ساری لڑائی میرے جج تیرے جج کی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جج بھی تاثر کے لحاظ سے’’ میرے جج، تیرے جج ‘‘بن کر ہی دکھا رہے ہیں۔ ججوں کو تو صرف اور صرف آئین اور قانون کے مطابق انصاف کرنا چاہیے۔
کوئی اگر ججوں پر اسٹیبلشمنٹ یا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ رابطوں اور کسی کھیل یا سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگاتا ہے تو اس کیلئے ثبوت کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اکثر ثبوت کے بغیر دوسروں پر الزامات لگانے کا ایک فیشن بن چکا ہے اور اس حوالے سے نشانہ بننے والوں میں جج بھی شامل ہیں۔
ججوں کے حوالے سے یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے پریشر میں کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے فیصلے انصاف پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ کسی طاقتور کی منشاء اور مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔ لیکن آج کل کے ماحول میں جج اسٹبلشمنٹ کے کہنے سننے پر باہر آتے ہوے دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ججوں کی اپنی ذاتی پسند ناپسند اُن کے فیصلوں خصوصی طور پر جن کے سیاسی نتائج ہوتے ہیں پر اثر انداز ہو رہے ہیں کہ نہیں؟؟؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ہی کچھ دکھائی دیتا ہے۔ اگر جج کا نام سن کر (چاہیے وہ کتنا ہی ایماندار کیوں نہ ہو) یہ اندازہ ہو جائے کہ اُس کا فیصلہ کس سیاسی دھڑے کے حق میں اور کس سیاسی دھڑے کے خلاف ہوگا یا کون صرف اپنے آپ کو اینٹی اسٹبلشمنٹ ثابت کرنے کے لیے مخصوص انداز میں فیصلے کرے گا تو پھر یہ انصاف تو نہ ہوا۔
اگر اسٹبلشمنٹ یا کوئی بیرونی پریشر کوئی جج نہیں لے رہا لیکن وہ اپنے اندر کے تعصب کی بنا پر فیصلے کرتا ہے تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہے؟؟؟ یہ وہ نکتہ ہے جس پر پاکستان کے اعلی عدلیہ کے ججوں کو توجہ دینی چاہیے، اس پر غور کیا جانا چاہیے۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سیاسی جماعتیں، عام لوگ اور اسٹبلشمنٹ یہ خواہش کرنا یا کہنا شروع کردیں کہ ہمیں یہ جج چاہیے یا وہ جج چاہیے۔ اگر کوئی یہ کہنا شروع کر دے کہ یہ جج ہوگا تو حکومت چلے گی اور اگر وہ جج ہو گا تو حکومت کا بستر گول ہوجائے گا یا اگر یہ جج ہوا توایک سیاسی جماعت کی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوگا اور اگر وہ جج آ گیا تو یہی سیاسی جماعت حکومت بنا لے گی تو پھر انصاف کسے کہتے ہیں۔
بے شک ایسے ججوں کی شہرت اچھی ہو لیکن اُن کے متعلق یہ سمجھنا کہ وہ کیا فیصلہ کریں گے اور کس کی حکومت کو بچائیں گے یا کس کی حکومت بنوائیں گے نہ صرف ججوں کی بلکہ عدلیہ کی توہین ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جس پر عدلیہ اور ججوں کو خود غور کرنا چاہیے اور اپنے یعنی عدلیہ اور ججوں کے بارے میں پائے جانے والے تاثر کر رد کرنے کے لیے اپنے اندر کے تعصبات کو ختم کریں اور جو فیصلہ کریں وہ آئین اور قانون کے مطابق کریں۔
فیصلے ایسے کریں کہ نہ یہ نظر آئے کہ کسی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور نہ ہی یہ بات کی جائے کہ کسی کی سہولت کاری ہو رہی ہے۔اگر کسی کے ڈر اور خوف کی وجہ سے ججوں کو انصاف کے علاوہ کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تو اسی طرح سوشل میڈیا کی ہوا کے ساتھ چلنا یا اُس کے پریشر میں آکر فیصلے کرنا بھی عدلیہ کو ناانصافی کی طرف لے کر جاتا ہے۔
ہماری عدلیہ کی حالت ویسے ہی بہت خراب ہے۔ جج حضرات اپنے اپنے بارے میں جو مرضی آئے خیال رکھتے ہوں، عوام سے پوچھیں کتنوں کو پاکستان کے عدالتوں یا نظام انصاف پر بھروسہ ہے۔ شاید ایک فیصد بھی لوگ ایسے نہ ملیں جو یہ کہیں کہ ہمارا نظام انصاف اور عدالتیں بہت زبردست ہیں اور اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔
کوئی یہ کہے کہ جج سیاست کر رہے ہیں تو یہ کوئی عدلیہ اور ججوں کی عزت کی بات تو نہیں۔ یہاں تو یہ بات عام کی جاتی ہے۔ حتہ کہ اب تو وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہاں تک کہہ دیا کہ عدلیہ کو بھی پولیٹکل پارٹیز ایکٹ کے تحت اپنے آپ کو رجسٹر کروا لینا چاہیے۔
جج حضرات بیرونی پریشرز سے عدلیہ کو آزاد کروانے کے لیے ضرور کوشش کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے تعصبات سے بھی فیصلے کرتے وقت اپنے آپ کو آزاد کریں تاکہ عدلیہ کی طرف انصاف کی فراہمی کے لیے دیکھا جائے نہ کہ اس لیے کہ میرا جج کون تیرا جج کون۔
بشکریہ روزنامہ جنگ