اچھی طرز حکمرانی کے اصول اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہر ادارہ اورتنظیم گائیڈلائنز اور رولز مرتب کرے ،جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد(صباح نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے تواتر کے ساتھ کہا ہے کہ سرکاری محکموں میں تعیناتیاں سختی سے متعلقہ رولز اورریگولیشنز پر عملد کرے ہوئے بغیر کسی امتیاز کے شفاف انداز میں کی جائیں۔ یہ ضروری ہے کہ سرکاری محکموں میں تمام تعیناتیاں شفاف پراسیس کی بنیاد پر متعلقہ قابل عمل رولز پر عمل کرتے ہوئے کی جائیں۔ غیر شفاف طریقہ سے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی تعیناتی آئین کے آرٹیکلز4،9،25اور27میں دیئے گئے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔سپریم کورٹ نے اس بات پر زوردیا ہے کہ تعیناتیاں مکمل غوروغوض کے بعد اور شفاف اور منصفانہ طریقہ کار کومد نظر رکھتے ہوئے کی جائیں۔تعیناتیوں کے لئے معتبر اور شفاف طریقہ کار اپناکرہی اچھی طرزحکمرانی کویقینی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ کسی بھی شخص کی سرکاری ملازمت کے لئے تعیناتی کے دوران پوری تندہی کے ساتھ شفافیت اور دیانت داری کو مدنظر رکھا جائے۔

یہ قراردیا گیا ہے عوامی عہدہ رکھنے والاشخص اپنے اختیارات کو عوامی فلاح وبہبود کوآگے بڑھانے کے لئے ہی استعمال کرسکتا ہے۔ اس عدالت نے اس بات پر بھی زوردیا ہے کہ عوا م کی خدمت کے لئے لوگوں کو منتخب کرتے ہوئے صرف یہ نہ دیکھا جائے کہ کسی شخص کے گزربسر کے لئے اسے ملازمت فراہم کرنا ضروری ہے بلکہ یہ ایک مقدس فریضہ ہے جس کو متعلقہ افراد نے ایماندارانہ، منصفانہ، انصاف اورشفافیت کے اصولوںکو مدنظر رکھ کر اداکرنا ہے۔ جن لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے انہیں بھرتی کرنے والے اپنی جیب سے تنخواہ نہیں دیتے بلکہ عوام قومی خزانے کے زریعہ تنخواہ دیتے ہیں ۔ سب سے اچھے لوگوں کو سرکاری ملازمت کے لئے منتخب نہ کرنا عوام کی جانب سے تفویض کیے گئے اعتماد کی سنگین خلاف ورزی اور عوام کے خلاف جرم ہے جن کاموروثی حق ہے کہ ان کی خدمت قابل ترین لوگ ہی کریں۔ اچھی طرز حکمرانی کے اصول اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہر ادارہ اورتنظیم گائیڈلائنز اور رولز مرتب کرے جس سے مفادات کے ٹکرائو کے نتیجہ میں ممکنہ طور پرسامنے آئے معاملات سے بچاجاسکے اوراس کی روک تھام کی جاسکے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین خان اورجسٹس اطہر من اللہ نے فاروق احمد کی جانب سے سیکرٹری بلوچستان اسمبلی کوئٹہ، اسپیکر بلوچستان اسمبلی اوردیگر کے خلاف گریڈ 18میں بطور ڈپٹی سیکرٹری صوبائی اسمبلی تعیناتی کے حوالہ سے بلوچستان ہائی کورٹ کے12نومبر2018اوربلوچستان سرو س ٹربیونل کے 24دسمبر2020کے فیصلوں کے خلاف دائر دودرخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ نے کیس کی سماعت 6دسمبر 2023کوکی تھی جس کا8صفحات پرمشتمل تحریری فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔درخواست گزارکی جانب سے ارسلان رفیق رانا اورحافظ حفیظ الرحمان بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ مدعاعلیہان کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان محمد ایازخان سواتی پیش ہوئے تھے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فاروق احمد ولد محمد اعظم واوی نے بلوچستان ہائی کورٹ اور بلوچستان سروس ٹربیونل کے فیصلوں کے خلاف ایک پیٹیشن اورایک اپیل دائر کی ہے۔ درخواست گزارنے دونوں فورمز پر 6جنوری2017کے فیصلے کوچیلنج کیا تھا۔ درخواست گزار بطورانگریزی لیکچررگریڈ17میں بھرتی ہوااوروہ گورنمٹ سائنس کالج کوئٹہ میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ درخواست گزارکاوالد محمد اعظم داوی متعلقہ وقت پرصوبائی اسمبلی بلوچستان سیکرٹریٹ میں خدمات انجام دے رہا تھا جسے ریٹائرمنٹ کی عمر پر پہنچے پر 15جون2014کو 6ماہ کے لئے کنٹریکٹ کی بنیاد پر دوبارہ بھرتی کرلیا گیاتاہم کنٹریکٹ کی مدت ختم ہونے پر اس کے کنٹریکٹ میں 31دسمبر2016تک توسیع دے دی گئی۔ جب درخواست گزارکا والد بطور سیکرٹری اسمبلی خدمات انجام دے رہاتھا اُس وقت ایک روزنامہ اخبارمیں 9مارچ2014کو ڈپٹی سیکرٹری ، لیجیسلیٹو ڈرافٹنگ(BS-18)کی آسامی کو پُرکرنے کے لیے اشتہارچھپا۔

اشتہار میں مطوبہ تعلیم اور تعیناتی کے حوالہ سے شرائط کاذکر کیا گیا تھا۔ اشتہار میں اس بات کاواضح تذکرہ کیا گیا تھا کہ صرف وہی امیدوار درخواست دینے کے ہیں جنہوں نے پبلک سروس کمیشن کاامتحان پاس کررکھا ہے اور وہ سرکاری افسر یا ملازم گریڈ17یاگریڈ18میں کام کررہے ہیں۔جبکہ دیگر مطوبہ تعلیم تسلیم شدہ یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں پوسٹ گریجوایشن اور ایل ایل بی ڈگری اور کم ازکم4سال سروس ہونی چاہیئے۔ بلوچستان اسمبلی میں ملازمین اورافسران کی بھرتی کے لئے بنائے گئے قوانین بلوچستان صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ(ریکروٹمنٹ) رولز،2009ہیں جو کہ سرکاری گزٹ میں 8جون2009کو شائع ہوئے۔ 2009کے رولز کا شیڈولAڈپٹی سیکرٹری کی تعیناتی اورطریقہ کارسے متعلق ہے اوریہ واضح طورپر بتاتا ہے کہ ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے پر تعیناتی5سال سے گریڈ 17میںتعینات موجودہ اسسٹنٹ سیکرٹریز میں سے سنیارٹی کم فٹنس کی بنیاد پر کی جائے گی۔ہمارے سامنے رکھے گئے ریکارڈ کے مطابق 12مئی2014کو ایک ڈپٹی سیکرٹری کی جانب درخواست گزا رکے والد کو ایک نوٹ منظوری کے لئے بھجوایا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ آسامی کو بنیادی تعیناتی کے زریعہ پُر کیا نہ کہ 2009کے رولزمیں دیئے گئے طریقہ کارکے مطابق ۔پیش کئے گئے نوٹ میں حاضر سروس اسسٹنٹ سیکرٹریز کی اہلیت اور فٹنس کاتعین ا ن کے کیسز 2009کے رولز کے رول6کے مطابق پروموشن کمیٹی کے سامنے رکھے بغیر کیا گیا۔

درخواست گزار کے والد نے تجویز کی منظوری دی تاہم سلیکشن کمیٹی کے اجلاس کی صدارت سے معذرت کرلی۔درخواست گزارکے والد نے 2009کے رولز کے رول 8(a)کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ایک ماتحت کو سلیکشن کمیٹی کاسربراہ تعینات کیا۔ اس بات کابھی کوئی ثبوت نہیں کہ یہ سلیکشن کمیٹی اسپیکربلوچستان اسمبلی کی جانب سے رول8(a)کے تحت درج طریقہ کاربنائی گئی تھی۔ سلیکشن کمیٹی نے درخواست گزارکی تعیناتی کی منظوری دی اور اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے 15مئی2015کوتعیناتی کالیٹر جاری کیا گیا۔کچھ حاضر سروس اسسٹنٹ سیکرٹریز کی جانب سے 2009کے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درخواست گزار کی تعیناتی کو آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ کے دائرہ اختیارکواستعمال کرتے ہوئے چیلنج کیا گیا۔ ہائی کورٹ نے اپنے 27مئی 2014کے عبوری حکم کے تحت اسمبلی سیکرٹریٹ کو تعیناتی کاعمل آگے بڑھانے سے روک دیا تھا۔ درخواست گزارنے ہائی کورٹ کے حکم کوسپریم کورٹ کے سامنے چیلنج کیا جسے سپریم کورٹ نے 19نومبر2014کونمٹادیا۔درخواست گزارکی تعیناتی کوہائی کورٹ کے آئینی دائرہ اختیارکواستعمال کرتے ہوئے بھی چیلنج کیا گیا۔بلوچستان ہائی کورٹ نے 15ستمبر2015کو اپنے حکمنامہ کے زریعہ 15مئی2015کو جاری نوٹیفکیشن پر عملدآمد روک دیا۔

درخواست گزار نے بلوچستان ہائی کورٹ کے عبوری حکم کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیا تاہم سپریم کورٹ نے 11دسمبر2015کوحکم میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرتے ہوئے درخواست نمٹادی۔ اس دوران درخواست گزارکے والد کی سروسز 23مئی2016کو معطل کردی گئیں کیونکہ ان کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کاروائی کاآغاز کیا گیا تھا اور بعدازاںانہیں 30دسمبر2016کے نوٹیفکیشن کے زریعہ 31دسمبر2016سے ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ اسمبلی سیکرٹریٹ نے 6جنوری2017کے آرڈر کے زریعہ درخواست گزارکی تعیناتی منسوخ کردی۔ درخواست گزار نے اس حکم کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیاجسے عدالت نے اپنے12نومبر2018کے حکم کے زریعہ خارج کردیا،اس فیصلے کوہمارے سامنے چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزار نے اسمبلی سیکرٹریٹ کے 6جنوری2017کے حکم نامہ کو بلوچستان سروس ٹربیونل میں بھی چیلنج کیا جسے سروس ٹربیونل نے 24دسمبر2020کو خارج کردیا جسے ہمارے سامنے چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزارکے وکیل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کیونکہ درخواست گزارکااسٹیٹس سول سرونٹ کا تھا اس لئے یہ کیس سروس ٹربیونل کے دائرہاختیار میں آتا تھا تاہم وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کواستعمال کرنے اوربعد ازاں سروس ٹربیونل جانے کی کوئی معقول وجہ نہیں بتاسکے۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہناتھا کہ اس کے مئوکل کے ساتھ قانون کے مطابق منصفانہ سلوک نہیں کیا گیا اور اس کے خلاف طریقہ کارکی خلاف ورزی کرتے ہوئے فیصلے جاری کئے گئے۔

درخواست گزارکے وکیل کاکہناتھا کہ اس کے مئوکل کا15مئی2015کی تعیناتی کا حکم ہائی کورٹ کے 6جنوری2017کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے واپس لیا گیا۔جبکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان محمد ایازخان سواتی نے بتایا کہ تعیناتی کاطریقہ کا2009کے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنایا گیا لہذادرخواست گزار کے والد کی جانب سے اپنے اختیارات کاغلط استعمال کرتے ہوئے تعیناتی کے لئے اپنایا گیا طریقہ کارغیر قانونی اور باطل تھا، جو کہ بطور سیکرٹری اسمبلی سیکرٹریٹ کام کررہے تھے۔ ہم نے درخواست گزارکے وکیل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کوسنا۔ درخواست گزارکے وکیل کی جانب سے یہ نقطہ اٹھانا کہ یہ صرف ٹربیونل کادائرہ اختیار تھا موجودہ حالات میں غلط فہمی کانتیجہ ہے۔ درخواست گزار نے خود ٹربیونل سے رجوع کیا اور خود ہی اسی حکم کو ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا۔ٹربیونل نے میرٹ پر اپیل خارج کردی اورفیصلہ ہمارے سامنے چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزارکامئوقف ہے کہ آئین کے آرٹیکل 199کے ہائی کورٹ کادائراختیاراس لئے استعمال کیا گیاکہ اسے ملازمت سے فارغ کرنے کے لئے ہائی کورٹ کے حکم کاسہارالیا گیا تھا۔

دونوں دائرہ اختیاردرخواست گزارکی جانب سے خود استعمال کئے گئے تاہم ہائی کورٹ اور ٹربیونل دونوں نے درخواست گزارکی اپیلوں پر میرٹ پر فیصلہ کیاجسے ہمارے سامنے چیلنج کیا گیا ہے لہذا ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کے حوالہ سے دلائل بے سود ہیں۔ اس میں درخواست گزار کے طرز عمل پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں کیونکہ ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزار نے اصل حقائق چھپائے۔ درخواست گزار کوتبادلے یا ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر تعینات نہیں کیا گیا تھا۔ درخواست گزار کی تعیناتی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے مبینہ طور پر ابتدائی تعیناتی کے طور پر کی گئی تھی لہذا یہ نئی تعیناتی تھی۔ اسمبلی سیکرٹریٹ کے افسران اور ملازمین کی تقرریاںاورشراط وضوابط 2009کے رولزکے تحت طے کئے جاتے ہیں اور اسمبلی سیکرٹریٹ کے ملازمین کوسول سرونٹس کادرجہ حاصل نہیں۔ بلوچستان سول سرونٹس ایکٹ1974کے تحت اسمبلی سیکرٹریٹ اورافسران اور ملازمین سول سرونٹس نہیں۔

درخواست سروس ٹربیونل کے دائرہ اختیارمیں نہیں آتا۔ درخواست گزار نے ہائی کورٹ کافیصلہ ہمارے پاس چیلنج کیاتاہم ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کوچیلنج نہیںکیا۔ درخواست گزار نے خودایک ساتھ دونوں فورمز کادائرہ اختیاراستعمال کرنے کافیصلہ کیا اورہمارے سامنے دونوں فیصلے چیلنج کیئے لہذاوکیل کی جانب سے اعتراض اٹھانے سے درخواست گزار کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔درخواست گزار کو ڈپٹی سیکرٹری(لیجیسلیٹو ڈرافٹنگ) گریڈ18اس وقت بھرتی کیا گیا جب اس کے والد اسمبلی سیکرٹریٹ میں بطور سیکرٹری کام کررہے تھے۔اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے تعیناتی ابتدائی تعیناتی کے طریقہ کارکواپنانے ہوئے کی گئی اور جو اشتہار میں جواہلیت بیان کی گئی وہ محدود تعداد کوفائدہ پہنانے کے لئے تھی جس میں درخواست گزار بھی شامل ہے۔ ہائی کورٹ نے درست طور پرلکھا کہ اس پابندی کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی جو کہ شفافیت کے اصول کی خلاف ورزی ہے، تاہم درخواست گزار ان چند امیدواروں میں شامل تھا جو اشتہار میں دیئے گئے اہلیت کے معیار پر پورااترتے تھے۔ سلیکشن کمیٹی کی دوبارہ تشکیل بھی درخواست گزارکے والد کی جانب سے کی گئی جبکہ 2009کے رولز کے تحت اسمبلی اسپیکر سلیکشن کمیٹی کی تشکیل کے لئے متعلقہ اتھارٹی تھی تاہم اس حوالہ سے کوئی بات ریکارڈ پر موجود نہیں کہ اسپیکر کی منظوری حاصل کی گئی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسمبلی سیکرٹریٹ نے شفافیت کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اہل اور قابل امیدواروں کو آسامی کے لئے مقابلہ کرنے سے روکا۔جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں لکھا ہے سپریم کورٹ نے تواتر کے ساتھ کہا ہے کہ سرکاری محکموں میں تعیناتیاں سختی سے متعلقہ رولز اورریگولیشنز پر عملد کرے ہوئے بغیر کسی امتیاز کے شفاف انداز میں کی جائیں۔ یہ ضروری ہے کہ سرکاری محکموں میں تمام تعیناتیاں شفاف پراسیس کی بنیاد پر متعلقہ قابل عمل رولز پر عمل کرتے ہوئے کی جائیں۔ غیر شفاف طریقہ سے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی تعیناتی آئین کے آرٹیکلز4،9،25اور27میں دیئے گئے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔سپریم کورٹ نے اس بات پر زوردیا ہے کہ تعیناتیاں مکمل غوروغوض کے بعد اور شفاف اور منصفانہ طریقہ کار کومد نظر رکتھے ہوئے کی جائیں۔تعیناتیوں کے لئے معتبر اور شفاف طریقہ کار اپناکرہی اچھی طرزحکمرانی کویقینی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ کسی بھی شخص کی سرکاری ملازمت کے لئے تعیناتی کے دوران پوری تندہی کے ساتھ شفافیت اور دیانت داری کو مدنظر رکھا جائے۔

یہ قراردیا گیا ہے عوامی عہدہ رکھنے والاشخص اپنے اختیارات کو عوامی فلاح وبہبود کوآگے بڑھانے کے لئے ہی استعمال کرسکتا ہے۔ اس عدالت نے اس بات پر بھی زوردیا ہے کہ عوا م کی خدمت کے لئے لوگوں کو منتخب کرتے ہوئے صرف یہ نہ دیکھا جائے کہ کسی شخص کے گزربسر کے لئے اسے ملازمت فراہم کرنا ضروری ہے بلکہ یہ ایک مقدس فریضہ ہے جس کو متعلقہ افراد نے ایماندارانہ، منصفانہ، انصاف اورشفافیت کے اصولوںکو مدنظر رکھ کر اداکرنا ہے۔ جن لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے انہیں بھرتی کرنے والے اپنی جیب سے تنخواہ نہیں دیتے بلکہ عوام قومی خزانے کے زریعہ تنخواہ دیتے ہیں ۔ سب سے اچھے لوگوں کو سرکاری ملازمت کے لئے منتخب نہ کرنا عوام کی جانب سے تفویض کیے گئے اعتماد کی سنگین خلاف ورزی اور عوام کے خلاف جرم ہے جن کاموروثی حق ہے کہ ان کی خدمت قابل ترین لوگ ہی کریں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہمارے سامنے موجود کیس اپنے خاندان کے فردکو فائدہ پہنچانے کے لئے عوامی عہدے کاغلط استعمال کرنے کی بہترین مثال ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ مفادات کے ٹکرائو کااصول عوامی عہدوں پر بیٹھے افراد کی جانب سے نظراندازکیا جارہا ہے۔ مفادات کے ٹکرائو کے نتیجہ میں سامنے آنے والے معاملات کے حل کے لئے کوئی رولز مرتب نہیں کئے گئے۔ اچھی طرز حکمرانی کے اصول اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہر ادارہ اورتنظیم گائیڈلائنز اور رولز مرتب کرے جس سے مفادات کے ٹکرائو کے نتیجہ میں ممکنہ طور پرسامنے آئے معاملات سے بچاجاسکے اوراس کی روک تھام کی جاسکے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل کسی ایسے عوامی مفاد کے نقطہ کی نشاندہی نہیں کرسکے جوہماری مداخلت کے متقاضی ہوں۔عدالت نے دونوں درخواستیں ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردیں۔ ZS