دنیا نظریات سے خالی ہوگئی ہے : تحریر محمود شام


دنیا اتنی مفلس کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔

انسانیت کا وقار خاک میں ملایا جارہا ہے۔

غزہ میں 50ہزار جیتے جاگتے انسان موت کے اندھیروں میں پہنچادیے گئے ہیں۔ جن میں 15ہزار بچے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہورہا ہے۔ خبریں دی جارہی ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ عالمی رہنماؤں سے ملیں گے۔ یہ بھی ایک تہمت ہے۔ کون ہے عالمی رہنما۔ اگر اس وقت کسی بر اعظم میں کوئی ذمہ دار ہوتا۔ جو واقعی رہبری کرسکتا تو دنیا میں کمزوروں کا خون اس طرح مٹی میں نہ مل رہا ہوتا۔ کوئی جمال ناصر۔ کوئی لوممبا۔ کوئی خروشیف ۔ کوئی سوکارنو۔ کوئی کینیڈی۔ کوئی بن باللہ۔ کوئی شاہ فیصل۔ کوئی خمینی وہ اس یہودی مملکت کا ہاتھ روک دیتا۔ کوئی تیسری دنیا کو جگارہا ہوتا۔ کوئی کاسترو غریب ملکوں کی آواز بنا ہوتا۔

دنیا نظریات سے بھی خالی ہوگئی ہے۔ کمیونزم دفن ہوچکا۔ چین کہتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا۔ سوشلزم کی چینی خصوصیات کے ساتھ۔ کون اس کی تشریح کرے۔ کینیڈا کا جواں سال جسٹن کبھی کبھی کوئی بامعنی جملہ بول دیتا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے منہ سے تو الفاظ صحیح طرح نہیں ادا ہورہے ہیں۔ پیر کو ان کے منہ سے نکلنے والا لفظ ان کے اسسٹنٹ نے سمجھا بھی تو وہ ’مودی‘ تھا۔ امریکہ کے نوجوان جاگ رہے ہیں۔ کملا ہیرس کے منہ سے فلسطین کے شہداء کے حق میں ایک جملہ سننے کو ترس گئے ہیں۔ لیبیا۔ عراق۔ الجزائر کو خون میں نہلادیا گیا ہے۔ مصر میں ایک فوجی رہنما ہونے کا دعویٰ کررہا ہے۔ ایران اپنے جنرل۔ اپنے صدر کھوچکا ہے۔

دنیا صرف سیاسی قائدین کے حوالے سے ہی تہی دامن نہیں ہوئی ہے۔ مغرب میں بھی ماؤں نے کارل مارکس۔ ژاں پال سارتر۔ ٹرینڈ رسل۔ مارٹن لوتھر کو جنم دینا چھوڑ دیا ہے۔ بیسویں صدی کا ’رسل سارتر وار کرائمز ٹریبونل‘ یاد آتا ہے۔ کوئی رسل اب بھی ہوتا تو غزہ میں بربریت پر ’جنگی جرائم کا ٹریبونل‘ ضرور قائم کرتا۔مغرب نے ہٹلر کے ہولو کاسٹ کو ایک مقدس تہوار بنادیا ہے۔ یہودیوں کے خلاف گفتگو پر پابندی ہے۔ یہ جو غزہ میں لبنان میں ہولو کاسٹ ہورہاہے۔ یہ جو غزہ والے لاشیں سپرد خاک کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ او آئی سی کوئی بیان بھی جاری نہیں کرتی ہے۔کبھی رابرٹ فیک کی تحریر سامنے آجاتی تھی۔ نوم چومسکی کے قویٰ مضمحل ہوچکے ہیں۔ ایڈورڈ سعید کی میراث کوئی نہیں سنبھال سکا ہے۔

مسلم دنیا میں تو انٹلیکچوئل کی کوئی روایت ہی نہیں رہی۔ بادشاہوں۔ امراء۔ جنرلوں اور ڈکٹیٹروں کو اگر کسی عنصرپر سخت برہمی ہوتی ہے تو وہ خرد افروزی ہے۔ ہم اپنے ہاں بھی اس کا تجربہ کررہے ہیں۔ آئی اے رحمن کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ شیخ ایاز کی دستار کوئی اپنے سر پر نہیں لینے کو تیار ہے۔ حبیب جالب بننے پر کوئی آمادہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں گل نصیر رہے نہ مبارک قاضی۔

ارشد شریف یاد آتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں سندھ میں جان قربان کرنے والے صحافی۔

پاکستان تاریخ کے سنگین ترین دَور سے گزر رہا ہے ۔ یہ عظیم سر زمین ہنگاموں میں مبتلا تو رہی ہے۔ لیکن اداروں میں ایسے بزرگ ہوتے تھے جو ریاست کے ستونوں کو آپس میں ٹکرانے سے روکنے کے لیے باہر نکلتے تھے۔ خاموشی سے ملک کے مفاد کو بالاتر رکھتے ہوئے متحارب قوتوں کو قریب لاتے تھے۔ اب پوری قوم کو عادت ڈال دی گئی ہے کہ وہ محاذ آرائی میں خوب دلچسپی لیتی ہے۔ ادارے ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کی مختاری تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ سپریم کورٹ تو کہتے ہیں لیکن اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آئے تو اس میں اصلاحات کے لیے اجلاس بلاتے ہیں۔ ان دنوں سنگین ترین عدالتی بحران ہے۔ پارلیمنٹ اپنی بالادستی کا دعویٰ کررہی ہے۔ مگر قانون آرڈی نینس کے ذریعے نافذ کیا جارہا ہے۔ آئینی ترامیم کو پارلیمنٹ صرف منظور کروانا چاہتی ہے اس پر عام بحث نہیں کرنا چاہتی۔ حالات ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ جہاں امن اور انصاف کی بجائے انتشار اورخطرات کے امکانات زیادہ ہیں۔ مسائل کا حل صرف نئے انتخابات۔ نئے الیکشن کمیشن کے قیام میں ہی نظر آتا ہے۔اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت غریب ممالک کے امیر حکمرانوں کی عیاشی بن چکی ہے۔ ایک صحافی کی حیثیت سے 80-70 کی دہائیوں میں پھر اکیسویں صدی میں تواتر سے جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ یہاں پاکستان سمیت ایشیا افریقہ کے ملکوں میں عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے صدر اور وزیراعظم نے جب خطاب کیا ہوگا تو امریکہ۔ برطانیہ۔ کینیڈا۔ روس سب کے سربراہ بیٹھے ہوں گے۔ ہم نے ہر سال ہی دیکھا کہ اپنی اپنی باری پر سربراہان مملکت آتے ہیں۔ خطاب کرتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ سامنے دوسرے ملکوں کے اقوام متحدہ میں دفاتر کے نمائندے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بہت کم سربراہوں کو کسی دوسرے سربراہ کی تقریر سنتے دیکھا ہے۔ تالیاں بجانے والے بھی اپنے ملک کے وفد کے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ میڈیا میں ہر ملک میں ایسی شہ سرخیاں شائع ہوتی ہیں۔ جیسے ہمارے صدر۔ وزیر اعظم نے پوری دنیا کو اپنے موقف کا قائل کرلیا۔ کشمیر کا مسئلہ 77 سال سے وہیں کا وہیں ہے۔ فلسطین کے لیے کتنے انسانوں کا خون ہوچکا ہے۔ روہنگیا کے مسلمان کسمپرسی میں ہیں۔

ابتلا کے ان دنوں میں ایک اچھی اور اہم خبر سننے کو ملی ہے۔ اور حسب توقع اس پر کوئی ٹاک شوز۔ فالو اپ نہیں ہوئے ہیں۔ ہم بھی اپنے کالموں میں گلہ کرتے رہے ہیں کہ عدالتی اصلاحات صرف عظمیٰ اور عالیہ میں کی جاتی ہیں۔ ذیلی عدالتوں میں جہاں عوام زیادہ بڑی تعداد میں انصاف کے لیے جاتے ہیں۔ وہاں کوئی اقدامات نہیں ہوتے۔ بہت خوشی ہوئی کہ سندھ ہائی کورٹ نے اس ہفتے ماتحت عدالتوں میں ججوں کی کارکردگی اور صلاحیت جانچنے کے لیے ریوارڈ پالیسی جاری کردی ہے۔ ہر جج کو ہر ماہ 125یونٹ لازمی حاصل کرنا ہوں گے ۔ دو ماہ تک مطلوبہ یونٹ نہ حاصل کرنے والے جج کی کارکردگی خراب تصور ہوگی اور اس کے خلاف انکوائری بھی ہوگی۔ 3½اور 5برس کے زیر التوا مقدمات نمٹانے پر 6یونٹ ملیں گے۔ قتل کے مقدمے میں 3برس سے زیر التوا کیس میں چارج فریم پر 8یونٹ۔ اسی طرح دیگر شعبوں کے یونٹوں کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اس پر کچھ قانونی ماہرین سے بات کرکے کسی وقت تفصیلی بات کریں گے۔ سندھ ہائی کورٹ میں جس نے بھی یہ سوچا وہ لائق تحسین ہے۔ دوسری ہائی کورٹوں کے لیے لائق تقلید۔

بہت ہی صاحب طرز۔ منفرد۔ اور دل کی بات غزل میں کہنے والے اجمل سراج۔ کراچی کی ادبی محفلوں کی جان تھے۔ بس اچانک بیمار ہوئے۔ اور دنیا سے پردہ کرگئے۔ بہت ہی شائستہ۔ نفیس شخصیت۔ اللہ ان کے صاحبزادے عبدالرحمن مومن کو ان کا ادبی ورثہ سنبھالنے کی توفیق دے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ