ایک طرف سیرت ؐکانفرنس کروائی گئی اور دوسری طرف آخری دن ایک یوتھ کنونشن کا انعقاد کیا گیا جس میں پیارے نبی ؐ کی زندگی پر ایک خوبصورت دستاویزی فلم نوجوانوں کو دکھائی گئی جس کا اسکرپٹ جناب امجد اسلام امجد مرحوم نے لکھا تھا۔میرے لئے اس سیرت ؐ فیسٹیول میں کشش کی اصل وجہ کتاب میلہ تھا جہاں سیرت النبی ؐ اور تاریخ اسلام پر نادر تحقیقی کتب رعایتی قیمت پر میسر تھیں۔ملک کے معروف پبلشرز نے تین دن تک اس کتاب میلے میں نوجوانوں کو ہزاروں کتابیں فروخت کیں۔اس کتاب میلے میں نوجوانوں کی دلچسپی میرے لئے امید کی کرن تھی کیونکہ جس قوم کے نوجوانوں کا کتاب کےساتھ رشتہ قائم رہتا ہے وہ قوم زیادہ دیر اندھیروں میں نہیں بھٹکتی۔رحمت للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی نے نوجوانوں کو کتاب میلے کے ذریعہ سیرت رسول ؐ سے جوڑ کر بہت خیر کا کام کیا ہے۔
اس کتاب میلے میں مجھے سیرتؐ پر ایسی ایسی نادر کتابیں نظر آئیں جو پہلے کبھی نظر سے نہ گزری تھیں ۔محققین کیلئے سید عزیز الرحمٰن کی دو جلدوں میں ’’کتابیات سیرت‘‘ معلومات کا ایسا خزانہ ہے جس میں سیرت رسول ؐ پر اردو زبان میں لکھی جانے والی دس ہزار سے زائد کتب اور ان کے مصنفین کا تعارف موجود ہے۔ڈاکٹر حافظ محمد نعیم کی کتاب ’’ہندو اور سکھ سیرت نگار‘‘ میں موجود تفصیل کو پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ صرف اردو، ہندی اور گورمکھی میں سیرت رسول ؐ پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔اگر عربی، فارسی، انگریزی، جرمن، فرنچ اور دیگر زبانوں میں اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کو بھی سامنے رکھا جائے تو سیرت رسول ؐ پر لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ اتنا بڑا اور وسیع موضوع ہے جس پر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے اسکالرز اور علماء تعمیری مکالمہ شروع کریں تو بہت سی غلط فہمیوں اور نفرتوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اس کتاب میلے میں ایک ایسی کتاب نظر آئی جسے نیشنل رحمت للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی نے حال ہی میں شائع کیا ہے ۔کتاب کا نام ہے’’ علامہ محمد اقبال اور تحریک احمدیت‘‘اس تحقیقی کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ بیگ نے اپنی علمی تحقیق سے کئی اہم تاریخی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے اور کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کر دیا ہے۔یہ کتاب دراصل عقیدہ ختم نبوت کے دفاع میں علامہ اقبال کے کردار کو اجاگر کرتی ہے ۔علامہ اقبال اور پنڈت جواہر لال نہرو کے درمیان احمدیت پر ہونے والی بحث پر کتاب میں تاریخی دستاویزات شامل کی گئی ہیں۔ اس کتاب میں علامہ اقبال کے استاد مولوی سید میر حسن کا سرسید احمد خان کو لکھا گیا خط اور پھر سرسید احمدخان کا جواب بھی شامل ہے ۔سرسید نے 9دسمبر 1891ء کو مولوی سید میر حسن کو لکھا کہ میں نے مرزا غلام احمد کی تصانیف دیکھی ہیں وہ اس قسم کی ہیں جیسا کہ ان کا الہام۔نہ دین کے کام کا نہ دنیا کے کام کا۔ اس زمانے میں احمدیوں کی طرف سے مرزا غلام احمد کی مدح میں ایک نظم کو اقبال سے منسوب کیا گیا حالانکہ یہ نظم اقبال کی نہ تھی۔جب اقبال نے احمدیوں پر تنقید شروع کی تو کہا گیا کہ پہلے آپ احمدیوں کے بارے میں مثبت رائے رکھتے تھے بعد میں تنقید کیوں کرنے لگے؟پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ بیگ نے علامہ اقبال کی طرف سے 1916ء میں لکھا جانے والا ایک تحقیقی مضمون ڈھونڈ نکالا ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر لکھا کہ جو شخص نبی کریمؐ کے بعد کسی ایسے نبی کے آنے کا قائل ہو جس کا انکار کفر ہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔علامہ اقبال کو 1916ء میں معلوم ہو چکا تھا کہ احمدی جماعت مرزا غلام احمد کی نبوت سے انکار کرنے والوں کو کافر سمجھتی ہے لہٰذا انہوں نے کسی کو کافر قرار نہیں دیا بلکہ ان سمیت مرزا غلام احمد کی نبوت سے انکار کرنے والوں کو کافر قرار دیا گیا۔اس کے باوجود علامہ اقبال نے تلخ لہجہ اختیار نہیں کیا اور 1935ء میں نہرو کے ساتھ ہونے والی بحث میں بھی علمی تنقید تک محدود رہے ۔ سیرت فیسٹیول کے یوتھ کنونشن میں برطانیہ سے آئے ہوئے اسکالرطہٰ قریشی سے بھی ملاقات ہوئی۔ان کی کتاب ’’جماعت احمدیہ‘‘ شیخ زاید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور نے شائع کی ہے ۔اردو اور انگریزی میں شائع ہونے والی اس کتاب کا مقصد قادیانیت کا مسیحیوں اور مسلمانوں کے ساتھ تعمیری مکالمہ قرار دیا گیا ہے اور اس کتاب کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے ۔’’عقائد کے درمیان اختلافات کو توہین آمیز رویوں کی بجائے باہمی احترام کے ساتھ تسلیم کیا جانا چاہئے اور سب سے بڑھ کر ہر فرد کو چاہئے کہ ملکی آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے امن و امان کی فضا کو قائم رکھنے کےلئے ممدومعاون ثابت ہو۔طہٰ قریشی صاحب نے اس کتاب میں کہا ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود نے اپنے پیروکاروں کےلئے قادیانی کا لفظ استعمال کیا تاکہ ان کے اور لاہوری گروپ کے درمیان امتیاز کیا جاسکے۔انہوں نے مستند حوالوں سے قادیانیوں کے 12مختلف گروپوں کا تعارف پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ مرزا غلام احمد اور بشیر الدین محمود کی طرف سے نہ صرف شعائر اسلام کی توہین کی جاتی رہی بلکہ حضرت عیسیٰؑ کی شان میں بھی گستاخیاں کی گئیں اور ایچ اے والٹر کو مرزا غلام احمد نے بتایا کہ میں ہندوؤں کیلئے کرشنا اور مسلمانوں اور مسیحیوں کے لئے مسیح موعود ہوں۔اسی موضوع پر جمیل اطہر قاضی صاحب کی ایک نئی کتاب ’’مسئلہ قادیانیت‘‘ شائع ہوئی ہے ۔قاضی صاحب نے ایک ہزار سے زائد صفحات میں ایک سو سال کی تاریخ کو سمو دیا ہے۔ اس مسئلے پر نفرتوں کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے عقائد کی توہین نہ کی جائے اور احمدی یا قادیانی آئین پاکستان میں اپنی حیثیت کو تسلیم کریں اور ریاست پاکستان انہیں اپنے شہری کی طرح تحفظ فراہم کرے۔نیشنل رحمت اللعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی اس مسئلے پر بھی مکالمے کا اہتمام کرکے تمام پاکستانیوں کی ایک اور خدمت کرسکتی ہے ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ