خواب۔۔۔تحریر محمد اظہر حفیظ


میں زندگی بھر خواب نہیں دیکھ سکا۔ میں خوابوں کی تکمیل کیلئے جاگتا رہا سو نہیں سکا۔ پھر میں نے جاگتے میں خواب دیکھنے اور لکھنے شروع کردئیے۔ میں کھنڈرات میں جاتا اور ان کو ان کے عہد میں دیکھتا یہ کیسے تھے۔ جولیاں یونیورسٹی جب آباد تھی تو کیسی تھی کٹاس راج جب آباد تھا تو کیسا تھا، موہنجوڈارو کی ڈانسنگ گرل کی ماڈل کون تھی آرٹسٹ نےکس کو دیکھ کر اس کو بنایا ہوگا۔ مونا لیزا کی پراسرار مسکراہٹ کیوں تھی اور اس کی وجہ دکھ تھی یا کچھ اور۔ ڈیوڈ کا سکلپچر بناتے ہوئے آرٹسٹ کن مراحل سے گزرا۔ یہ اتنا ملائم موم کی طرح پتھر اس نے کیسے تراشہ ۔ اس نے پتھر کی ساخت کو موم میں کیسے تبدیل کیا۔ کتنا بڑا وہ فنکار تھا۔ یہ پاکستان جب بن رہا تھا تو اتنا قتل عام کیوں ہوا تھا اب جب بن گیا ہے تو پھر قتل عام کیوں ہو رہا ہے۔ کیا پاکستان 77 سال سے بننے کے عمل سے ہی گزری جارہا ہے۔ ہمارے راہنما سیاسی ہوں یا حفاظتی ان کے پیٹ اتنے بڑے کیوں ہیں جو بھرتے ہی نہیں۔ کیا لڑنا ہماری عادت ہے پیشہ ہے یا مجبوری۔ کئی صدیوں سے ہم لڑی جارہے ہیں۔ کبھی دشمن سے اور کبھی اپنے دوستوں کو دشمن سمجھتے ہوئے۔ مجھے میرے خواب سمجھ نہیں آرہے میں کسی کو سناتا بھی نہیں ہوں بس لکھتا رہتا ہوں۔
مجھے شوق تھا کہ میں اسلامک ہسٹری پڑھوں اور جانوں کہ اسلام کیسے آیا اور چلا گیا۔ مجھے دکھ ہے کہ میں نے کیوں پڑھنا شروع کیا۔ بھلا وقت تھا جب میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات تھے ۔ اس کے بعد حکومتیں تو طول وعرض پکڑ گئیں پر کھینچا تانی شروع ہوچکی تھی اور آج تک جاری ہے۔ میرے لیے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ قابل صد احترام ہیں اور رہیں گے۔
جو ماضی، حال اور مستقبل مجھے سمجھ آیا وہ مسلمان ہی مسلمان کا دشمن ہے اور اس کو صاحب اقتدارِ نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کیلئے کسی ہندو، سکھ، عیسائی یا یہودی کی ضرورت نہیں۔ مجھے کہیں ایسا نظر نہیں آیا کہ جتنا نقصان مسلمانوں کو مسلمانوں نے پہنچایا ہے کسی اور نے پہنچایا ہو۔ اور ان کو سمجھایا بھی نہیں جا سکتا کہ جنھوں نے قرآن اور حدیث سے ھدایت حاصل نہیں کی ان کو دنیاوی کتب اور یونیورسٹیز کیا سمجھائیں اور پڑھائیں گی۔ بے شک ھدایت اللہ باری تعالیٰ کے اختیار میں ہے لیکن وہ بھی انکے لیے جو اس کی طلب رکھتے ہیں۔ میں مایوس ہرگز نہیں ہوں یقین لگائے بیٹھا ہوں اس سے جو طلب کو دیکھتے ہوئے نوازتا ہے۔ بے شک وہ سب سے بڑا اور رحم کرنے والا ہے۔ ترک ڈرامے شاید بہت اچھے ہیں پر انکا اسلامک تاریخ سے تو کوئی تعلق نہیں۔ ممکن ہے میں غلطی پر ہوں برائے مہربانی میری تصحیح کیجئے ۔
جن سے ہم لڑنا چاہتے ہیں وہ معاشی لیڈر بنتے جارہے ہیں۔ ہم قرض پر پلتے ہیں اور اپنے آپ کو طاقتور بھی گمان کرتے ہیں۔ دنیا کی تمام اہم کمپنیوں کی پوسٹوں کو دیکھئے ان پر دشمن کے وہ بچے بیٹھے ہیں جن کو ہم نے پڑھانا تھا۔ وہ ہمارے ترانے سن کر ہی پڑھ گئے۔ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں میں سلام کرنے والوں کو سلامی دیتا رہوں گا اور زندہ باد اور پائندہ باد کے نعرے بھی لگاتا رہوں گا۔ کیا سوچنا خواب دیکھنا میرے اکیلے کی ذمہ داری ہے یا یہ کام ہمارے ہر طرح کے حکمران بھی کریں گے۔ گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے سنا تھا اب دیکھنا بھی شروع کردیا ہے کوئی بھی کبھی بھی غائب ہوجاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ کام جو گدھوں والے کرتے ہیں۔ ہر کسی کو اپنے کام پر توجہ دینی ہوگی ۔ کہ وہ کر کیا رہا ہے۔ خواب دیکھنا یقیننا ایک جرم ہے اور یہ جرم مجھ سے سرزرد ہوگیا ہے۔ اللہ کی قسم یہ خواب میں نے جاگتے میں دیکھا ہے ڈرتا سویا ہی نہیں کئی برس سے کہ کہیں کوئی گستاخ خواب نہ آجائے۔ درخواست ہے صاحب اقتدار سے ایک بار کچے اور پکے کے سب ڈاکوؤں کو قرار واقعی سزا دیجئے اگر پاکستان خوشحال، پرامن اور پُرسکون نہ ہو جائے تو یہ بندہ سزا کیلئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے۔ یہ ایک پاکستانی کا آخری خواب اور خواہش ہے۔ پورا کر دیجئے یا سزا دے دیجئے ۔ مرضی دنیاوی مالکوں کی ہے ۔ لیکن یہ بھی یاد ضرور رکھیۓ ۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہم سب کا مالک ہے ۔