اگر چند ماہ قبل ہوئے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے اور ان کا اطلاق اسمبلی انتخابات پر کیا جائے،، تو نیشنل کانفرنس کو 90 میں سے 34 اسمبلی حلقوں میں برتری حاصل ہوگئی تھی ۔ حالانکہ اس نے جموں میں پونچھ ، راجوری کو چھوڑ کر دیگر جگہوں پر امیدوار کھڑے نہیں کئے تھے اور ہندو بیلٹ کا میدان کانگریس کیلئے چھوڑا تھا۔ پی ڈی پی کو صرف پانچ سیٹوں پر ہی برتری حاصل تھی۔ سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس کو صرف ایک سیٹ پر برتری حاصل تھی۔ انجینئر رشیدکی عوامی اتحاد پارٹی ، جس نے عمر عبداللہ اور سجاد لون کو شکست دی نے ایک ہی پارلیمانی نشست سے انتخاب لڑا، مگر 14 اسمبلی حلقو ں میں برتری حاصل کی۔بی جے پی کو 29 اسمبلی حلقوں میں اور کانگریس کو سات نشستوں پر برتری حاصل تھی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے پارلیمانی انتخابات کے نتائج اسمبلی انتخابات پر اثر انداز ہوں۔ چونکہ کشمیر میں پولنگ ہی کم ہوئی تھی، اس لئے 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں جموں کے ہندو بیلٹ کو سویپ کرتے ہوئے بی جے پی کو46.67 فیصد ووٹ ملے تھے، مگر چند ماہ قبل ہوئے انتخابات میں یہ کم ہو کر 24 فیصد ہی ریکارڈ کئے گئے۔اس کا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ اگر کانگریس ہندو بیلٹ میں اچھی مہم چلائے گی، تو بی جے پی کا پتہ صاف ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کی حکمت عملی ہے کہ وہ جموں کے روایتی ہندو ووٹ بینک میں کلین سویپ کرے اور مسلم اکثریتی جموں کے علاقوں، راجوری اورپونچھ میں قدم جمائے، جہاں اس نے پہاڑی زبان بولنے والوں کو خصوصی مراعات دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد کسی طرح سے منتخب ہونے والی اسمبلی سے اگست 2019 میں لئے گئے اقدامات کی توثیق کرانا ہے۔ جس نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن کو ختم کر دیا تھا اور سابقہ ریاست کو دو وفاق کے زیر انتظام علاقوں بشمول لداخ میں بغیر اسمبلی کے تقسیم کر دیا تھا۔ چونکہ پارٹی کو معلوم ہے کہ وادی کشمیر میں اس کی دال گلنے والی نہیں ہے، اس لئے چالاکی کے ساتھ اس نے وہاں تین پارٹیوں اپنی پارٹی، پیپلز کانفرنس اور سابق وزیر اعلی غلام نبی آزاد کی پارٹی کو میدان میں اتارا، تاکہ ا ن کہ وجہ سے یا تو کشمیر ی ووٹ تقسیم ہو یا اگر وہ چند سیٹین لانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں، تو یہ تعداد بی جے پی کے کھاتے میں جائینگی۔ مگر پارلیمانی انتخابات نے ان پارٹیوں کو بری طرح شکست دی۔ اس قدر کی ان کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ افسر شاہی کو ہوش آگیا کہ جموں میں اسمبلی کمپلیکس کی تعمیر کا کام کئی برسوں سے رکا ہوا ہے۔ اس پر کام 2010 میں شروع ہوا تھا۔ اس پر72 کروڑ روپیہ خرچ ہو چکا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ مزید 134 کروڑ روپیہ درکار ہے۔ خیر ایک اہم سوال یہ ہوگا کہ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں خطے میں حقیقی امن قائم ہو سکے گا؟ ویسے تو مودی حکومت بغلیں بجا رہی ہے کہ اس نے کشمیر میں پچھلے پانچ سال میں امن قائم کیا ہوا ہے۔ مگر یہ قبرستان کی خاموشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ زمینی سطح پر لوگ ایک طرح کے حبس کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کو امید ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں شاید کچھ آکسیجن بحال ہو جائیگی، تا کہ وہ چند سانسیں لے سکیں۔ جموں و کشمیر کے بیس اضلاع میں 14 کے قریب ڈپٹی کمشنر یا ڈی ایم غیر مقامی ہیں۔ انتخابات کے بعد کم از کم انتظامیہ کے چہرے مقامی ہونے کی امید ہے۔ اس خطے کی دس لاکھ سے زائد آبادی کو نوکریاں ملنے یا پاسپورٹ وغیرہ ملنے میں دشواریاں ہیں۔ کیونکہ اگر دور کا رشتہ دار بھی کسی ممنوعہ تنظیم یا عسکری گروپ کے ساتھ وابستہ ہو، تو پاسپورٹ یا نوکری کیلئے سکیورٹی کلیرنس ملنا ناممکن ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا منتخب انتظامیہ لوگوں کے حقوق، فلاح و بہبود اور عوامی شراکت پر پالیسی کو دوبارہ مرکوز کرکے سابق ریاست کے لوگوں کی بیگانگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرے گی؟ یہ تبھی ممکن ہوگا جب اس نئی انتظامیہ کو عوامی امیدوں و امنگوں کے مطابق کام کاج کرنے دیا جائیگا۔ دوسری طرف گو کہ سابق ریاست کے ایک خطے لداخ میں انتخابات نہیں ہوں گے کیونکہ یہ اب ایک الگ بغیر اسمبلی کے مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے۔ وزارت داخلہ نے حال ہی میں اس خطے میں پانچ اضلاع کا اضافہ کرکے دو لاکھ ستر ہزار کی آبادی کیلئے سات اضلاع بنائے ہیں۔ یعنی 39ہزار افراد پر ایک ضلع۔۔لیہہ اور کرگل کے علاوہ دیگر اضلاع زنسکار، دراس، شام وادی، نوبرہ اور چانگ تھانگ ہونگے۔ اس علاقے میں بھی سول سوسائٹی کے گروپوں نے پہاڑی کونسلوں کے انتظامی اختیارات کی بحالی اور ایک منتخب انتظامیہ کا مطالبہ کیا ہے۔مگر ان کے لئے لگتا ہے شاید ابھی دلی دورہے۔ اگرچہ اس خطے میں آبادیاتی تبدیلی کا امکان نہیں ہے، اب وہاں صرف دو مسلم اکثریتی اضلاع اور پانچ بدھ مت اکثریتی اضلاع ہوں گے۔شام ایک پٹی ہے جو لیہہ کی طرف کرگل کی طرف واقع ہے۔ اس میں ساسپول، الچی، ہیمسشکپچن، گیرا منگو، اولی ٹوکپو، نورلا، تار ہپٹی، تیا تیمیسگام، خلتسے، سکنڈیانگ، لامایورو، وانلا، فوٹوکسار، کانجی، اسکوبوچن، ڈومکھر، ہنو، اچیناتھنگ اور بائیما شامل ہوں گے۔ چناگتھانگ اب لداخ کا سب سے بڑا ضلع بننے جا رہا ہے۔ دراس سب سے چھوٹے اضلاع میں سے ایک ہوگا۔ “لیہہ کے لیے منتخب خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل 1995 میں قائم کی گئی تھی۔ کرگل کے لیے منتخب خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل 2003 میں قائم کی گئی تھی،” کانگریس کے ترجمان جیرام رمیش نے ٹوئٹر پر لکھا۔ لیہہ اور کارگل کے علاوہ لداخ میں اب 5 نئے اضلاع بنائے گئے ہیں۔ کیا 5 نئے اضلاع میں سے ہر ایک کے لیے خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسلیں بھی منتخب کی جائیں گی؟ فی الحال، دو موجودہ منتخب خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسلوں کے پاس لداخ کو مختص کردہ کل اخراجات کے 10فیصد سے کم پر کنٹرول ہے، باقی 90فی صد لیفٹنٹ گورنر اور بیوروکریسی کے کنٹرول میں ہے۔ مقامی لیڈر سجاد کرگیلی ، نے ایک ٹویٹ میں کہا نئے اضلاع کی تشکیل تبھی فائدہ مند ہو سکتی ہے اگر اس کے ساتھ اسمبلی کے قیام اور مزید جمہوری عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ اس کے بغیر لداخ میں جمہوری طرز حکمرانی کو بڑھانے کے بجائے نوکر شاہی کی تہوں کو جوڑنے کا خطرہ ہے۔ ایک کارکن اور رہائشی ناصر حسین نے ٹویٹر پر لکھا، “ایک بار پھر مودی حکومت نے کارگل کے مسلم اکثریتی لوگوں کے خلاف اپنی دشمنی ثابت کر دی ہے اور لداخ کے اتحاد کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے، ایک فرقے کو سہولت فراہم کر کے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
بشکریہ روزنامہ 92