صاحبِ کتب : تحریر محمد اظہر حفیظ


مجھے نصاب کی کتب کے علاؤہ سب کتب پڑھنے کا شوق تھا۔ پہلے پہل تو انسپکٹر اشتیاق پھر عنبر ناگ ماریہ اور ہائی سکول میں عمران سیریز پڑھنے کا شوق تھا۔ یہ شوق چلتا رہا اور پڑھنے کی عادت ہوگئی۔ آٹھویں جماعت میں ہمارے کلاس فیلو اخبار نکالتے تھے اور میں اس میں لکھنے لگ گیا۔ اس سے پہلے میں باقاعدہ سے کلیاں، پھول ، بچوں کی دنیا اور دوسرے میگزینز کیلئے لکھ کر بھیجتا تھا۔ پھر شعر کہنے شروع کئے اور اصلاح کیلئے انور مسعود صاحب کے پاس بھی جاتا تھا وہ میرے سکول فیلو دوست عمار مسعود صاحب کے والد محترم ہیں اس وجہ سے خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ شعر میں کہتا رہا پر سب ہی فارغ شعر تھے۔ مجھے جلد ہی اس کا احساس ہوگیا۔ اور میں نثر لکھنے لگا اور لکھتا ہی چلا گیا۔ نثر کے فارغ ہونے کا مجھے احساس نہیں ہوسکا اور یوں کئی مضامین لکھتا چلا گیا۔ مجھے اردو کے علاؤہ کبھی کوئی دوسری زبان نہ تو سمجھ آئی اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کی۔ مجھے بار ھا باور کرایا گیا کہ تہاڈی ماں بولی پنجابی اے ۔ میں پنجابی وچ وی کافی لکھیا۔مجھے انقلابی شاعر پسند تھے۔ میں احمد فراز صاحب، حبیب جالب صاحب، ساحر لدھیانوی صاحب ، استاد مومن صاحب، محسن نقوی جیسے شعراء کو پڑھتا رہا۔ مجھے محبت کا نہیں پتہ تھا میں یہ سمجھتا تھا کہ بندہ لڑنے کیلئے ہی پیدا ہوا ہے ۔ لیکن جب میں نے اسد اللہ خان غالب صاحب، میر تقی میر صاحب، علامہ محمد اقبال صاحب، منصور معجزہ صاحب ، احمد ندیم قاسمی صاحب ، امجد سلام امجد صاحب اور دیگر بہت سے شعرا کو پڑھا تو محبت کی دنیا بھی سمجھ آنا شروع ہوگئی۔ میں شعروں میں الجھا ہوا تھا کہ میرا داخلہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں ہوگیا۔ جب میں لاہور گیا تو پھر کہیں اور نہ جاسکا وہیں بس گیا۔ لاہور کے ہر گھر میں کتابوں سے واسطہ پڑا۔ چچازاد بھائی وسیم احمد کے گھر کرنل شفیق الرحمن صاحب ، مشتاق احمد یوسفی صاحب، ڈاکٹر یونس بٹ صاحب ، عطاء الحق قاسمی صاحب اور دوسرے مزاح لکھنے والوں کو پڑھا تو مجھے مسکرانا اگیا۔ پھر میری رسائی پانچ ٹیمپل روڈ پر انکل آئی اے رحمن صاحب تک ہوئی اور دنیا بدل گئی ، منٹو صاحب، فہمیدہ نسرین صاحبہ، کشور ناہید صاحبہ، اشفاق احمد صاحب، قدرت اللہ شہاب صاحب، بانو قدسیہ صاحبہ کو پڑھنے کا موقع ملا ۔ کوئی سوال آتا تو رحمن صاحب سمجھا دیتے، اب میں نجم الحسن سید صاحب ، ثاقب مقصود صاحب، بابا بلھے شاہ صاحب، میاں محمد بخش صاحب کو پڑھنے لگا۔ بیچ میں مارکسزم کی طرف بھی رحجان ہوا۔ رجحانات تبدیل ہوتے رہے اور میں پڑھتا اور لکھتا رہا۔ پھر میں مختلف اخبارات اور رسائل کیلئے فوٹوگرافی کرنے لگا فیشن، فیچر اس سلسلے میں بھی بہت سے لوگوں سے روابط ہوئے اور سیکھتے رہے۔ میں جو سیکھتا اس کو لکھتا رہتا۔ میرے سامنے دو طرح کے رائٹر تھے احمد سلیم صاحب، مجاہد حسین صاحب جو کتابیں جوڑتے اور چھاپتے تھے۔ دوسری طرف انکل آئی اے رحمن صاحب، خالد احمد صاحب ، جلیس حاضر صاحب، انیتا میر صاحبہ ، سلمان رشید صاحب، سلمان شاھد صاحب، دلدار بھٹی صاحب ، آمنہ شریف صاحبہ ۔ ضیاء شاھد صاحب، خوشنود علی خان صاحب ، جاوید چوہدری صاحب ، حسن نثار صاحب، ہارون الرشید صاحب، مولانا مودودی صاحب، میاں طفیل محمد صاحب،
میری زندگی ٹرانسفارم ہورہی تھی۔ اور میں لکھتا جارہا تھا ۔ میرے لہجے ہر دور میں تبدیل ہورہے تھے۔ پھر زندگی کے نئے ادوار آئے میری زندگی سے والدین اگلے سفروں پر روانہ ہوگئے۔ میں روتا رہتا تھا اور لکھتا رہتا تھا۔ دھندلی آنکھوں سے املاء کی بہت غلطیاں ہوتیں تھیں۔ پھر میری بیگم اس مضمون کو سب سے پہلے پڑھتیں غلطیوں کی نشاندھی کرتیں ہم ان کو ٹھیک کرکے آگے دوستوں کو بھیج دیتے۔ اب زندگی ایک نئے موڑ پر تھی اور مجھے جگر ٹرانسپلانٹ کروانا پڑا۔ اب میری تحریریں اس موضوع کی طرف مڑ چکیں تھیں۔ سفر بہت مشکل اور دلچسپ تھا میں سفرنامہ لکھتا چلا گیا۔ جگر ٹرانسپلانٹ کے بعد مکتبہ جدید لاہور کے مالک بھائی حسن رشید رامے صاحب کا فون آتا ہے یار میں تیری کتاب چھاپنی اے مجھے مسودہ بھیج ۔ وہ بیچارے کہہ کر قربان ہوگئے ۔ میں نے چھ سو تیس مضامین کی سافٹ کاپی انکو بھیج دی۔ جب کتاب کمپوز ہوئیں تو وہ کوئی سولہ سو سے سترہ سو صفے بنے۔ حسن رشید رامے صاحب بہادر آدمی ہیں انھوں نے ان کو چار کتابوں کی شکل دی۔ نعیم وائیں صاحب نے ٹائٹل ڈیزائن کئے سکیچ نعمیرہ جاوید بٹ صاحبہ نے بنایا اور یوں میرے ابا جی کا صاحب ، اب صاحب کتب ہوگیا۔ ان کتابوں میں میری زندگی کے سب رنگ آپ کو نظر آئیں گے۔ انشاء اللہ
اس میں مضامین کے عنوان بھی ہیں اور بلاعنوان بھی۔
میری چار کتابیں پیش خدمت ہیں
بلاعنوان -1, بلاعنوان 2, فوٹوگرافر اور لائلپور یا
میں ان کتابوں کو فلحال اسلام آباد ، لائلپور اور لاہور میں لانچ کررہا ہوں۔ اگر آپ میرے اس سفر کو سمجھنا چاہتے ہیں اور دنیا کو میری آنکھ سے دیکھنا چاہتے ہیں تو ضرور ان کتب کو خرید کر پڑھیے۔ حسن رشید رامے صاحب کی بے انتہاء محبت، شفقت تو ہم واپس نہیں کرسکتے لیکن اخراجات انکو واپس کرنے ضروری ہیں۔ میں بھی کتابیں ہمیشہ خرید کر پڑھتا ہوں جو مفت ملے اس کو کبھی پڑھ نہیں سکا۔ دعاؤں کی درخواست ہے ۔ ان سب احباب کا شکریہ جن کے محبت اور نفرت سے یہ سب ممکن ہوا۔ ملتے ہیں اسلام آباد ، لائلپور اور لاہور میں میرے ساتھ ساتھ رہیے۔