حق دو عوام کو تحریک ضروری کیوں؟ … تحریر : حافظ نعیم الرحمان


قومی انتخابات کسی بھی ملک کیلئے استحکام اور ایک نئے دور کی علامت سمجھے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں الیکشن سے نئے انتشار کا جنم لینا ایک روایت بن گیا ہے۔8فروری کو عوام بالخصوص نوجوانوں نے جس جوش و خروش سے الیکشن میں حصہ لیا، اسے ملک و قوم کو آگے بڑھانے کیلئے ایک موقع بنایا جا سکتا تھا، مگرفارم 47کی حکومت کے ذریعے ملک کوایک نئے انتشار اور عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا گیا۔ حکمرانوں اور پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کو پرانی سیاست بازی سے فرصت نہیں ،ایک دوسرے کے پاس آنا جانا لگا ہے، ملاقاتیں ہو رہی ہیں، مگر عوام کسی کے ایجنڈے پر نہیں ہیں، ایک پارٹی کیلئے کسی کی ایکسٹینشن اہم ہے، دوسری پارٹی کو حکومت میں اپنا حصہ بڑھانا اور مزید مراعات حاصل کرنی ہیں ، کسی کو سینیٹ کی سیٹیں اور گورنرشپ درکار ہے، کسی کو کچھ اور وزارتیں پکڑنی ہیں، کہیں من پسند فیصلے درکار ہیں۔ اقتدار، مفادات اور مراعات کے اس بے رحم کھیل میں عوام بہت پیچھے رہ گئے ہیں، بجلی گیس کے بلوں کی صورت میں برسنے والے بموں، بھاری ٹیکسز اور بڑھتی مہنگائی وبیروزگاری کیخلاف کوئی کھڑا ہو رہا ہے نہ کسی کے ایجنڈے میں یہ شامل ہے، صرف جماعت اسلامی اس وقت پوری قوم کی ترجمانی اور عوامی حقوق کیلئے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔

جماعت اسلامی نے بجلی کے بلوں میں کمی کیلئے راولپنڈی میں 14 روزہ تاریخی دھرنا دیا اور حکومت کو باقاعدہ تحریری معاہدے پر مجبور کیا، پھر 28اگست کو پاکستان کی تاریخ کی زبردست اور شاندار ہڑتال ہوئی۔ ایک عوامی مسئلے پر رضاکارانہ طور پر ایسی ملک گیر اور پرامن ہڑتال کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی۔ تمام تاجر تنظیموں اور ایوان ہائے صنعت و تجارت نے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے دباؤ، دھمکیوں اور لالچ کے باوجود اسے ممکن کر دکھایا۔ شہروں میں بھی بڑی بڑی مارکیٹوں میں ہڑتال ہوا کرتی تھی لیکن اس مرتبہ چاروں صوبوں میں چھوٹے بڑے شہروں کے ساتھ قصبوں اوردیہات میں بھی شٹر ڈاؤن رہا۔ گویا پورا پاکستان ایک پیج پر تھا۔ مٹھی بھر حکمران اشرافیہ کے مقابلے میں قوم کے اس بیمثال اتحاد میں اللہ کی مددسے کامیابی ملی، اور جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے پوری قوم کو مجتمع کیا، شہریوں، تاجروں اور صنعتکاروں کی آواز بنی۔

حق دو عوام کو، تحریک کے پہلے مرحلے کو عوام بالخصوص نوجوانوں کی طرف سے زبردست پذیرائی ملی۔ اس تحریک کا واحد مقصد عوام کیلئے ریلیف حاصل کرنا ہے۔ چند خاندانوں پر مشتمل مٹھی بھر حکمران اشرافیہ مفادات کی ایک ڈوری سے بندھی ہے، حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، ایک دوسرے کو مدد اور تحفظ فراہم کرتی ہے، جبکہ عوام کے پاس ظلم سہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی نے عوام کو متحد کر کے اس مافیا کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب لوگ اٹھ کھڑے ہوں تو کوئی ان کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ بنگلہ دیش میں جب عوام اور نوجوان اپنے حق کیلئے نکلے تو 16 سال سے اقتدار پر قابض حسینہ واجد کے پاس فرار ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا، اور اس کا سرپرست بھارت بھی تمام تر کوشش کے باوجود اسے نہ بچا سکا۔ جماعت اسلامی اور عوام کا اتحاد رنگ لائے گا، حکمران اشرافیہ کو حق دینا پڑے گا یا رخصت ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ اور حل انکے پاس نہیں ہے۔

بجلی کے بلوں میں کمی، آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی، پیٹرول پر لیوی اور ٹیکسزمیں کمی، تنخواہوں پر اضافی ٹیکس، برآمدات اور صنعت و تجارت پر ناجائز ٹیکس کی واپسی، جاگیر داروں پر ٹیکس کا نفاذ، ارکان اسمبلی، فوجی افسران، ججز اور سرکاری اداروں کی لگژری گاڑیوں، مفت پیٹرول، بجلی کا خاتمہ، حق دو تحریک کے یہ مطالبات ہر شہری کے دل کی آواز ہیں۔ قوم مزید مہنگی بجلی اور آئی پی پیز کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔ تنخواہ دار طبقہ اور تاجر زبردستی کا ٹیکس ادا نہیں کر سکتے، حکمرانوں کو اپنی عیاشیاں ختم اور مراعات کم کرنی ہوں گی، فری پیٹرول فری بجلی کی سہولت کا خاتمہ کرنا ہو گا، گاڑیاں چھوٹی کرنی ہوں گی، بڑے بڑے جاگیرداروں پہ ٹیکس لگانا ہو گا، اور ان آئی پی پیز سے قوم کی جان چھڑانی ہو گی جنھیں دو ہزار ارب روپے سے زیادہ اس بجلی کے نام پر دیے جا رہے ہیں جو سرے سے بن ہی نہیں رہی۔ اور بات صرف کیپسٹی پیمنٹ کی نہیں بلکہ انکم ٹیکس میں بھی سینکڑوں ارب روپے کی چھوٹ حاصل کی گئی۔ تنخواہ دار طبقے سے انکم ٹیکس بڑھا چڑھا کر وصول کرنا لیکن آئی پی پیز کو چھوٹ دے دینا، یہ ستم مزید جاری نہیں رہ سکتا ۔ تماشا یہ ہے کہ 2018 تک تو یہ بات ریکارڈ پر آ جاتی تھی کہ آئی پی پیز کو انکم ٹیکس میں کتنی رقم کی چھوٹ ملی، اس کے بعد تو ان اعداد وشمار پر بھی پردہ ڈال دیا گیا۔ حکومت کا تو پہلے کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہو سکتی مگر مسلسل عوامی دباؤ کے بعد نہ صرف بات چیت ہو رہی ہے، بلکہ کچھ آئی پی پیز نے پاکستانی روپے میں پیمنٹ وصول کرنے اور ریٹ کم کرنے کا اعلان کیا ہے، باقی آئی پی پیز کو بھی سامنے آنا اور قوم کا ساتھ دینا چاہیے، وہ یہ کریں گے تو پھر بیرونی کمپنیوں سے بھی بات ہو سکے گی۔

عوامی حقوق کی بازیابی کی اس جدوجہد کو ہر صورت آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنی ذات اورپارٹی کیلئے کچھ نہیں چاہیے، کوئی الیکشن سر پر نہیں کہ سیاسی فائدے کا الزام دھرا جائے، نہ یہ سیٹوں، وزارتوں اور عہدوں کا معاملہ ہے،پرامن آئینی، قانونی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے عوام کو ریلیف دلانا ہی اولین ترجیح ہے۔

دھرنے کے بعد معاہدے پر عملدرآمد کیلئے حکومت کے پاس 45 دن ہیں۔ اس دوران ہم ایک دن بھی گھر نہیں بیٹھے، مسلسل جلسے اور احتجاج کر رہے ہیں، ملک گیر تاریخی ہڑتال بھی ہوئی ہے، اگر حکومت معاہدے پر عمل نہیں کرے گی تو کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ، ڈی چوک پر دھرنا، مزید ہڑتالیں اور ملک گیر احتجاج سمیت سارے آپشن موجود ہیں۔ حکمران مسائل حل کریں اور عوام کو ریلیف دیں۔ ایسا نہ ہو کہ پھر عوامی حقوق کی یہ تحریک حکومت گراو تحریک میں تبدیل ہو جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ