بلوچستان میں 25اور26اگست کی درمیانی شب میں جوہوا، اس پر آج کل بہت بحث ہو رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کی صورتحال اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ ہم بلوچستان پر اپنی پالیسی کی سمت درست کریں۔ میرے نزدیک پہلی بات یہ ہے کہ ہم طے کریں کہ بلوچستان میں ہتھیار بند عناصر ناراض بلوچ ہیں یا وہ دہشت گرد ہیں۔ جب تک ہم یہ طے نہیں کریں گے تب تک پالیسی کی سمت درست نہیں ہو سکتی۔
ہمارے کچھ دوستوں کا اصرار ہے کہ ان کو ناراض بلوچ کے سیاسی نام سے لکھا اور پکارا جائے۔ ان کے بقول یہ باغی لوگ ریاست سے ناراض ہیں ان کو منانے کے لیے ریاست کو کوئی پالیسی اور حکمت عملی بنانی چاہیے۔ لیکن دوسری طرف یہ استدلال اور نقطہ نظر ہے کہ ماضی میںان ہتھیار بند باغیوں کو منانے کی جتنی بھی پالیسیاں بنائی گئی ہیں ان کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔
بلکہ ریاست کو اپنی نرم پالیسیوں کا سخت نقصان ہوا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب جب ریاست نے آئین وقانون کو نظر انداز کر کے عسکریت پسندوں سے بات کی ہیریاست کی رٹ کمزور ہوئی ہے اور عسکریت پسند مضبوط ہوئے ہیں۔ وہ اس بات چیت کی آڑ میں خود کو مضبوط اور منظم کرتے ہیں اور پھر دہشتگردانہ حملے کرتے ہیں۔
سب سے پہلے سمجھیںکہ بلوچ عسکری تنظیمیں کیا مانگ رہی ہیں؟ یہ بلوچ عوام کے حقوق نہیں مانگ رہیں۔ ان کا چارٹر آف ڈیمانڈ علیحدگی ہے۔ یہ ایک الگ آزاد اور خود مختار مملکت مانگ رہی ہیںاور اس کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اب کیا ریاست پاکستان کسی علیحدگی پسند گروپ یا فرد سے اس مطالبے پر بات کر سکتی ہے کیا کسی ایسی تنظیم یا فرد سے بات ہو سکتی ہے جو خدانخواستہ ملک کو توڑنے کی سازش میں شریک ہے۔
ایسی کسی تنظیم سے کیسے بات ہو سکتی ہے جس نے خود ساختہ ایک الگ ملک کا نقشہ ترانہ اور جھنڈا بنایا ہو۔ جو آئین پاکستان کو نہ مانتا ہو۔ اس لیے پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ نہ تو ایسے باغی عناصرنہ ناراض بلوچ ہیں نہ ان کے مطالبات آئین پاکستان کے دائرہ کار کے اندر ہیں اور نہ یہ بلوچ عوام کے بنیادی حقوق مثلا مفت تعلیم انفرااسٹرکچر کی تعمیر سرکاری نوکریاں وغیرہ مانگ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کو توڑنے کے لیے کام کر رہے ہیںلہذا ہم جب بھی ان سے مذاکرات کرتے ہیں، دراصل ان کی مدد کرتے ہیں، ان کو زندگی دیتے ہیں۔
بھارت نے مشرقی پاکستان میں یہی کھیل کھیلا تھا۔ وہاں مکتی باہنی کے نام سے عسکری تنظیم بنائی گئی، ان کو ٹریننگ دی گئی اور پھر ان کو پاک فوج کے ساتھ لڑایا گیا۔اس تمام تر ٹریننگ اور مدد کے باوجود پاک فوج نے مکتی باہنی کو شکست دے دی تھی۔ جس کے بعد بھارت کی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں اور انھوں نے مشرقی پاکستان کو الگ کیا۔ بلوچستان میں عسکری تنظیموں کو بھی مکتی باہنی کے ڈیزائن پر ہی کھڑاکیا گیا ہے۔ مکتی باہنی بھی پاکستان توڑنے کے لیے بنائی گئی تھی، آج یہ عسکری تنظیمیں بھی اسی مشن پر ہیں۔ میری رائے میںانھیں ملک دشمن تنظیموں کے طور پرہی دیکھنا ہوگا۔
میں سمجھتا ہوں ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ دوبارہ کوئی سانحہ مشرقی پاکستان نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے ملک میں کسی نئی مکتی باہنی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ملک میں کسی نئے مجیب الرحمان کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ ریاست کو ہرحال میں اپنی رٹ قائم رکھنی ہے۔ اس ضمن میں نرمی پاکستان کی وحدت کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔
میری رائے میں پر امن بلوچستان کے نام سے عسکریت پسندوں کو سرنڈر کروانے کا جو پروگرا م شروع کیا گیا تھا اس کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ یہ لوگ جب ہارنے لگتے ہیں تو ان میں سے چند لوگ سرنڈر کرتے ہیں، واپس گھر آتے ہیں۔ اور پھر دوبارہ پرانا کام شروع کر دیتے ہیں، اس لیے جو بھی پکڑا جائے اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ یہی پاکستان کے آئین وقانون کا تقاضا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت قائم ہے لیکن اس جمہوریت میں ملک توڑنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان دہشت گردوں کا سیاسی مقدمہ لڑنے والے بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں جتنے بڑے دہشت گرد ہیں۔ ان دہشت گردوں کے لیے ہمدردی پیدا کرنے والے بھی ان کے ساتھی ہی سمجھے جانے چاہئیں کیونکہ یہ قوم اور ریاست کو کنفیوز کر رہے ہیں۔ یہبعض نام نہاد سیاستدان ایسے بھی ہیں جن کا ایک بھائی فراری کیمپ چلا رہا ہے اور دوسرا بھائی ان کی سیاسی مدد کر رہا ہے لیکن ایجنڈا ایک ہی ہے۔ عسکریت پسند ریاست کو باہر سے اور ان کے ہمدرد سیاستدان اور اہل قلم ریاست کو اندر سے کمزور رکر رہے ہیں۔ دونوں ایک ہی کام کر رہے ہیں اور ہم ان کے ٹریپ میں آجاتے ہیں۔
میری رائے میں جیسے دہشت گردی کرنے والے مجرم ہیں، ان کی حمایت کرنے والے بھی اسی کیٹیگری میں شامل ہیں۔ آپ مکتی باہنی اور شیخ مجیب الرحمان کے اتحاد کو سمجھیں۔ شیخ مجیب ان کا سیاسی مقدمہ لڑتا تھا اور وہ عسکری لڑائی لڑتے تھے، دونوں ایک تھے۔ اس لیے ہمیں ان کے سیاسی ساتھیوں کو بھی پہچاننا ہے۔ ان کو بار بار موقع دیا گیا ہے لیکن انھوں نے ہر بار پاکستان سے دھوکا کیا ہے۔
دہشت گرداتنے مضبوط نہیں ہیں کہ ریاست سے لڑ سکیں۔ لیکن اگر ہم نے 1971کی طرز پر کوتاہی کی تو پھر یہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔ ان کے خلاف ایک موثر پالیسی بنانا ہوگی۔ ابھی ان کی تعداد کم ہے لیکن یہ بڑھ رہے ہیں۔ ان کو مزید وقت دیا گیا تو پھر یہ ریاست سے مضبوط ہو جائیں گے۔ جو آئین پاکستان کو نہیں مانتا اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے اس کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔
اب تو مسنگ پرسنز کا ایشو بھی خاصا ایکسپوز ہو گیا ہے۔ اب تو قوم کے سامنے آگیا ہے کہ جو لوگ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں، ان کی بھی مسنگ پرسن کی ایف آئی آر کٹوا دی جاتی ہے۔ ان کو مسنگ قرار دیکر ریاست پر مقدمہ کر دیا جاتا ہے۔ 25اگست کی رات جو دہشت گرد مارے گئے ہیں، ان کے نام بھی مسنگ پرسن کی لسٹ میں شامل تھے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ریاست نے غائب کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ وہ فراری کیمپوں میں ٹریننگ کر رہے تھے۔ اسی طرح جب پاکستان نے ایرانی جارحیت کے جواب میں ایران میں دہشت گرد کیمپوں پر میزائیل مارا تو وہاں جو عسکریت پسندمارے گئے تھے۔ ان کے لواحقین بھی اسلام آباد میں مسنگ پرسن کے طور پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سوچنے والی بات ہے کہ جو دہشت گردوں کے ساتھ ہیں وہ مسنگ کیسے ہیں۔ اس لیے بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے سوچ اور پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس