میں جہاں رہتا ہوں، اس بستی میں سابق فوجی افسروں کی اکثریت ہے جن کی اکثریت عمران خان کے حامی ہے، اس بستی میں سویلین بھی رہتے ہیں جن کی اکثریت عمران کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتی۔ چونکہ سب mature اور پڑھے لکھے لوگ ہیں اس لیے سیاسی معاملات پر اختلاف سماجی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوتا اور ہمارے آپس میں بڑے خوشگوار تعلقات اور دوستیاں قائم ہیں۔
دو روز قبل ایک پی ٹی آئی کے حامی دوست نے اپنے ہاں چائے پر مدعو کیا۔ وہاں ظاہر ہے ملکی حالات پر بھی باتیں ہوئیں۔ حالیہ مجوزہ آئینی ترامیم پر سب نے تنقید کی،اس پر سب کا اتفاق تھا کہ اِن ترامیم کا مقصد اعلی عدالتوں کے پر کاٹنا اور انھیں مطیع اور فرمانبردار بنانا ہے اور یہ جمہوریت ، ملک اور قوم کے لیے نقصان دہ ہیں، سب نے حکومت پر تنقید کی اور تشویش کا اظہار کیا۔
میرا پچھلا کالم بھی اسی موضوع پر تھا، اس میں بھی اسی چیز کو اجاگر کیا گیا تھا۔ بحث کے عین درمیان میں، میں نے ایک سوال پوچھ لیا جس پر کچھ دیر کے لیے خاموشی طاری ہو گئی۔ میں نے کہا محترم دوستو، فرض کریں کہ صورتحال اس کے برعکس ہوتی، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی جگہ آج پی ٹی آئی ہوتی اور شہباز شریف کی جگہ وزیراعظم عمران خان ہوتا تو وہ کیا کرتا؟ کچھ توقف کے بعد ایک صاحب نے خاموشی توڑی اور کہا کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی یہی کرتا جو یہ کر رہے ہیں۔ اکثریت نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ محفل میں موجود عمران خان کے ایک بڑے حامی نے آہستہ سے کہا، وہ شاید اس طرح۔۔۔۔مگرانھیں یاد کرایا گیا کہ نہیں جناب اس کا طرزِ عمل دیکھا جا چکا ہے، جس طرح یہ حکومت جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔
اسی طرح عمران خان کی حکومت نے جسٹس فائز عیسی کا راستہ روکنے کی کوشش کی، جس طرح موجودہ حکومت کسی کی ہدایات پر ایسا کر رہی ہے، اسی طرح عمران خان نے بھی کسی کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس بھیج دیا تھا۔ جس طرح موجودہ حکمران ون پیج کا بڑے فخر سے ذکر کرتے ہیں، اسی طرح وہ بھی ون پیج کی رٹ لگائے رہتا ۔ جس طرح موجودہ حکمران اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں، اسی طرح وہ بھی آیندہ دس پندرہ سال تک اپنی آمرانہ حکومت قائم رکھنا چاہتا تھا۔ ملک کی بدقسمتی یہی ہے کہ مارکیٹ میں موجود سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کے obedient servant بنے رہے ہیں، بنے ہوئے ہیں اور جو نہیں بن سکے وہ آیندہ بننا چاہتے ہیں، اور اسی طرزِ عمل پرمطمئن اور خوش ہیں۔
اسی طرح کا تبادلہ خیال کل ایک اور تقریب میں دوستوں کی مجلس میں ہوا۔ بانی پی ٹی آئی کے ایک سپورٹر نے خوش گمانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیل انسان کو بہت کچھ سکھادیتی ہے، عمران خان نے جیل میں رہ کر بہت کچھ سیکھا ہوگا، اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ جیل سے باہر آکر اس کی آئین اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی مستحکم ہوگی اور وہ چاہے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کوئی رول نہ ہو ۔ اس پر ان صاحب سے سوال ہوا کہ ابھی تک بانی پی ٹی آئی نے جو نظریہ سیاست پیش کیا اور عوام کے ساتھ شیئر کیا ہے۔
اس کے مطابق تو وہ فوج کے غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہونے کے حق میں نہیں ہیں وہ اپنی خواہش کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ فوج غیر سیاسی ہرگز نہ ہو، وہ سیاست میں بھرپور حصہ لے، صرف اتنا کرے کہ اپنی پسندوناپسند تبدیل کرلے، موجودہ چہیتوں کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کرے اور وزارتِ عظمی کی مسند پر مجھے بٹھادے۔ اگر فوج ایسا کرے تو وہ فوج کے گن گائیں گے۔ اس بات کا کوئی واضح جواب نہ دیا جاسکا۔
چند روز قبل ایک ہائی پروفائل شادی پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے تمام سینیئر راہنما موجود تھے، ان میں سے کچھ کے ساتھ تبادلہ خیال ہوتا رہا، ان کا کہنا تھا کہ اب بلاول بھٹو (جو شادی کی تقریب میں موجود تھے) نے اپنی خدمات پیش کردی ہیں اور کہا ہے کہ حضور! نون لیگ تو آئینی ترامیم پاس کرانے میں ناکام ہوگئی ہے، اب یہ ٹاسک مجھے سونپیں، میں مولانا فضل الرحمن کو مناؤں گا اور اب پیپلز پارٹی ان ترامیم کو اسمبلی سے پاس کرائے گی۔ میں نے پوچھا کیا پیپلز پارٹی ان ترامیم کو عدلیہ کی آزادی اور جمہوریت کے استحکام کے لیے مضر نہیں سمجھتی؟ جواب آیا کہ بالکل سمجھتی ہے، مگر ان کی نوجوان قیادت کے لیے عدلیہ کی آزادی اور جمہوریت وغیرہ کی کوئی اہمیت نہیں، ان کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کا حصول ہی ترجیحِ اول ہے۔
اس کے لیے بلاول بھٹو بھی نوازشریف صاحب کی طرح ماضی کا تمام سیاسی اثاثہ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایک اور دوست نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک جیل میں رہ کر سبق سیکھنے کا تعلق ہے تو مشاہدہ اور حقائق یہ بتاتے ہیں کہ سیاستدانوں کا پہلا دور قدرے اچھا ہوتا ہے، وہ جوش اور جذبے سے سرشار ہوکر کام کرتے ہیں۔ تمام تر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ نوازشریف کے تینوں ادوار میں سے پہلا دور (1990-93) بہترین تھا جس میں ملک برق رفتاری سے ترقی کرررہا تھا، عوام کو فوری انصاف دینے میں بھی میاں صاحب بہت پرجوش تھے۔ بعد والے ادوار میں وہ جوش اور جذبہ برقرار نہ رہا۔ اسی طرح شہبازشریف صاحب جب پہلی بار وزیرِاعلی بنے تو انھوں نے میرٹ کا بہت زیادہ خیال رکھا، کرائم اور کرپشن کے خاتمے کے لیے نیک نیتی سے کوشش کی، کسی کرپٹ افسر کو فیلڈ پوسٹنگ نہیں دی بلکہ کسی بدنام افسر کو پاس تک پھٹکنے نہیں دیا، بعد میں کمپرومائزز شروع ہوگئے اور میرٹ پامال ہونے لگا۔
بینظیر بھٹو صاحبہ جب 1988میں پہلی بار وزیراعظم بنیں تو ان پر زیادہ الزامات نہیں لگے مگر 1993 میں دوبارہ وزیراعظم بنیں تو ان کی حکومت کرپشن اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے بہت زیادہ بدنام ہوئی۔ ویسے بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ ساٹھ سال سے اوپر کے سیاستدان جب جیل میں ڈالے جاتے ہیں تو اے کلاس کی تمامتر سہولیات کے باوجود ان کا تجربہ بہت تلخ ہوتا ہے اور وہ دوبارہ اس تلخ تجربے سے بالکل نہیں گزرنا چاہتے، ستر سالہ سیاستدان دوبارہ کسی صورت بھی جیل نہیں جانا چاہیں گے، لہذاگرفتاری، مقدمات اور جیل کے کٹھن راستے کے بجائے وہ سمجھوتے والا آسان راستہ منتخب کرتے ہیں، اس کے لیے وہ سویلین بالادستی کا خواب دیکھنا بند کردیتے ہیں، ووٹ کو عزت اور جمہور کی حکمرانی کے نظریات کو وہ خود اپنے پاں تلے کچل دیتے ہیں اس طرح وہ موجودہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے محتاج ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں اور محدود اقتدار پر ہی مطمئن ہوجاتے ہیں۔
چونکہ سیاسی جماعتوں کی اب کوئی نظریاتی اساس تو رہی نہیں، وہ صرف پاور پالیٹکس کرتے ہیں اور ان کا ہدف صرف اور صرف اقتدار ہے۔ ان کا ایجنڈا نہ یہاں کے فرسودہ سسٹمز کو بدلنا ہے، نہ ہی عالمی سطح پر کوئی موثر کردار ادا کرنا ہے، ان کے اہداف بہت محدود سے ہیں یعنی اپنی اور اولاد کی اقتصادیات کو مستحکم کرنا اور افسر شاہی کو ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔ لہذا آیندہ سیاسی قیادت عوام کے پاس جانے کا تکلف بھی نہیں کرے گی، اقتدار کا فیصلہ اس بات پر ہوگا کہ کون کتنا زیادہ جھکتا ہے یعنی مقابلہ جھکا کا ہوگا۔ عمران خان بھی مقابلہ جھکا میں بڑی تیاری کے ساتھ حصہ لے گا۔ آیندہ اگر کبھی (اس پر بڑا سوالیہ نشان ہے) عمران خان کو حکومت ملی تو وہ موجودہ حکمرانوں کی طرح ہی لیٹ جائے گا۔ جتنے اختیار خیرات میں دیے گئے انھی پر قناعت کرے گا۔
پہلے اگر وہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افسروں کو اہم پوسٹنگ دیتا رہا ہے تو آیندہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو آئی جی بھی لگا سکتا ہے۔ پہلے اگر چند قریبی افراد کی کرپشن کو تحفظ دیتا رہا ہے تو آیندہ پوری کابینہ کی کرپشن کی سرپرستی کرے گا۔ اگر کسی نے سویلین بالادستی کا نام لیا تو اسے پارٹی سے نکال دے گا، اگر کسی نے کرپشن کا گلہ کیا تو اس سے وزارت چھین لے گا۔ پہلے اگر اس نے پنجاب میں بری گورننس دی تھی تو آیندہ بدترین گورننس دے گا۔ اسی لیے ملک کا درد رکھنے والے شدید مایوسی کا شکار ہورہے ہیں کہ دور دور تک کوئی امید کی روشنی نظر نہیں آتی۔ کیا اس قوم کے لیے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ اس پر آیندہ بات ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس