پنجابی قوم عرصہ دراز سے شناخت کے مسئلے پر مخمصے کا شکار ہے پجھلے 76 برس سے ایک سازش کے تحت پنجابیوں کی نئ نسل کو انکی زبان، کلچر، تہذیب و تمدن سے دور رکھا گیا ہے نامور پنجابی دانشور پروفیسر سعید احمد جہنوں نے پنجابی زبان کی ترویج اور پنجابی صوفی شعراء کی لوک وزڈم کو نئی نسل تک پہنچا نے میں تمام عمر لگا دی ہے ہر وقت اس بات پر تاسف کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ “پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کے افراد سوائے پنجابیوں کے اپنی مادری زبان میں بات کرتے ہیں جبک ہمارے پنجاب میں پچوں کو ہر وقت اردو اور انگریزی میں بات چیت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے جو ایک شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی ہے اگر کسی شے کا نام ایک بچہ اردو اور انگریزی میں سیکھتا ہے تو کیا ہرج ہے کہ وہ اس کو پنجابی زبان میں بھی سیکھ لے” بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم یافتہ افراد اور محدود ذہنیت کے دانشوروں نے احساس کمتری کا شکار ہو کر ہمیشہ پنجابی زبان کو اجڈ لوگوں کی زبان قرار دیا ہے پنجابی کلچر، تہزیب و تمدن اور ثقافت کو بیہودگی سے تعبیر کیا ہے پنجابی زبان کے ادیبوں اور شاعروں کو سوشلسٹ قرار دیتے ہوئے خوامخواہ پاکستان، اسلام اور قومی اتحاد کا دشمن قرار دیا جاتا رہا ہے پنجاب میں ہمیشہ اردو کو سرکاری سکولوں اور کالجوں میں ترجیح زبان کا درجہ حاصل رہا ہے جبکہ امراء کے لیے مختص اداروں میں انگلش زبان اور تہذیب و کلچر کو باعث امتیاز جانا گیا ہے اور اسی طبقے کی اکثریت کو سول سروسز میں ترجیح بنیادوں پر منتخب کیا جاتا ہے تاہم اب حکمران طبقے میں نو دولتیوں کی ایسی کلاس بھی شامل ہوگئ ہے جن کو کسی بھی زبان، تہذیب اور کلچر کا سرے سے ہی کوئی مضائقہ نہیں ہے ان کی زندگیوں کا مقصد نسلوں کی بھوک مٹانا _____محض کھاؤ، پیو اور عیش عشرت میں پنہاں ہے کرپشن، منی لانڈرنگ اور سرکاری حیثیت سے ناجائز مراعات کا حصول اور اولادوں کا امریکہ، لندن، دوبئی میں سیٹل ہونا ہی اصل قومی خدمت ہے اس نام نہاد ایلیٹ کلاس کا تعلق چاہے کسی بھی قوم سے کیوں نہ ہو اس نے پاکستان کے عوام کو تباہی و بربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا ہے لہذا وہ کیونکر اپنی شناخت کے مسئلے کو حل کرنے کی تگ و دو کریں گے تاہم اس کی اہمیت سے انکار کرنا ناممکن ہے ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق “. مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان میں قوم پرستی کی تحریک اٹھی تو برصغیر کی تاریخ ان کی مدر نہیں کر سکی کیونکہ انہوں نے اپنی تاریخ کو محمد بن قاسم اور محمود غزنوی سے شروع کیا اس سے آگے اس دھرتی میں انکی جڑیں دکھائی نہیں دیتی ہیں ہمارے پاکستانیوں نے اپنی زبان، ادب، لوک گیتوں کہانیوں اور دیومالائی قصوں کا سرا ہمیشہ ہندوستان سے باہر تلاش کیا اور ہندوستان کی کی قدیم تاریخ کو نظر انداز کیا جس کی وجہ سے وہ اپنی شناخت کی حقیقی بنیادوں کی کھوج لگانے سے آج تک قاصر ہیں اور دوسری طرف پاکستان بننے کے بعد ہمارے درباری مؤرخین نے حکومتی احکامات کے تحت تاریخی نقطہ نظر کو تشکیل دینے کی کوشش کی اور حکمران طبقے کے مفاد میں غیر جانبدارانہ تاریخ لکھنے کی بجائے اس کو مسخ کرنے کا کام جاری رکھا ”
برصغیر کی تقسیم دراصل تقسیم پنجاب ہی تھی اور اس تقسیم کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان اور خون ریزی کا سامنا پنجابیوں کو ہی کرنا پڑا پاپندیاں لگیں تو صرف پنجاب کے لوگوں پر لگیں سرحد کے دونوں طرف پنجابیوں کا قتل عام ہوا ریڈ کلف کی کھینچی خونی لکیر پنجابیوں کو 1948، 1965 اور پھر 1971 میں ایک دوسرے کے مقابل لاتی رہی
پنجاب میں دو طرح کے طاقتور طبقات یقیناً موجود ہیں ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے خصوصاً پاور پا لیٹکس کے سیاست دان کہ پنجاب عددی اکثر یت کے بل بوتے پر چھوٹے صوبوں پر اپنا تسلط قائم رکھے یہ طبقہ پنجابی ازم کا نعرہ بھی لگا تا ہے مگر دوسرے صوبوں کے عوام کے حقوق کا استحصال بھی کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ پنجاب کی بات تو کرتا ہے مگر پنجابی زبان، کلچر اور تہذیب کی آبیاری میں دلچسپی نہیں لیتا ہے پنچابی زبان کا ایک بھی معیاری اخبار، رسالہ اور چینل نہیں ہے جبکہ پشتو، بلوچی اور سندھی زبان کے بے تحاشا اخبارات اور حتی کہ چینلز بھی کام کر رہے ہیں پنجابیوں میں بھٹو کو پھانسی دینے والے ضیاء الحق اور متعصب ججز اور جرنیلوں جیسے ظالموں نے بھی پنجاب کے ماتھے پر ندامت کا ایسا داغ لگا دیا ہے جس کو مٹانا نا ممکن دکھائی دیتا ہے اس وجہ سے بھی دوسرے صوبوں کے عوام کی اکثریت پنجاب اور پنجابیوں کو ظالم اور غاصب سمجھتی ہے
اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص محض اپنی پیدائش کی بنیاد پر پنجابی کہلانے کا حق دار نہیں ہے پنجابی وہ ہے جو انسان دوست ہے جو صوفیا کرام کی عظیم شاعری میں انسانی قدروں کو اجاگر کرنے والا اعلی کردار اور صفات کا حامل انسان ہے پنجابی وہ ہے جو اپنی تہذیب، روایات، اپنے ورثے اور پنجابی زبان سے جڑا ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجابی تہذیب اور کلچر میں بہادری، رواداری، انسان دوستی، ایثار، بھائی چارہ، دوستی، وفاداری اور بھائی چارہ جیسی انسانی قدریں جا بجا ملتی ہیں علاوہ ازیں پنجاب کے صوفیاء کرام کی مزاحمتی شاعری بیرونی حملہ آوروں کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے، قتل و غارت کو ناجائز قرار دینے، مذہبی منافرت سے بلند ہو کر سوچنے اور مظلوم طبقات کے حق میں آواز بلند کرنے کی تاریخ ہے بابا فرید پہلے صوفی شاعر ہیں جہنوں نے نہ صرف مروجہ سماجی روایات سے بغاوت کی بلکہ اپنے رشتے عرب و فارس سے ختم کر کے پنجابی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا وارث شاہ، شاہ حسین اور بلھے شاہ کی شاعری میں انسان دوستی کے ساتھ ساتھ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف بھی کلام ملتا ہے پنجابی لوک گیتوں، کہانیوں بولیوں میں بھی قریب قریب وہی کہانیاں بیان کی گئی ہیں جو بابا فرید سے لے کر خواجہ فرید کی شاعری کا خاصہ ہیں جیسا کہ ایک لوک گیت میں ایک لڑکی مغل شہسوار کی قید میں ہے اور لڑکی کا باپ، بھائی اور منگیتر اس کو پیسے دے کر رہا کروانا چاہتے ہیں مگر مغل سپاہی نہیں مانتا ہے تو اس پر وہ بہادر لڑکی کہتی ہے
“جا بابل گھر آپنے ، رکھاں میں تیری لاج
مغلاں دا پانی نہ پیاں، میں پیاسی مر جاں
جا ویرا گھر آپنے ، رکھا ں میں تیری لاج
مغلاں دا آن نہ کھاواں، بھاویں بھکھی ہی مرجاں
جا کنت(محبوب) گھر آپنے، رکھاں میں تیری لاج
مغلاں دے سیجے نہ چڑھاں، میں جیوندی ہی مرجاں