کیا مہنگائی کم ہو رہی ہے؟: تحریر نعیم قاسم


پاکستان کے قومی ادارہ شماریات کی حال ہی میں مہنگائی کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگست کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 10.2 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جو گزشتہ سال اگست کے مہینے میں 27.4 فیصد تھی پہلی بات یہ ہے کہ یہ بنیادی افراط زر ( core inflation) کی شرح ہے جس میں خوراک اور توانائی کے اخراجات شامل نہیں کیے جاتے ہیں تا ہم حساس قیمتوں کا اشاریہ( SPI) جو ہر ہفتے بنیادی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں تبدیلی کا جائزہ لیتا ہے جولائی میں 15.7 فیصد اور اگست میں 10.8 فیصد پر ریکارڈ کیا گیا ہے بنیادی افراط زر کی شرح 28 ماہ کی کم ترین سطح پر ہے شہری علاقوں میں افراط زر پچھلے مہینے 13.2 فیصد سے کم ہو کر 11.7 فیصد پر آگیا ہے جبکہ دیہات میں یہ شرح 8.1 فیصد سے کم ہو کر 6.7 فیصد پر آگئی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی مہنگائی کم ہو رہی ہے تو ایسا قطعاً نہیں ہے تاہم مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں کمی ہوئی ہے جو اب بھی جنوبی ایشیا میں بلند ترین سطح ہے مثلاً ایک شے کی قیمت 100 روپے تھی وہ شہباز شریف کے پہلے دور میں اگست میں 127 روپے کی ہو گئی مگر اس سال سو روپے والی شے کی قیمت بڑھ کر 110 روپے ہوئی ہے مہنگائی اس سال بھی بڑھ رہی ہے مگر پچھلے سال کی نسبت کم شرح سے تا ہم بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ابھی بھی ماہ بہ ماہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے گزشتہ دوسالوں میں اشیائے خورد و نوش، ادویات، پٹرول، بجلی گیس، ٹرانسپورٹ، کرایوں اور تعلیمی اخراجات میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے اور مہنگائی کی بنیادی وجہ پٹرول کی قیمت میں 150 روپے لٹر سے 260 سے 300 روپے لٹر، بجلی کے گھریلو فی یونٹ قیمت 14روپے سے بڑھ کر 48 روپے روپے کی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں سو فیصد کمی سے عوام کی معاشی حالت تباہ برباد ہو کر رہ گئی ہے عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کے بعد پی ڈی ایم کے دور میں اگر تیل 150 روپے سے 320 روپے لٹر ہو گیا تو اب بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے اگر یہ کم ہو کر 260 روپے پر آجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عوام کی حقیقی قوت خرید بھی بڑھ گئی ہے اگر ناجائز طور اشیاء کی قیمتوں میں 300 گنا اضافہ کرنے کے بعد معیشت کی سست روی کی وجہ سے قیمتیں 30 فیصد کم ہو جائیں تو اس کا مطلب مہنگائی کم ہونا نہیں ہے غربت کی شرح 30 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد ہوگئی ہے
سٹیٹ بینک کی سخت مانیٹری پالیسی سے شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر 19.5 فیصد پر آگئی ہے کاروباری طبقہ اس میں تین چار سو پوائنٹس کی مزید کمی کا مطالبہ کر رہا ہے جب شرح سود کم ہوتی ہے تو بنک صارفین کے ڈپازٹس پر منافع کی شرح بھی کم کر دیتا ہے جس پر کم پچتیں کرنے والے صارفین کو دھچکا لگتا ہے تو ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ قومی بچت کی سکیموں میں منافع کی شرح برقرار رکھے تاکہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو معقول آمدنی ملتی رہے وگرنہ کم منافع کی وجہ سے لوگ اپنی بچتیں یا پنشن کی آمدنی زیادہ منافع کی لالچ میں نوسربازوں کے حوالے کر دیتے ہیں اور ساری عمر کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں
ڈاکٹر شاہد حسن کا کہنا ہے “حکومت دس بارہ چیز یں خراب کر کے ایک بہتر معاشی انڈیکیٹر کا چرچا عام کر کے عوام کو گمراہ کرتی ہے یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی اپنی فیکٹری بند کر کے یہ دعویٰ کرے کہ اس نے اپنا بجلی کا بل کم کر لیا ہے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈبل کر دیا گیا ہے قرض اتارنے کے لیے حکومت کے پاس بجٹ نہیں ہے آئی ایم ایف سے معاہدہ تعطل کا شکار ہے تو ایسے میں حکومت افراط زر کی شرح میں کمی پر کامیابیوں کے ڈھول بجا رہی ہے ”
ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے” حکومت محض کفایت شعاری کے اعلانات کر رہی ہے مگر عملاً کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے سوائے چھوٹے گریڈز کے ملازمین کی نوکریاں ختم کرنے کے حالانکہ حکومت سمیڈا اور سول ایوی ایشن جیسے بہت سے غیر پیداواری ادارے ختم کر کے، جن کی کوئی افادیت نہیں ہے، سالانہ تیس ارب بچا سکتی ہے مگر حکومت اس پر تیار نہیں ہے کہ اعلیٰ افسران کی پوسٹس ختم کرے”
ادارہ شماریات کے مطابق” افراط زر کی شرح میں کمی کا بنیادی اثر پائیدار اشیاء پر دیکھنے میں آیا ہے ”
اگر چہ چند ماہ میں گندم اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے مگر بھاری ٹیکسوں کے باعث کپڑے، جوتے، ضیا پذیر اشیاء، ادویات، کولڈ ڈرنکس، جوسز، دودھ مکانوں کے کرایے، پانی بجلی گیس، پراپرٹی ٹیکس، گاڑیوں پر ٹیکسز، صحت اور تعلیم پر اخراجات میں دوگنا اضافہ ہوا ہے 18 فیصد سیلز ٹیکس کی وجہ سے تازہ سبزیوں کی قیمتوں میں 77 فیصد، دالوں کی قیمتوں میں 43 فیصد، تازہ پھلوں کی قیمتوں میں 27 فیصد، دودھ کی قیمتوں میں 24 فیصد، گوشت کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے مہنگائی کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ SPI انڈیکس پر گروسری باسکٹ کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے اور اس کے علاوہ بجلی گیس، پٹرول، صحت، ہاؤسنگ اور ٹرانسپورٹ کے انڈیکسز کو بھی مد نظر رکھیں گے تو تو پتہ چلے گا کہ عوام معاشی طور پر خوشحال ہو رہے ہیں یا بدحال جب تک بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی نہیں ہوگی اور ڈالر کی قیمت 225 روپے تک نہیں آئے گی تو کیسے ممکن ہے کہ عوام پر گزشتہ تین سالوں میں جسقدر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ ڈال دیا گیا ہےاس کو کم کیے بغیر کیا وہ باعزت جینے کی راہ تلاش کر پائیں گے بجائے عوام پر دھڑا دھڑ ٹیکس لگانے کے اشرافیہ کی 17 ارب ڈالرز کی سالانہ مراعات کیوں نہیں ختم کی جاتی ہیں مغربی ممالک کو رول ماڈل بنانے والا حکمران طبقہ اپنے ملک میں ان حکمرانوں کی طرح سادہ زندگی کیوں نہیں بسر کر تا ہے اقتدار سے نکلنے کے بعد بھی تو ان ممالک میں جاکر ہمارا حکمران طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا عام شہریوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں گیلپ سروے کے مطابق” 89 فیصد افراد نے مہنگائی کی وجہ سے گھروں سے باہر کھانا کھانے کو کم کر دیا ہے”
عام آدمی کی تنخواہوں پر ٹیکسوں کی جو شرح بڑھی ہے اور بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے سے اس کی معاشی حالت بے حد بگڑ چکی ہے غریب لوگ بجلی کے بلوں کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں حکومت رواں ماہ اپنے ٹیکس کے اہداف سے دو ماہ پیچھے ہے تو اگر ایسے میں حکومت مزید ٹیکس لگانے کے لیے کوئی منی بجٹ لے آئی تو کیا ہو گا ہم یہ نہیں کہ رہے ہیں کہ حکومت کوئی اعدادوشمار میں ہیر پھیر کر رہی ہے بنیادی افراط زر میں کمی یقیناً قابل تحسین ہے مگر عوام کو ریلیف تب ہی مل سکتا ہے کہ ایک طرف عوام کی حقیقی آمدنی میں اضافہ ہو اور دوسری طرف اشیائے ضروریات پر ٹیکسوں کی شرح کم کر کے ان کی قوت خرید میں اضافہ کیا جائے تو تبھی وہ مطمئن ہونگے