2014 ء سے سی پیک نے ملک کو چار چاند لگانے تھے، آنیوالے دس سال ہلکان کرگئے۔ بھارتی امریکی سرپرستی میں بلوچستان کی حالیہ دہشت گردی CPEC پر تیزی سے عملدرآمد کا شاخسانہ ہے۔ کاش! بھارت کو بھارت میں منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔ تب سے رٹ، ’’سیاسی بحران جس محنت و مشقت سے پیدا کیا جا رہا ہے، ملک پٹری سے اُتر جائیگا‘‘۔ یوں تو وطنی سیاست دہائیوں سے کُلی یا جزوی اسٹیبلشمنٹ کے قبضہ میں ، جنرل باجوہ کے چھ سال، بغیر مارشل لا اسٹیبلشمنٹ اقتدار پر کُلی قابض رہی۔ آج ریاست گھمبیر بحران کی لپیٹ میں، گھنگور گھٹائیں ہلکان رکھنے کیلئے تُلی کھڑی ہیں۔ بنگلہ دیش سے شکست کا بھی سیاسی بحران سے گہرا تعلق کہ فیصلہ سازوں کی بے تدبیری باور کرانی ہے ۔ بقول شخصے ’’پنجاب کو بہترین طریقہ سے چلانے والا، بھلا کیسے ممکن کہ کرکٹ ورلڈ کپ نہ جتوا سکے یا پھر بلوچستان میں پھیلی دہشتگردی نہ مُکا سکے‘‘۔ حسن اتفاق کہ ورلڈ کپ (1992)، T20ورلڈکپ ( 2009)، چیمپئن ٹرافی ( 2017) کی جیت اسلئے کہ قدرے مستحکم حکومتیں قائم تھیں ۔ عمران خان اور شہباز شریف کی حکومتوں میں مشترک ، دونوں ہائی برڈ نظام کے تحت بنائی اور چلائی گئیں ۔ محسن نقوی صاحب سے میرا ذاتی تعلق اور احترام کا رشتہ ہے، بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب کارکردگی کی دھاک بٹھائی، کیا ضروری تھا کہ نقوی صاحب کو عشق اور کام دونوں میں ناکام دکھانا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کو سہولت کہ سیاسی حکمت عملی کے بناؤ بگاڑ پر بحث کا نظام موجود نہیں ہے ۔ سیاسی بحران کے ناپ تول کا پیمانہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس کبھی تھا اور نہ ہی کبھی موجود ہوگا ۔چند زیرک ذہین فطین طاقت کے بل بوتے پر فیصلے نافذ کرنا اپنی ذہانت کی معراج سمجھتے ہیں۔ اگر ناکامی کی صورت، ملکی سالمیت داؤ پر رہتی ہے۔ ملک جس سیاسی بحران میں دھنسا ہے، ایسے مخلص دوستوں کی فیصلہ سازی کا ہی تو نتیجہ ہے۔ شہباز شریف بمع نابغہ روزگاروں کی خام خیالی یا خود فریبی کہ ملکی سیاسی بحران کا حل اقتصادی استحکام میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہمیشہ عرض کیا کہ سیاسی استحکام ہی وطنی بحران سے نبٹ پائے گا ۔ 3 سال پہلے ملک کی سب سے بڑی نمایاں سیاسی جماعت ، آج سیاسی گنتی سے باہر ہے۔ میاں نوازشریف صاحب خاموش شاید اس لئے کہ کہنے کرنے کو کچھ ہے نہیں۔ حکومت میں موجود، مین اسٹریم میڈیا، سوشل میڈیا پر ’’اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عمران خان‘‘، دونوں کی خوبیاں اور خامیاں میڈیا کا واحد موضوع ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کی سیاست اپنی قیادت کی دونمبری کی بھینٹ چڑھ چکی ہے، اپنے ورکرز سپورٹرز کو مطمئن کرنے کیلئے جھوٹ شعار بناچکے ہیں۔ نومبر 2021ء سے عمران خان کی حکومت گرانے پر جب چہ میگوئیاں شروع ہوئیں تو ن لیگ کو تباہی سے بچانے کیلئے ہر سطح پر رسائی لی، گریہ زاری کہ اپنا بیانیہ عمران خان کو نہ دو، مگر بے سُود ۔جواب !’’ملک ڈوب رہا ہے ، اسے بچانا ہے‘‘۔ آجکل رٹ کہ ’’ہم نے ملک بچانے کیلئے سیاسی قیمت ادا کی ہے‘‘، پوچھنا بنتا ہے! ’’یا ملک بچا لیا یا مزید پھنسا دیا؟ سچ اتنا، ’’کیسز ختم کرانا، ذاتی مفادات پروان چڑھانے کو پاکستان بچانا سمجھ بیٹھے تھے‘‘۔ اس سے پہلے 20اکتوبر 2020ء کو اسٹیبلشمنٹ کے اشارہ اَبرو پر ہی تو عمران مخالف تحریک شروع کی تھی۔ نواز شریف کو کریڈٹ کہ تقریر کرکے 11 پارٹیوں اور باجوہ پلان کو گوجرانوالہ میں تلپٹ کر دیا ۔ بد قسمتی کہ عمران خان کی سیاست 2014ء ہی سے انتشار، افراتفری، اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ، امریکی مدد میسر کہ سی پیک کو سبوتاژ کرنا تھا، پروان چڑھی۔ تب سے چل سُو چل ، 2018ء میں عمران خان کو اقتدار ملا تو عملاً اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں تھی۔ بلاشبہ عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد عمل دخل دوگنا ہو گیا ۔ اب جبکہ ملک عملاً اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول اور رحم و کرم پر ،جنرل عاصم منیر کسی طور ذمہ دار نہیں ہیں ۔ کاش ! عمران خان اس جنم میں ایک سچ بول جائیں ، قاضی فائز عیسیٰ ( 5 سال ) اور جنرل عاصم منیر ( 4 ماہ ) کے چیف بننے سے پہلے ان پر گالم گلوچ کی بوچھار کیوں کی ؟ عمران خان کے سیاسی جنم تا سیاسی عفریت بننا ، کُلی ذمہ دار جنرل باجوہ گینگ تھا ، جنرل عاصم ناحق گنجلک میں پھنس گئے۔ اگر جنرل عاصم منیر باجوہ عمران گیم پلان پنپنے دیتا تو پاکستان کا خاتمہ بالخیر ہو چکا ہوتا۔ نامساعد حالات میں پاکستان اپنی سالمیت کی جنگ لڑنے کے قابل ہی اسلئے ہوا کہ افواج پاکستان سازش کے سامنے سیسہ پلائی دیواربن کر کھڑی ہے۔ ملک اور فوج کو بچانے کیلئے عمران خان سیاست کو ٹھکانے لگانا ، ملکی مفاد میں، قومی خدمت ہے ۔ عمران خان کا گیم پلان ، عوام الناس کو اسٹیبلشمنٹ مدِمقابل لا کر انارکی کی راہ ہموار کرنا تھا ،بُری طرح ناکام رہے۔ قابل رحم ! عوام الناس کو بھڑکانے، اُکسانے، سڑکوں پر لانے میں شاندار ناکامی ،سر پھوڑنے کیلئے مولانا فضل الرحمن کا آستان ڈھونڈ لیا ہے ۔وطنِ عزیز جس سنگین سیاسی بحران میں پھنسا ہے، ساری سیاسی جماعتیں بشمول نواز شریف، عمران خان، فوجی قیادت، سپریم کورٹ سب مل بھی جائیں تو مملکت کو بچانا جوئے شیر لانا ہے۔ اگر وطنی سیاست پر عمران خان کی گرفت مضبوط ہے تو یہ تحفہ باجوہ اسٹیبلشمنٹ نے بنفس نفیس دیا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی ناقص سیاست عملی پر تعجب نہیں کہ 70سال سے غیر سیاسی حکمت عملی کا غیرمعمولی تجربہ ہے ۔ پچھلے تین سال عمران خان کو نیچا دکھانے کیلئے جتنے جتن کئے، عمران خان سیاست کو جلا ملی۔ عمران خان کی سیاسی سپورٹ کا گراف نومبر 2021ء سے لیکر اگست 2024ء اوپر کیسے؟ کیا 2021ء کا زیرو نے کشمیر فتح کر لیا کہ 2024 ء کا ہیرو بن چکا ہے ۔ جن لوگوں نے سیاسی حکمت عملی ترتیب دی، ان سے یہ کام واپس لیکر سیاسی سوجھ بوجھ سے فیصلے ہوں۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے اوپر آجائے، تدبر اور تدبیر سے بھرپور مربوط سیاسی حکمت عملی واحد توڑ ہے ۔ عمران خان کا جھوٹ اور فریب ، آیات مقدسہ ( GOSPEL ) کا درجہ اختیار کر چکے ہیں ۔ عمران خان کا جھوٹ، سچ مانا جاتا ہے جبکہ مقتدرہ کا سچ اسکے جھوٹ کے آگے دم توڑ جاتا ہے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ سیاست میں اپنی کم مائیگی کا تعین کر پائیگی ؟ اپنی سیاسی حکمت عملی میں فہم سوجھ بوجھ کا اضافہ کرے گی ۔ ہمیشہ رہنمااصول ایک ہی ، سیاسی بحران کا واحد حل ، مدبرانہ سیاسی حکمت عملی ہی ہے۔ حکمت عملی وہی کامیاب جسکو عوام الناس من وعن قبول کریں اور اسکو پذیرائی ملے۔ عاجزانہ درخواست !وقتی طور پر اپنی ناکام ترجیحات کو دوسرے درجہ پر لا کر، ملک بچانے کیلئے مدبرانہ حکمت عملی وقت کی واحد ضرورت، وگرنہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ