آجکل سیاست و صحافت میں مذاکرات کا بہت شور ہے۔ ایک ہی سوال ہے کہ کیا مذاکرات ہو رہے ہیں یا نہیں؟ کس کے کس کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں؟ پس پردہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اسموک اسکرین کا ماحول بن رہا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ مذاکرات ہونے چاہیے، کوئی کہہ رہا ہے کہ ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ بھی سوال ہے کہ کون کس سے معافی مانگے گا؟ کیا مذاکرات کے تالے کی چابی معافی میں چھپی ہوئی ہے؟
ہمیں سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ مذاکرات ضرورت اور مفاد کے تحت ہوتے ہیں۔ ایک فریق کی ضرورت اور مفاد بھی کافی نہیں ہوتا، دونوں جانب کی ضرورت اور مفاد لازمی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو اس وقت مسلم لیگ ن اور تحریک انصا ف کے درمیان کوئی ایسا پہلو نظر نہیں آتا ہے جسے دونوں کی باہمی ضرورت اور مفاد کے طور پر دیکھا جا سکے۔ ن لیگ اس سسٹم کو چلانے کی خواہاں ہے۔
ان کے نزدیک آٹھ فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں جو حکومتیں بن گئی ہیں، ان کو چلنا چاہیے۔ تحریک انصاف کے مطابق آ ٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں جو حکومتیں بنی ہیں، وہ جعلی ہیں لہذا ایسی حکومتوں نہیں چلنا چاہیے۔ یوں دونوں کے درمیان اس ایشو پر مزاکرات ممکن ہی نہیں۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کونسی اس قدر خطرے میں ہیں کہ تحریک انصاف سے بات چیت کے بغیر یہ حکومتیں اور اسمبلیاں بچ نہیں سکتیں۔ تحریک انصاف نے کونسا حکومتیں گرانے کا ماحول بنا لیا ہوا ہے،جس کی وجہ سے اس سیٹ اپ کو بچانے کے لیے مذاکرات نازگزیر ہو گئے ہیں۔
اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ آٹھ فروری کے انتخابات پر ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان کوئی بات چیت ممکن ہے۔تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان بھی یہی صورتحال ہے۔ اسٹبلشمنٹ کی خواہش اور کوشش ہے کہ آٹھ فروری کے نتیجے میں جو حکومتیں بن گئی ہیں وہ چلیں۔ تحریک انصاف کو یہ قبول نہیں۔پھر مذاکرات کس بات پر۔ تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ اسے حکومت کے خلاف دھرنے دینے کے لیے اگر اسٹبلشمنٹ سہولت کاری نہیں کر سکتی تو روکے بھی نہ۔ لیکن یہ بھی ممکن نہیں۔ اس لیے کیسے مذاکرات۔ میں نو مئی کی معافی کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتا۔
اگر تحریک انصاف کو کچھ مل رہا ہو تو وہ معافی مانگ لے گی۔ لیکن ابھی صورتحال یہ ہے کہ معافی کے جواب میں کچھ مل نہیں رہا۔ ایسے معافی مانگنے کا کیا فائدہ ۔ بانی پی ٹی آئی اپنی رہائی کے عوض معافی مانگ سکتے ہیں۔ لیکن رہائی کی بات کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ بانی کی رہائی ایسا نقطہ ہو سکتا ہے جس کے عوض پی ٹی آئی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو جو وہ مانگیں دے سکتی ہے۔ لیکن ابھی رہائی کا ماحول ہی نہیں۔ ابھی تو ساری لڑائی بانی پی ٹی آئی کی رہائی روکنے کے لیے ہورہی ہے۔ رہائی ایک کی جیت اور ایک کی ہار بنی ہوئی ہے۔لہذا رہائی مذاکرات کا ایجنڈا ہو ہی نہیں سکتا۔
حکمران اتحاد کے لیے بڑا مسئلہ جیوڈیشری ہے۔ حکمران اتحاد اور اسٹبلشمنٹ اس حوالے سے قانون سازی بلکہ آئین سازی کرنا چاہتے ہیں۔ بانی تحریک انصاف کی واحد امید عدلیہ ہے۔ اس معاملے پر بھی تحریک انصاف اور حکمران اتحاد کے درمیان مذاکرات یا مفاہمت کا کوئی ایجنڈا ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف صرف اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کرنا چاہتی ہے۔لیکن دوسری جانب سے مکمل سرد مہری ہے۔ بانی تحریک انصاف کی مسلسل کوشش ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے نمایندوں کو دبا میں لا کر مذاکرات کی میز پر لے آئیں۔ وہ ان کے خلاف جارحانہ مہم چلا کر انھیں اپنی حمایت میں لانا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ کوشش ابھی تک ناکام ہے۔ اس وقت اسٹبلشمنٹ انھیں کچھ دینے کے موڈ میں نہیں۔ لہذا پھر معافی کیوں مانگی جائے۔
جہاں تک محمود خان اچکزئی کا تعلق ہے، ان سے مذاکرات کی بھی کوئی منطق نہیں ہے۔ ان کی اپنی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے۔ ان کے پاس پارلیمنٹ میںکوئی ووٹ نہیںہیں اور نہ کوئی سیاسی طاقت ہے۔حیرانی اس بات پر ہے کہ موصوف تحریک انصاف کی طرف سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن سوچنے والی بات ہے کہ جب تحریک انصاف کی سیاسی طاقت پر مذاکرات ہونے ہی ہیں تو پھر محمود خان اچکزئی سے کیوں ہوںگے، براہ ارست تحریک انصاف سے کیوں نہیں ہوںگے۔ سب کو علم ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کا ایک سیاسی مہرہ ہیں۔
ایسا مہر ہ جس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ وہ تحریک انصاف کے لیے فائدہ تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن بدلے میں بانی پی ٹی آئی سے پوچھے بغیر کوئی فائدہ دے نہیں سکتے۔ اس لیے مجھے ان سے مذاکرات بھی ممکن نہیں دکھائی دیتے۔ ان کے پاس مینڈیٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ بانی تحریک انصاف کے لیے کوئی ناگزیر شخصیت نہیں ہیں۔ وہ جب چاہیں گے انھیں فارغ کر دیں گے۔اس حقیقت سے حکومتی اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ بخوبی آگاہ ہیں۔ سچ یہی ہے کہ سیاست میں کبھی کمزورمہروں سے مذاکرات نہیں ہوتے۔
ویسے بھی تحریک انصاف اس وقت مشکل میں ہے، ن لیگ کو اس کا فائدہ ہے۔ وہ کیوں انھیں اس مشکل سے نکالنے میں مدد کریں گے۔ پھر جب یہ علم ہے کہ اگر بانی تحریک انصاف کی باری آجائے گی تو وہ کسی وعدے اور عہد کی پاسداری نہیں کریں گے، ان کا ماضی اس حقیقت کا گواہ ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی انھیں سیاسی زندگی کیوں د یں گی۔ کھیل ایسا پھنس گیا ہے۔ جہاں فی الحال مذاکرات ممکن نہیں۔ لڑائی چل رہی ہے۔ ابھی لڑائی ہی چلے گی۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس