سات اکتوبر سے پہلے تک دنیا میں صرف دو خطے تھے جہاں پولیو کے وائرس نے پناہ لے رکھی ہے ( پاکستان اور افغانستان )۔مگر اب غزہ بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔وہاں جولائی میں پولیو کا پہلا کیس دریافت ہوا۔اب تک متاثرین کی تعداد تین ہو چکی ہے۔دنیا نے عالمی ادارہِ صحت کی قیادت میں عشرے لگا کے اربوں ڈالر کے صرفے سے پولیو کے خلاف جو جنگ ننانوے فیصد تک جیت لی تھی۔لگتا ہے غزہ میں انسانیت کے ساتھ ساتھ پولیو کے خلاف کامیابی کو بھی اب پسپائی کا سامنا ہے۔مقبوضہ فلسطین کو پچیس برس پہلے پولیو فری خطہ قرار دیا گیا تھا۔وہاں ویکیسنیشن کا تناسب اٹھانوے فیصد بتایا گیا تھا مگر اب پولیو کو غزہ کے تباہ حال سیوریج نظام میں ایک نیا گھر مل گیا ہے۔
عالمی ادارہِ صحت کئی ہفتے جنگ بندی کے لیے گڑگڑاتا رہا تاکہ غزہ میں پانچ برس کی عمر تک کے لگ بھگ ساڑھے چھ لاکھ بچوں کی ہنگامی ویکسینیشن شروع ہو سکے ۔ عالمی ادارہِ صحت نے خبردار کیا کہ تساہل کی صورت میں معاملہ صرف غزہ تک نہیں رکے گا۔اگر وائرس کو کھلی چھوٹ مل گئی تو پھر اسرائیل سمیت اردگرد کے ممالک بھی یقینا اس کی زد میں آئیں گے۔
عالمی ادارہِ صحت نے اب تک تین لاکھ خوراکیں کسی نہ کسی طور غزہ میں پہنچا دیں۔ غزہ کی تقریبا نصف آبادی ( دس لاکھ ) کو ویکسینشن کی ضرورت ہے۔ان میں وہ پچاس ہزار نوزائیدہ بچے بھی شامل ہیں جو سات اکتوبر کے بعد پیدا ہوئے ہیں اور ان کی ایک بار بھی ویکسینیشن نہیں ہو پائی ۔
پولیو کے وائرس کو پھلنے پھولنے کے لیے اس وقت غزہ سے بہتر جگہ ملنا ناممکن ہے۔وہاں سیوریج اور واٹر سپلائی کا نوے فیصد نظام ختم ہو چکا ہے۔ عمارتی ملبے اور گندگی کے پہاڑ بن چکے ہیں۔ملبے تلے جانے کتنے عرصے سے کتنی لاشیں دبی پڑی ہیں۔ہر دوسرے تیسرے روز غزہ کے کسی نہ کسی علاقے کی آبادی کو ایک بار پھر اسرائیلی فوج کی جانب سے انخلا کا حکم مل جاتا ہے۔
صرف اگست کے مہینے میں غزہ کے لاکھوں شہریوں کو چودہ بار اپنی جگہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کا نوے فیصد علاقہ فوجی کارروائی کے لیے کھلا ہدف قرار پایا ہے۔ساحل کے ساتھ المواسی نامی دس مربع کیلو میٹر کا چوکور علاقہ واحد محفوظ جگہ ہے جہاں اس وقت فی مربع کیلومیٹر تیس سے چالیس ہزار انسان رہنے پر مجبور ہیں۔ان کے پاس نہ خوراک ہے ، نہ پانی اور نہ ہی گندگی کی نکاسی کا نظام۔اس چھوٹے سے علاقے پر بھی حملے ہوتے رہتے ہیں۔
یوں سمجھئے کہ سات اکتوبر سے پہلے غزہ ناکہ بندی کے سبب ایک بڑا پنجرہ تھا۔ اب اس پنجرے کے اندر ہی دس گنا چھوٹا ایک اور پنجرہ بنا دیا گیا ہے۔اس میں تمام آبادی ٹھونس کے مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایسے ماحول میں جب پوری آبادی سر پر گٹھڑی اٹھائے مسلسل گیارہ ماہ سے پناہ کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہو۔پولیو کے وائرس سے تحفظ ناممکن ہے۔نہ ہی یہ حساب رکھا جا سکتا ہے کہ کس بچے کو سات اکتوبر سے پہلے کتنی بار ویکسین لگی یا بالکل نہیں لگی۔عالمی ادارہِ صحت کا اندازہ ہے کہ اب تک سیکڑوں بچے پولیو وائرس کی زد میں آ چکے ہیں مگر ان کے کیسز آنے والے مہینوں میں سامنے آئیں گے۔
عبدالرحمان نامی جس دس ماہ کے بچے کو جولائی میں پولیو کا پہلا اپاہج قرار دیا گیا ہے۔اسے سات اکتوبر سے ذرا پہلے ہی پیدا ہونے کے چند دن بعد پہلی ڈوز دی جا چکی تھی۔مگر جنگ کے نتیجے میں باقی دو ڈوز نہیں مل سکیں۔چنانچہ اب اس کی ایک ٹانگ مفلوج ہو چکی ہے۔عبدالرحمان کا خاندان اس عرصے میں جس جس جگہ پناہ کی تلاش میں رکا وہاں پہلے سے انسانوں کا اژدھام موجود تھا اور آس پاس مسلسل گندہ پانی ۔
فلسطینیوں کی مجموعی دیکھ بھال کی ذمے داری اقوامِ متحدہ کے ادارے انرا کی ہے۔مگر انرا کی سرگرمیوں کو اسرائیل نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔اس کے باوجود انرا سے جڑے مقامی رضاکار اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر جتنے بچوں تک پولیو ویکیسن کی رسائی ممکن ہو سکتی تھی ممکن بناتے رہے۔مگر یہ کوششیں آٹے میں نمک کے برابر تھیں۔کیونکہ کسی بھی جگہ پولیو ویکسینیشن کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ پانچ برس کی عمر تک کے کم ازکم نوے فیصد بچوں کی کم ازکم دو بار ویکسینیشن ہو سکے۔
گزشتہ ہفتے عالمی ادارہِ صحت نے غزہ میں پولیو ویکسینشن کا ہفتے بھر کا شیڈول جاری کیا۔مگر اسرائیل نے اس میں تعاون کرنے یا اس عرصے کے لیے جنگ روکنے سے صاف انکار کر دیا۔چنانچہ علاقے میں ویکیسن کے ذخائر پہنچائے جانے کے باوجود ویکسینیشن مہم کو ملتوی کرنا پڑا۔خطرہ تھا کہ اگر اسرائیل جنگ جاری رکھنے پر بضد رہتا تو لاکھوں ویکسینز کا ذخیرہ گوداموں میں پڑے پڑے ضایع ہو سکتا تھا۔تاہم اسرائیل نے غزہ میں لڑنے والے اپنے فوجیوں کی ویکسینیشن شروع کر دی۔
اب کہیں جا کے اسرائیل تین روز کی جنگ بندی پر آمادہ ہوا ہے۔اس دوران عالمی ادارہِ صحت، یونیسیف اور انرا سے جڑے رضاکاروں کو ساڑھے چھ لاکھ بچوں میں سے کم ازکم نوے فیصد تک پہنچنا ہے۔ان رضاکاروں کی جنگ نہ صرف پولیو بلکہ وقت کے ساتھ بھی جاری ہے۔
غزہ کے لاکھوں بچوں کو ویکسینیشن کے لیے صرف بہتر گھنٹے کی جنگی مہلت اور اپنے فوجیوں کی ویکسینیشن کو ترجیح۔( حالانکہ بالغوں کو اس ویکیسن کی ہنگامی ضرورت نہیں ہوتی )۔صرف اس سوچ سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری ریاست تہذیبی پستی کی کتنی گہری کھائی میں گر سکتی ہے۔
پستی میں گرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔دو ہزار اکیس میں جب پوری دنیا کوویڈ سے جوج رہی تھی۔ کئی ماہ کے انتظار کے بعد ویکسین آئی تو اسرائیل نے سب سے پہلے اپنے شہریوں کی ویکیسنیشن کی۔اس کے بعد مقبوضہ علاقوں کی آبادی کو ویکسینیشن کا ایک محدود کوٹہ فراہم کیا گیا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس