تحریک انصاف کا لاہور کا جلسہ بہت سے تنازعات چھوڑ گیا ہے۔ اس بار یہ تنازعات حکومت یا اسٹبلشمنٹ کے لیے نہیں ہیں۔ بلکہ یہ تنازعات تحریک انصاف کے اندر ہیں۔ لاہور کا جلسہ بہت سے ایسے سوالات چھوڑ گیا ہے جن کا جواب بہرالحال تحریک انصاف کو ہی دینا ہے۔لاہور کا جلسہ کامیاب یا ناکام رہا ۔ اس پر بھی بہت ابہام ہے۔ اور کیا یہ جلسہ کر کے تحریک انصاف کو کوئی سیاسی کامیابی حاصل ہوئی ہے یا نہیں۔ ان تمام سوالات کے گرد ہی اس جلسہ کی کامیابی یا ناکامی کا جواب گھوم رہا ہے۔
اسلام آباد اور لاہور کے جلسوں میں ایک فرق حکومت کی حکمت عملی کا واضح نظرآیا۔ اسلام آباد میں پھر بھی انتظامیہ نے کنٹینر لگائے تھے۔ اسلام آباد کی مختلف سڑکوں کو کنٹینر سے بند کیا گیا تھا۔ صرف جلسہ گاہ کی طرف ایک راستہ کھلا رکھا گیا تھا۔ اس لیے کنٹینر کا بہت شور تھا۔ لیکن لاہور کے جلسہ میں لاہور میں کوئی کنٹینر نہیں لگایا گیا۔ لاہور کے تمام راستے اور لاہور آنے جانے والے تمام راستے کھلے تھے۔ آمد و رفت کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔اس لیے لاہور میں تحریک انصاف کو بندے لانے کے لیے ایک کھلا ماحول دیا گیا۔
سب سے پہلے لوگ تعداد کی بات کرتے ہیں یقینا کسی بھی جلسہ میں عوام کی شرکت ہی اس کی کامیابی یا ناکامی کا ثبوت ہے۔ اگر لوگ موجود ہیں تو جلسہ کامیاب ہے۔ اگر لوگ موجود نہیں تو جلسہ کامیاب نہیں۔ اس تناظر میں بھی اس جلسہ کی کامیابی پر بہت ابہام ہے۔ کتنے لوگ کامیابی کے ضامن ہیں۔ یقینا ہم تحریک انصاف کے جلسہ کو ماضی کے تحریک انصاف کے جلسوں کے تناظر میں ہی دیکھیں گے۔
لوگوں کی تعداد کا جائزہ ماضی کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ لاہور کا موازنہ لاہور سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے لوگ کم تھے یا زیادہ یہ طے کرنا ہے تو ماضی کے جلسوں کو سامنے رکھ لیں۔ فیصلہ ہو جائے گا۔
میری رائے میں تحریک انصاف کا یہ جلسہ ماضی میں تحریک انصاف کے جلسوں کے تناظر میں ایک چھوٹا جلسہ تھا۔ اگر ماضی کے جلسوں سے موازنہ کیا جائے تو لوگ کم تھے۔ آپ جگہ کو بھول جائیں کہ مینار پاکستان تھا یا نہیں۔ لوگوں کی تعداد کم تھی۔ مینار پاکستان کے جلسوں کے تناظر میں کم تھی۔ ہاکی اسٹیڈیم کے جلسہ کے مقابلہ میں کم تھی۔
ایک بات سمجھ نہیں آئی تحریک انصاف کی قیادت نے کیوں اس جلسہ میں شرکت نہیں کی۔ میں اسد قیصر اورعمر ایوب کی بات کر رہا ہوں ۔ دونوں نے ہی اس جلسہ میں شرکت نہیں کی۔ بیرسٹر گوہر آئے لیکن انھوں نے بھی بہت جلدی تقریر کی۔ تا ہم باقی لوگ نہیں آئے۔ قیادت کا نہ آنا بھی پیغام دے ر ہا ہے کہ کچھ تو پس پردہ چل رہا ہے۔ چلیں شیر افضل مروت تو بیمارہو گئے۔ انھیں کورونا ہو گیا۔ لیکن کیا باقی سب بھی بیمار ہو گئے۔
اسلام آباد میں قیادت کی شرکت بھی بھرپور تھی۔ لیکن لاہور میں تحریک انصاف کی قیادت لا تعلق نظر آئی۔ جس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ جن پر بات ہو رہی ہے۔ آپ دیکھیں اسلام آباد میں گلگت کے سابق وزیر اعلی خالد خورشید بہت گرجے تھے۔ لیکن لاہور میں غائب تھے۔ اس طرح کافی لوگ جو اسلام آباد میں تھے۔ لاہور میں نہیں تھے۔ ان کے غائب ہونے کی وجہ بھی جاننا ضروری ہے۔ وہ کیوں غائب تھے۔ کیا اسلام آباد کی گرفتاریوں نے سب کو غائب کر دیا ہے۔
اسلام آباد کے جلسہ کے مقابلے میں لاہو رمیں تقاریر بھی بہت کمزور تھیں۔ اسٹبلشمنٹ کو اس طرح نشانہ نہیں بنایا گیا جیسے اسلام آباد میں بنایا گیا۔ شاید اس کے بعد اسٹبلشمنٹ کے رد عمل نے تحریک انصاف کو اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب لاہور کے جلسوں کی تقاریر کا موازنہ بھی اسلام آباد کے جلسہ کی تقاریر سے ہی ہوگا۔ جو سیاسی درجہ حرارت اسلام آباد کے جلسہ میں بنایا گیاتھا اس کو برقرار نہیں رکھا گیا۔ اس کی وجوہات بھی تلاش کرنا ہونگی۔ کیا تحریک انصاف کو غلطی کا احساس ہو گیا ہے یا ڈر گئی ہے۔
اب علی امین گنڈا پور کے بروقت پہنچنے کو ہی دیکھ لیں۔ پہلی بات بیرسٹر گوہر تحریک انصاف کے چیئرمین ہیں۔ انھیں آخر میں تقریر کرنی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ انھوں نے پونے چھ بجے تقریر کیوں کر دی۔ کیا انھیں علم تھا کہ چھ بجے جلسہ ختم ہو جائے گا۔ میں نے تیس سال جلسوں کی کوریج کی ہے۔ آخری تقریر کے بعد ہی جلسہ ختم ہوتا ہے۔ لوگ آخری تقریر کے بعد چلے جاتے ہیں۔ اب اگر دیکھیں تو بیرسٹر گوہر کی تقریر کے بعد جلسہ ختم ہی ہونا چاہیے۔ اگر گنڈا پور کا انتظار کرنا پروگرام میں شامل ہوتا تو بیرسٹر گوہر تقریر نہ کرتے بلکہ ان کا انتظار کیا جاتا۔
اب تحریک انصاف کا موقف ہے کہ جلسہ گاہ میں ہزاروں لوگ موجود تھے۔ وہ پچاس ہزار لوگوں کا دعوی کر رہے ہیں۔ حکومتی حلقے دس ہزار سے اوپر نہیں جا رہے۔ میں نہ پچاس ہزار مانتا ہوں نہ دس ہزار مانتا ہوں۔ لیکن یہ تو سب مان رہے ہیں کہ جلسہ گاہ میں لوگ موجود تھے۔ اب جب ہزاروں لوگ موجود تھے۔ کیا چند پولیس والے سانڈ سسٹم کو بند کر سکتے ہیں۔ کیا بجلی کا بٹن بند کیا جا سکتا ہے۔
کیا جنریٹر بند کیے جا سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں جلسہ گاہ کی انتظامیہ کی مرضی کے بغیر نہ تو جلسہ گاہ کی بجلی بند ہو سکتی تھی اور نہ ہی سانڈ سسٹم بند کیا جا سکتا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چند پولیس والے اسٹیج پر چڑھے اور انھوں نے کہا کہ بس ٹائم ختم ہو گیا ہے اور سب نے مان لیا اور جلسہ گاہ ختم کر دیا۔ احتجاجی تحریکوں میں اور سیاسی جلسوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ کیا اسلام آباد کے جلسہ کے بعدد رج کی جانے والی ایف آئی آر نے تحریک انصاف میں اس قدر خوف پیدا کر دیا ہے کہ انھوں نے لاہور کا جلسہ حکومت کی دی جانے والی ٹائمنگ پر ختم کر دیا۔ چھ بجے ایسے جلسہ ختم ہوا جیسے کوئی فوجی ٹائمنگ تھی۔
کیا یہ طے تھا کہ گنڈا پور ٹائم سے نہیں پہنچیں گے اور جلسہ ان کے آنے سے پہلے ختم کر دیا جائے گا۔ کیوں تحریک انصاف کی قیادت نے گنڈا پور اور ان کے ساتھ آنے و الے لوگوں کا انتظار نہیں کیا۔ بجلی بند بھی ہو گئی تھی تو ان کا انتظار تو کیا جا سکتا تھا۔ جب قیادت چلی گئی تو لوگ بھی چلے گئے۔ اور گنڈا پو رجو کے پی سے ساتھیوںسمیت چلے تھے جب جلسہ گاہ پہنچے تو وہاں ویرانہ تھا نہ تحریک انصاف کی قیادت موجود تھی اور نہ ہی لوگ تھے۔
اگر جلسہ گاہ میں ہزاروں لوگ موجود ہیں تو پولیس کی جرات نہیں کہ بجلی اور سانڈ بند کردے۔ یہ تحریک انصاف کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس لیے گنڈا پور تقریر نہ کر سکیں، ناکام واپس لوٹ جائیں اس سازش میں کہیں نہ کہیں تحریک انصاف شامل تھی۔ ورنہ یہ ممکن نہیں تھا۔ پھر وہ اندھیرے میں بھی تقریر کر سکتے تھے۔ انھوں نے ایک بات نہیں کی۔ کہیں وہ بھی تو نہیں چاہتے تھے کہ کوئی بات نہ کی جائے۔ واپس پشاور جا کر بات کرنے کی وہ اہمیت نہیں جو لاہور میں بات کرنے کی تھی۔
اس لیے گنڈا پور کا لاہور میں تقریر نہ کر سکنا مریم نواز کی جیت ہے۔ انھوں نے گنڈا پور کو لاہور میں تقریر نہیں کرنے دی۔ اس کو مریم نواز کی سیاسی جیت اور گنڈا پور کی سیاسی شکست بھی کہا جا سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس