اُلو ہمارے ’’مامے‘‘ ہیں ! : تحریر سہیل وڑائچ


موہنجو داڑو کی تہذیب میں گندھی مٹی کے بڑے لکھاری مستنصر حسین تارڑ نے لکھا ’’اُلو ہمارے بھائی ہیں‘‘ مگر اس گنہگار کو اس رشتے پر اعتراض ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ ہمارے مامے ہیں جو گلستان کو ریگستان بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وہی اُلو ہیں جنہوں نے پاکستان کو 75سال میں تضادستان بنا دیا ہے۔ یہ ملک بنا تو پاکستان کے نام سے تھا مگر پہلے گیارہ سال میں ہی چند بڑے ناموں کی وجہ سے فیوڈلستان بنا پھر طاقتور سول بیوروکریٹس نے اسے کٹھ پتلی بنا کر بیورو کریٹستان بنا ڈالا پھر ایوب خان نے اسے فوجستان کا رنگ دینے کی کوشش کی، درمیان میں ججز نے اپنی باری لگائی تو اسے ججستان بنا ڈالا، چیف جسٹس وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کا بھی باپ بن بیٹھا۔ حالیہ دس پندرہ برسوں میں ہائبرڈ نظام ہے جو تضادات کا مجموعہ ہے اس لئے اسے تضادستان کہنا جائز اور حلال ہے۔ ریاست کے اندر ان تبدیلیوں میں ہمارے مامے اُلوؤں کا بہت زیادہ کردار رہا ہے یہ اُلو مامے کبھی مقتدرہ کے ذریعے، کبھی عدلیہ کے ذریعے، کبھی اہل سیاست کے ذریعے اور کبھی نوکر شاہی کے ذریعے اور کبھی کبھی صحافت کے ذریعے فکری اور عملی تباہی لاتے رہے ہیں۔

مشرقی دنیا میں اُلو کو نحوست اور تباہی کی علامت سمجھا جاتا ہے ہم اسے بے وقوفی کا مترادف قرار دیتے ہیں جبکہ مغربی دنیا میں اُلو خوش بختی کی علامت ہے۔ مشرقی دنیا میں روحانیت اہم ہے تو مغربی دنیا میں مادیت کو ترجیح دیتی ہے، ہماری مشرقی روایت میں اُلو کو ویرانہ پسند ہے۔ غالب نے اپنے خطوط میں اُلو کا پٹھا کی اصطلاح بے وقوف کیلئے استعمال کی اور پھر شوق بہرائچی نے لکھا؎

ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا

اسی مشرقی روایت کی پیروی میں مجھے آج کے اُلو مامے کی تلاش ہے جو ریاست کا بندوبست چلنے نہیں دے رہا۔ ایک طرف سیاسی، معاشی اور اعتماد کے بحران ہیں، دوسری طرف عجیب وغریب قسم کے کارنامے سرانجام دیئے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے جلسے میں جو رویہ اختیار کیا اسے صحافیوں، دانشوروں اور رائے عامہ نے سختی سے مسترد کر دیا گویا تحریک انصاف کے اندر اُلوؤں نے وہ کام کیا جو بیگانے اور دشمن برسوں نہیں کر پائے مگر اُلو صرف ایک طرف نہیں ہر طرف ہیں کیونکہ یہی تو ہمارے مامے ہیں انہوں نے تو ہمیں اس حال کو پہنچایا ہے۔ قومی اسمبلی کی بتیاں بجھا کر اراکین اسمبلی کی گرفتاریاں کروانے والا کون تھا؟ لازماً ہمارا ماما ہی ہو گا اور کون یہ کروا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں مجھے اس سے بڑا احمقانہ اقدام کوئی اور نہیں لگتا، حکومت اس اقدام سے دباؤ میں آ گئی، تحریک انصاف مظلوم بن گئی۔ اس اقدام کے بارے میں کم از کم یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ احمقانہ قدم حکومت اور مقتدرہ کے گلے میں پڑ گیا ہے۔ حکومت اس سے شدید صدمے میں آئی، ناراض ہوئی، سپیکر ایاز صادق نے اسے بے عزتی اور بے توقیری خیال کیا اور تو اور کئی ماہ سے چپ کا روزہ رکھنے والے نواز شریف بھی بھڑک اٹھے اور اِدھر اُدھر فون کر کے پوچھتے رہے کہ یہ اُلو ماموں کون ہے؟ طاقتور ایجنسی کے سربراہ نے اِدھر اُدھر واضح کیا کہ ان کا اس معاملے سے سرے سے کوئی تعلق نہیں۔ بااختیار وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اس معاملے سے مکمل لاعلمی ظاہر کی ہے، ایسے میں کون ہے جو ذمہ داری کا تعین کرے گا اور اس طرح کی غلطیوں کو روکنے کی کوشش کرے گا؟ ہمارے اُلو ماموں نظم وضبط کے معاملے میں تمام حدود عبور کر جاتے ہیں کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ آج کی مقتدرہ بھی ان تجاوزات کو روکے، اگر ماضی کی مقتدرہ کی تجاوزات غلط تھیں اور ان کا احتساب ضروری ہے تو آج کی مقتدرہ کی تجاوزات کا بھی حساب ہونا چاہئے ورنہ اُلو تضادستان کو وحشتستان بنا دیں گے۔

آج کل دوسرا اہم قومی معاملہ آئینی ترامیم کا ہے۔ 1973ء کا آئین بنانے کیلئے تمام جماعتوں پر مشتمل خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے کئی ماہ کی محنت شاقہ کے بعد ہر آرٹیکل کو بحث و تمحیص کے بعد آخری شکل دی، اٹھارہویں ترمیم کے معاملے میں بھی رضا ربانی کی سربراہی میں قائم آل پارٹیز کمیٹی نے کئی ماہ کی محنت کے بعد یہ ترمیم اسمبلی میں پیش کی مگر ہمارے اُلو ماموں موجودہ ترمیم کو لوگوں کے سامنے تک نہ لا سکے حالانکہ پارلیمانی اور جمہوری طریقہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت آئینی ترمیم کے حوالےسے عوامی آگاہی کی مہم چلاتی ہے تمام جماعتوں کو اس کے بارے میں بریف کیا جاتا ہے ترمیم کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر گفتگو ہوتی ہے، پہلے پارلیمانی جماعتیں اندر بیٹھ کر بحث مباحثہ کرتی ہیں، اتفاق رائے پر پہنچا جاتا ہے پھر ترمیم کی کوشش کی جاتی ہے مگر اس بار تو ترمیم کے بارے میں وہ رازداری رکھی گئی جو عام طور پر مارشل لاء لگانے یا آرمی چیف کے تقرر کے وقت رکھی جاتی ہے، ایسے لگا کہ یہ آئین میں ترمیم نہیں ایٹم بم کا کوئی خفیہ فارمولا ہے جو سب سے چھپا کر رکھنا ہے۔ ایک بااختیار وفاقی وزیر کے مطابق یہ ترمیم چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل کی عملی شکل ہے اس میں مقتدرہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ 19ویں ترمیم عدلیہ کے دباؤ پر بادلِ نخواستہ لائی گئی تھی، اب 26ویں ترمیم، اٹھارہویں ترمیم کو مضبوط کرنے کیلئے لائی جا رہی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اس بدتدبیری کا ذمہ دار کون ہے جس نے اس ترمیم کو منظور ہونے سے پہلے ہی عدلیہ کیلئے ہوا بنا دیا ہے اور اپوزیشن کیلئے اسے ہضم کرنا مشکل ہو گیا ہے، اس معاملے میں بھی اُلو مامے ہی کار فرما ہیں جو خود کو سب سے چالاک، عقلمند اور ہوشیار سمجھتے ہیں جو عوام کو بے وقوف اور میڈیا کو ناقابل اعتبار جانتے ہیں۔ کوئی ہے جو اس اُلو کا نام بتائے جس کی بے تدبیری اور بے وقوفی سے حکومت رسوا ہوئی، ترمیم ملتوی ہوئی، کچھ ہاتھ بھی نہ آیا اور بدنامی الگ ہوئی۔

آخر میں سوال یہ ہے کہ اُلو ماموں کو ان خرابیوں سے کیسے روکا جائے؟ دنیا بھر میں آئین اور قوانین اسی لئے بنائے جاتے ہیں کہ حکمران، فوج، جج یا صحافی، کوئی بھی ریاستی ڈھانچے سے بڑا نہ ہو کوئی دوسروں کا زبردستی باپ نہ بنے، ہر کوئی اپنے دائرہ کار میں رہے۔ یہ اُلو ماموں کبھی اپنے باس کی خوشامد کرنے اور کبھی اسے خوش کرنے کی خاطر ڈھانچے میں وہ بگاڑ پیدا کرتے ہیں جو ہمیشہ کیلئے سمت کو ٹیڑھا کر دیتا ہے۔ ریاست کے کارپر دازان کو چاہئے کہ ان اُلوؤں کو حد میں رکھنے کیلئے انہیں خوف بھی دلائیں اور ان کا احتساب بھی کریں ورنہ یہ ریاست کہیں اُلوؤں کی یرغمالی ہی نہ بن جائے…..!

بشکریہ روزنامہ جنگ