قائمہ کمیٹی سیفران کا قبائلی اضلاع میں آپریشن سے متاثرہ خاندانوں کی تاحال بحالی نہ ہونے پر اظہار تشویش

اسلام آباد (صباح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران نے جنوبی وزیرستان ودیگر قبائلی اضلاع  میں آپریشن سے متاثرہ خاندانوں کی تاحال بحالی نہ ہونے پر اظہار تشویش کیا ہے یہ معاملہ پی ٹی آئی کے سینیٹر دوست محمدخان نے کمیٹی میں اٹھادیا،معاوضوں کی عدم ادائیگی کے  مسئلے کو حل کیا جائے ،جب کہ اعلی حکام نے واضح کیا ہے کہ این ایف سی کا نیا فارمولا طے ہونے تک قبائیلی اضلاع کے  معاشی مسائل حل نہیں ہوں گے، وفاق سے وعدے کے مطابق مالی وسائل فراہم نہیں کیے گئیخیبر پختونخواحکومت کو یہ بوجھ اٹھانا پڑرہا ہے  ۔

کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر جان محمد کی زیر صدارت پالیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔قبائلی اضلاع کے  معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔خیبر پختونخوا کے وزارت خزانہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ضم شدہ اضلاع کے مالی سال 2021-22  کے لیے 22.7 ارب روپے مختص کیے گئے تھے ان میں سے  19.3ارب روپے ریلیز ہوئے, مالی سال 2022 23 کے لیے 22.7 ارب روپے مختص ہوئے اور 19.8 ارب روپے ریلیز ہوئے ہیں  2023 24 کے لیے 26 ارب روپے سے 20.8 ارب روپے ریلیز ہوئے۔ ان برسوں کے دوران کل 71.4 ارب روپے  کء بجٹ سے 59.9 ارب روپے استعمال ہوئے۔ اے ائی پی کے لیے 2021-22 میں  30 ارب  سے  25.5 ارب  2022 23 میں 30 ارب اگلے سال 31 ارب روپے سے 24.8 ارب روپے ریلیز کیے گئے. ان برسوں کے دورانکل 91 ارب روپے مختص ہوئے اور 80.3 ارب روپے ریلیز ہوئے ہیں۔

سینیٹر دوست محمد خان نے کہا کہ  کم فنڈز ریلیزہوئے۔ ایڈیٹر جنرل اف پاکستان اور اے جی پی آر کی آڈٹ رپورٹ فراہم کی جائے ،ضم شدہ اضلاع میں ڈیویلپمنٹ کے کام نہ ہونے کے برابر ہیں قبائل سے  جو وعدے ہوئے وہ  پورے نہیں کیے گئے صرف 108 روپے ریلیز ہوئے قبائلی اضلاع  کا علیحدہ اکاؤنٹ ہونا چاہیے تاکہ اسی سے ضم شدہ اضلاع  کے ڈیویلپمنٹ کاموں کا پتہ چل سکے  ۔جس پر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ بجٹ دستاویزات میں تمام چیزیں واضح ہیں۔ حکام نے اعتراف کیا کہ  اے ائی پی کے لیے 2021 سے 2024 تک 400 ارب روپے کا وعدہ کیا گیا تھا  وفاقی حکومت سے 133 ارب روپے مختص کیے گئے جس میں سے 76.65 ارب روپے ریلیز ہوئے اور 71.87 ارب روپے خرچ کیے گئے ۔

آیڈیشنل سیکرٹری وزارت پلاننگ ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ اے ڈی پی کے لیے وفاقی حکومت نے 102 ارب روپے مختص کیے تھے جس میں سے 64.02 ارب روپے ریلیز ہوئے جبکہ متعلقہ محکموں نے صرف 44.26 ارب روپے خرچ کیے ۔فنڈز خرچ نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک این ایف سی کا نیا فارمولا طے نہیں پا جاتا یہ مسائل حل نہیں ہوں گے ان علاقوں میں ڈیویلپمنٹ کی بہت زیادہ ضرورت ہے وفاقی حکومت کو فنڈنگ کی ریلیز کے معاملات کو بھی موثر بنانا ہوگا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2019 سے لے کر 2024 تک ضم شدہ اضلاح کے لیے 641 ارب روپے مختص کیے گئے جن میں سے 547 ارب جاری کیے گئے اور وہ 566 ارب روپے خرچ ہوئے اضافی فنڈز صوبائی حکومت خیبر پختونخوا نے خرچ کیے ہیں  اس کے علاوہ ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے بھی 30 ارب روپے اضافی خرچ کرنے پڑے جتنے فنڈز ملے تھے تقریبا خرچ کیے گئے ہیں۔ نان ڈیویلپمنٹ زیادہ اخراجات   کیے گئے ہیں۔ضم شدہ اضلاع کی کل 415 سکیمیں تھیں جن میں سے 138 مکمل ہو چکی ہیں 277 جاری ہیں جن پر 487 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔

سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ ان علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے بہتر یہی ہے کہ ٹرانسپورٹ ہوسٹل اور تعلیم کے حوالے سے دیگر متعلقہ سہولیات زیادہ سے زیادہ فراہم کی جائیں تاکہ ہنرمندی کی تعلیم حاصل کر کے وہاں کے لوگ نہ صرف اپنے گھر بلکہ ملک کے لیے بھی اپنا کردار ادا کر سکیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ این ایف سی کا فارمولا طے ہونے سے 200 ارب روپے اضافی ملیں گے۔ سینیٹر دوست محمد نے کہا کہ فاٹا کے ضم کرنے کے موقع پر ہم سے جو وعدے کیے گئے تھے انھیں پورا کیا جائے  تاکہ ضم شدہ اضلاع کے لوگوں کی حالت زار کو بہتر بنایا جا سکے۔ قائمہ کمیٹی نے  اجلاس میں چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اور وزیراعظم کی جانب سے ان علاقوں کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کے ساتھ معاملات کا جائزہ لینے کا فیصلہ بھی کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قبائلی اضلاع  پاکستان کا حصہ ہیں ان کو  پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا، وہاں کے لوگوں کے مسائل کو جلد سے جلد حل کیا جائے گا۔ سینیٹر دوست محمد نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں اپریشن کے دوران جو گھر تباہ ہوئے تھے ان کے لیے حکومت نے معاوضے کا اعلان کیا تھا کچھ لوگوں کو تباہ شدہ گھروں کے معاوضے ملے بھی ہیں اور باقی انتظار میں ہیں، اس مسئلے کو بھی حل کیا جائے۔