صوبوں میں نفرتیں کون بڑھا رہا ہے : تحریر کشور ناہید


بچپن میں اماں ابا فلم دکھانے لے جاتے۔ میں دیکھتی کہ اسکرین کے ایک طرف سے ہیرو نکل جاتا ہے۔ دوسری طرف سے ہیروئن۔ فلم کے بعد میں ضد کرکے اسکرین کے پیچھے، ہیرو، ہیروئن کو ڈھونڈنے جاتی، نہ ملتے تو امی سے لڑتی تھی۔ اب 80برس بعد ٹی وی اسکرین پر ایک طرف سے نکلتے ہوئے وزیراعظم دوسری طرف سےبلاول بھٹو۔ پردہ بدلتا ہے اسکرین پر دونوں ہاتھ ملا کر ڈنر ٹیبل پر اپنے ہم نواؤں کیساتھ خوش گپیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سین ہر ایک ماہ کے بعد نظر آتا ہے۔ پرنالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ اب تو چیف صاحب بھی پندرہ دن میں تین مرتبہ، نوجوانوں اور مولویوں سے یکساں خطاب کر رہے ہیں۔ نوجوانوں سے کہہ رہے تھے کہ اختراع سنجیدگی اور علمیت کی طرف توجہ دو، ورنہ زمانےمیں سب سے پیچھے رہ جاؤ گے۔ یہ بھی اسلئے کہا کہ پاکستان میں 114 علمی اداروں کا آگے بڑھنے کے لیے امتحان لیا گیا۔ اور وہ سب کے سب فیل ہو گئے۔ شہباز شریف صاحب جب بھی حکومت میں آتے ہیں تو لیپ ٹاپ، ٹیلیفون، الیکٹرک بائیک یا موٹر سائیکل تقسیم کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک کام ہوتا ہے جسکو فیڈ بیک کہتے ہیں۔ یہ تو حکومتوں نے سیکھا ہی نہیں۔ اسلئے کوئی بیرون ملک سے تجزیہ کرنے آئے تو نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ میں سندھ کا دورہ کر رہی تھی۔ ڈاکٹر دتل کلہوڑ اسکولوں اور تعلیم بالغان مراکز میں جاتے پھر ہنس کر بتاتے، یہاں تو نقل کرکے امتحان میں پاس ہونا عام بات ہے۔ اسلئے تو جعلی سندیں خوب کام دکھاتی ہیں۔ اس طرح ملک بھر میں بیشمار ایم اے اور بی اے پاس ملیں گے جو دفتری بابو کی نوکری وزیروں کی سفارش پر مانگتے ہیں اور بہت سوں کو مل بھی جاتی ہیں۔ 77سال میں ہم نے دیکھا کہ سارے سیاست میں اترنے والے پہلوان، فیتے کاٹتے، لکھی ہوئی تقریر کرتے، دوسرے ملکوں کی سیر کرتے خاندان کے دن سنوارتے، اگلے الیکشن یا اگلی پارٹی میں شامل ہونے کی تیاری پکڑتے ہیں، موروثی سیاست چلاتے ہیں۔ آپ دیکھیں میاں چنوں کے نوجوان کی طرح ہنزہ کا جوان بھی کامیاب ہوا۔ ہنزہ والے اور چار مسیحی لڑکیوں نے جو تمغے لئے، ان کی تصویریں تو اخبار میں آئیں مگر میاں چنوں والے پہ لاکھوں نچھاور کئے گئے، اس طرح آرمی اسکولوں ایچی سن کالجوں کے بچے، بہت پیسے دیکر پڑھنے کے لئے ڈرائیوروں کے ساتھ جاتے ہیں مگر صوبے بھر میں اول تین کلومیٹر پیدل اسکول جانے والا بچہ ہی ہوتا ہے۔ساری دنیا نے دیکھا ہوگا کہ ہالینڈ کا وزیراعظم 14سال بعد اس عہدے سے ریٹائر ہوکر اپنی سائیکل پر گھر گیا تھا۔ اپنی عزت کو اور بڑھانے کے لئے نیٹو کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر بلامقابلہ منتخب ہوگئے ہیں۔ مگر ہمارےوزیراعظم صاحب کے دل کو تو ہم نے گزشتہ تیس برس میں عام انسان کی طرح زندگی کا لطف لیتے ہوئے دیکھا ہے کہ ’’دل تو بچہ ہے‘‘۔ اور کام بھی بہت کرتے ہیں۔ مگر پتہ نہیں ہر کام بے برکت نکل رہا ہے۔پاکستان میں سیاسی تربیت کے لئے ادارے بھی بنائے گئے ہیں قومی اسمبلی میں خواتین ممبران کے لئے کاکس بنایا گیا ہے مگر سڑک پر مظاہرہ کرنے کے لئے یا تو جماعت اسلامی کی خواتین یا چند ایکٹوسٹ ہی ہیں۔دوسری طرف ا میرزادے عام بچوں اور بوڑھوں کو کچل دینے پر، اگر گرفتار ہوں تو بہانہ ہوتا ہے۔ ’’اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے‘‘۔

پاکستان میں سیاست کے بہت سے زاویئے دیکھے ہیں، مگر جب ہر مرتبے اور اعزاز کو خطِ مستقیم پر نہ چلایاجائے، منہ کھلتے اور زبانیں چلتی ہیں، پاکستان میں ہر قدم خطا کار ہوتا ہے۔ ملنا ہے مولانا صاحب نے اور جا رہے ہیں صدرِ مملکت ان کے پاس۔ معلوم ہے بہت زمانے سے قرابت ہے۔ مولانا صاحب اور چیف صاحب کو یاد دلاؤں جو حضرت عروہ، 20سال تک یمن کے حاکم رہے تھے۔ واپس جاتے ہوئے لوگوں کو مخاطب کرکے کہا تھا ’’گواہ رہنا۔ میں تین چیزوں کے ساتھ آیا تھا۔ قرآن پاک، نیزہ اور سواری‘‘۔ اسی کے ساتھ واپس جارہا ہوں‘‘۔

پرانے قصے میری ماں سناتی تھی۔ وہ صرف قرآن پڑھی ہوئی تھی۔ مگر ہمیں حدیثیں پڑھ کر سناتی جو آج بھی یاد آجاتی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کی تو توجہ، ٹیلیفون اور سوشل میڈیا کی طرف ہی ہے۔گزشتہ تیس سال سے میڈیا پر بھی جو کچھ آتا رہا ہے۔ اس میں نہ فکر و فلسفہ ہے نہ تعلیم، نہ نوجوانوں کی شعوری پرورش کی ترویج۔ شام 7بجے سے رات بارہ بجے تک، سیاسی مغبچے اور ہمیشہ سے آنے والے وہی پرانے پروگرام پیش کرنے والے یا پارٹیوں کے بازی گر ۔ اب ہر طرف سے شورہے کہ یہ مشق ِ سیاسی چسکہ بازی بہت ہوگئی۔ عورتوں کے نام پر بھی فیشن اور نوجوان رہنے کے لئے کریمیں، کھانوں میں بھی ہر روز مرغی یا برگر، بہت پیسے کما لئے تاجروں نے، بہت نوجوانوں کے بے ہودہ کرتب اور جادوگری دکھا دی اور سب سے تکلیف دہ مزاح نام کے پروگراموں میں بلاضرورت منہ پھاڑ کے ہنستے نوجوان لڑکے لڑکیاں۔ دنیا بھر میں آج کی مہنگائی ختم کرنے کے لئے کپڑوں سے سبزیوں تک کو بچت کے ساتھ استعمال کرنے اور شادیوں کے کپڑے کرائے پر لینے کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں۔ بچوں کو صرف ’’پاؤڈر کا دودھ‘‘ مت پلائیں۔ اسےاپنے ہاتھ سے کھانا اور کام کرتادکھائیں۔ اگر آپ خود ایسے پروگرام نہیں بناسکتے تو غیر ملکی چینلز سے حاصل کریں۔ ہارڈ ٹاک کی طرح کے پروگرام چھٹ بھیوں کے ساتھ نہیں ان لوگوں کو بلائیں، جنہوں نے لکھنے پڑھنے اور دنیا بھر سے علم حاصل کرتے، جسم کے دو کپڑوں میں زندگی گزاری ہے۔ مذہب کے نام کے بلیک میلرز جو موٹیویشنل مقرر بن کر دولت کما رہے ہیں۔ ان لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں۔ ریٹائرڈ لوگوں سے ان کی قابلیت کے مطابق کام لیں۔ بزرگوں کے مراکز میں، جوانوں کو خدمت کرنے کا تصور خود نہیں آتا تو اسپتال میں کام کرتےآغاخانی بچوں سے سیکھ لیں۔ہم سب ان سارے پروگراموں کے جھوٹ کو سن سن کر تنگ آچکے ہیں۔ بچوں کو کارٹون کے علاوہ، دنیا میں بچے گھر صاف رکھنا اور ماں کے ساتھ باورچی خانے میں کام کرنا سیکھتے ہیں۔ بڑے ہوٹلوں میں آپ کی قوم کھانے نہیں کھاتی۔ ڈھابے اور سستے کھانوں کو عزت دیں۔ اب تو دالیں بھی بہت مہنگی ہیں۔ بلاول میاں! ہمیں کوئی ڈنر نہیں کھلاتا۔ پیپلز پارٹی کو زندہ درگور نہ ہونے دیں۔ تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ