بلوچستان کے چار بڑے بلوچ قبائل ہیں: مری، بگٹی، زہری اور مینگل۔ پچھلے75 برسوں کے دوران چاروں قبائل کے سرداروں نے کبھی نہ کبھی ، کسی نہ کسی شکل میں، پاکستان کی طاقتور و مقتدر شخصیات اور اداروں کے خلاف مزاحمتی کردار ادا کیا ہے ۔
افغانستان کے مقتدرین کے ساتھ بھی اِن کے قریبی تعلقات رہے ہیں ۔ مذکورہ چاروں قبائل کے سردار پاکستان کے ریاستی اداروں اور فیصلہ ساز قوتوں کے ساتھ دوستی اور مفاہمت کی شکل میں بھی نظر آتے رہتے ہیں ۔ یہ بلوچ سردار صاحبان بلوچستان اور وفاقی حکومت کے اعلی عہدیدار بھی رہے ہیں ۔ مثلا:اکبر خان بگٹی صاحب بلوچستان کے گورنر بھی رہے اور وزیر اعلی بھی اور وفاقی وزیر بھی ۔ عطا اللہ مینگل صاحب بلوچستان کے وزیر اعلی بھی بنے اور ان کے صاحبزادے ،اختر جان مینگل صاحب، بھی بلوچستان کے وزیر اعلی منتخب ہوئے ۔ ثنا اللہ زہری بھی بلوچستان کے وزیر اعلی بنائے گئے۔
بلوچ سرداروں کی ریاستِ پاکستان کی مرکزی فیصلہ ساز قوتوں کے ساتھ ناراضی اور محبت کی ایک طویل داستان ہے ۔ اِن ناراضیوں میں سیاسی وجوہ بھی شامل ہیں اور مالی بھی ۔ اتنا بہرحال ماننا پڑے گا کہ اسلام آباد کے خلاف بعض بلوچ سرداروں کی ناراضیاں قیامِ پاکستان ہی سے چلی آ رہی ہیں ۔ اِن باہمی ناراضیوں میں کہیں کہیں خون کے دھبے بھی نظر آتے ہیں اور کہیں بندوق کی گولیوں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے ۔
یہ ناراضیاں بوجوہ کئی بلوچ سرداروں کو کئی بار پسِ دیوارِ زنداں بھی لے گئیں ۔بلوچستان کے جملہ حالات خراب کرنے میں جہاں مرکز سے لاتعلق بلوچ سرداروں نے کردارادا کیا ہے ، وہاں کچھ غیر ملکی طاقتیں بھی اپنا گھناؤنا ہاتھ دکھا رہی ہیں ۔ بلوچ سرداروں اور حکومت سے ناراض ہونے والے کچھ بلوچ عوام بھی سامنے آئے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹیاِس کی تازہ ترین مثال ہے ۔ اِس میں ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کے کردار نے اسرار اور شبہات کے نئے مناظر پیدا کررکھے ہیں۔ مہرنگ بلوچ کا مزاحمتی کردار یک نکاتی ایجنڈے اور مطالبے کے گرد گھوم رہا ہے: بلوچستان کے متنازع مسنگ پرسنز کی بازیابی!
بلوچستان سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے حکمرانوں کے لیے ٹھنڈی ہوا کا کوئی ایک جھونکا بھی نہیں آ رہا ۔ اگست2024 کا مہینہ تو بڑا ہی خونریز ثابت ہوا ہے ۔ ابھی جنوبی پنجاب میں کچے کے علاقے میں ڈاکووں کے ہاتھوں پنجاب پولیس کے درجن بھر جوانوں کی المناک شہادت کا سانحہ مدہم بھی نہ پڑا تھا کہ اگست کے تیسرے ہفتے بلوچستان میں کئی پنجابی مزدوروں اور دیگران کو قتل کرنے کی نئی خوں رنگ وارداتیں سامنے آ گئیں ۔26 اگست کوبلوچستان کے علاقے ( موسی خیل) میں قتل و غارتگری کے متعدد واقعات نے پورے پاکستان کو ہلا کررکھ دیا ۔
اِن سانحات کی سنگینی اِسقدر تھی کہ وزیراعلی بلوچستان، سرفراز بگٹی صاحب ، اور وزیر داخلہ پاکستان ، محسن نقوی صاحب، کو پاکستان کے سہمے عوام کے سامنے اکٹھے آنا پڑا ۔ پھر وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، کو بھی بھاگم بھاگ کوئٹہ جانا پڑا ۔شہباز شریف کی جانب سے مبینہ طور پر جناب اختر مینگل کو بھی کوئٹہ کی مجلسِ خاص میں مدعو کیا گیا تھا ۔
اختر جان مینگل صاحب نے مگر وزیر اعظم صاحب کی دعوت قبول کی نہ مذکورہ میٹنگ میں شریک ہوئے ۔ کیوں شریک نہ ہوئے؟ اختر مینگل صاحب نے اِس کیوں کا تفصیلی جواب ایک پوڈ کاسٹ پروگرام میں دیا ہے ۔ یہ جواب ایک ویب اخبار(بلوچستان پوسٹ) نے مکمل طور پر شایع کر دیا ہے ۔اِس جواب کی زبان مگر اسقدر سخت اور تند ہے کہ ہم اِسے یہاں نقل کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔
اور اب3ستمبر2024 کو بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ)کے سربراہ،سردار اختر جان مینگل صاحب ،نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیا ہے ۔ یہ اہم خبر ملک کے تمام میڈیا نے ایک دھماکے سے سنائی ۔ جن حالات میں یہ استعفی سامنے آیا ہے، وہ بھی خاصے حساس اور غیر معمولی ہیں ۔ اختر مینگل صاحب نے قومی اسمبلی کے سامنے میڈیا سے مخاطب ہوتے ہوئے جب اپنے استعفے کا اعلان کیا، اس وقت ان کے ساتھ محمود خان اچکزئی صاحب بھی کھڑے تھے۔ یہ بذاتِ خود ایک غیر معمولی منظر تھا کہ اچکزئی صاحب تو آجکل بانی پی ٹی آئی کے نامہ بر بن کر حکومت اور پی ٹی آئی میں مصافحہ اور مکالمہ کروانے کی کوششوں میں ہیں ۔
اِنہی اچکزئی صاحب کے ہمدوش کھڑے اختر مینگل صاحب نے استعفی دیتے ہوئے جو الفاظ کہے، وہ اب تاریخ کی لوح پر رقم ہو چکے ہیں ۔ کہا:میں قومی اسمبلی کے فلور پر اظہارِ خیال کرنا چاہتا تھا ۔ اسپیکر اسمبلی نے مگر مجھے موقع ہی نہ دیا۔ آج میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوتا ہوں۔ افسوس میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا۔ میں ریاستِ پاکستان، صدر، وزیرِاعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں۔
ہمارے جملہ حکمرانوں کو بلوچستان پر پارلیمنٹ کا خاص اجلاس بلانا چاہیے تھا۔ میری اور اچکزئی کی شکلیں ان کو برداشت نہیں۔ میں پورے نظام پر عدم اعتماد کر رہا ہوں۔ بلوچستان کے معاملے پر اِن لوگوں کی دلچسپی نہیںہے۔ جب بھی اس مسئلے پر بات کرو تو بلیک آٹ کر دیا جاتا ہے۔ ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے۔ اِس سیاست سے بہتر ہے میں پکوڑوں کی دکان کھول لوں۔میرے استعفے سے65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہوں گے۔ ان سے معافی مانگتا ہوں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں آج میری تقریر سن لی جاتی تو استعفی وہاں پیش کرتا مگر افسوس وہاں اظہارِ خیال نہیں کرنے دیا گیا۔ یہ اسمبلی ہماری آواز نہیں سنتی تو اِس میں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟ استعفی میرے ضمیر کا فیصلہ ہے۔ فیصلہ واپس نہیں ہوگا۔ انھوں نے واپسی کے سب راستے بند کر دیے ہیں۔
پچھلے کئی برسوں سے متعدد اور متنوع حکمرانوں سے اختر مینگل صاحب کی جو بوجوہ ناراضیاں اور شکوے شکائتیں چلی آ رہی تھیں، اب ان کا انت اور نتیجہ سامنے آ گیا ہے ۔ اختر مینگل صاحب کے شکووں کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ خاص طور پر نواز شریف، شہباز شریف اور بانی پی ٹی آئی نے ان سے جتنے بھی وعدے معاہدے کیے ، کوئی ایک بھی پورا نہ کیا ۔ نتیجہ پھر یہی نکلنا تھا ۔
پی ڈی ایم کی 16ماہانہ حکومت نے بھی ان سے کئی وعدے کیے مگر کوئی ایک بھی ایفا نہ کیا ۔ اختر مینگل صاحب نگران حکومت کے وزیر اعظم ، انوارالحق کاکڑ، کی تعیناتی پر بھی مقتدر قوتوں سے ناراض تھے یہ کہہ کر کہ اِس تعیناتی میں ان کی مشاورت نہیں لی گئی ۔ پچھلے 6ماہ سے بھی مبینہ طور پر شہباز حکومت ان سے محبت بھرا سلوک نہیں کررہی تھی ۔بلوچستان کے دگرگوں حالات نے بھی انہیں بددل کررکھا ہے ۔ اختر مینگل صاحب کے استعفے کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ استعفی ایسے ایام میں سامنے آیا ہے جب 8ستمبر کو پی ٹی آئی کا مجوزہ جلسہ حکومت کے اعصاب پر بری طرح سوار ہے ۔ یہ حکومت پر دباو کی نئی شکل ہے۔
اِس استعفے پر بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا ہے، خاصا شرمناک اور قابلِ مذمت ہے۔ اندیشہ ہے کہ پاکستان و بلوچستان مخالف قوتیں بھی اختر مینگل صاحب کے استعفے کو ایکسپلائیٹ کریں گی ۔ کچھ حکومتی شخصیات نے اِس استعفے پر تاسف کا اظہار تو کیا ہے، افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ صدرِ مملکت اور وزیراعظم کے قریبی اور معتمد لوگوں نے جناب اختر مینگل کی ناراضیاں ختم کرنے اور انہیں منانے کی کوئی خصوصی کوشش نہیں کی۔ جتنی کوششیں آجکل صدرِ مملکت اور وزیراعظم صاحب حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کو منانے کی کررہے ہیں، کاش اِن کا عشرِ عشیر ہی اختر مینگل صاحب کو منانے اور راضی کرنے میں صرف کیا جاتا تو نتائج یقینا مثبت نکلتے۔!
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس