پچوانہ سے پاکستان تک : تحریر سہیل وڑائچ


پچوانہ آزاد کشمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا نام ہے جو ڈڈیال کے قریب ہے وہاں کے لوگوں نے مکالمہ اور معافی کے دو زریں اصولوں کی روشنی میں ایک مثالی معاشرہ قائم کر رکھا ہے۔ گاؤں میں مختلف مذہبی اور سیاسی مکاتب فکر کے لوگ آباد ہیں جو انسان کی عظمت کے نام پر آپس میں مکالمہ کرتے ہیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگتے ہیں اور کسی دوسرے سے غلطی ہو جائے تو اسکی معافی قبول کر لیتے ہیں اس اصول کی وجہ سے نہ وہاں کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے اور نہ مار کٹائی تک کبھی نوبت پہنچتی ہے۔یہ ہے تو ایک چھوٹا سا گاؤں جو پاکستان کی طرح لفظ پ سے شروع ہوتا ہے او رانہوں نے انسانی معاشرے میں امن کا حل دو میموں یعنی مکالمے اور معافی میں تلاش کر لیا ہے کیا پاکستان پچوانہ کی مثال پر عمل نہیں کر سکتا؟ہم بھی مکالمے اور معافی کو اپنالیں تو سیاسی اور سماجی بحران کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

مسلم روایت کی تین شاندار مثالیں صلح حدیبیہ، میثاق مدینہ اور فتح مکہ ہیں۔ ممتاز دانشور اشفاق احمد نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں صلح حدیبیہ کے بارے میں کہا کہ بظاہر یہ صلح مسلمانوں کے لئے سودمند نہیں بلکہ نقصان دہ لگتی تھی مگر نتائج کے اعتبار سے اس صلح کا بہت فائدہ ہوا۔میثاق مدینہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان مکالمے اور برداشت کی بنیاد پر اکٹھے رہنے کی دستاویز تھی اس میں بھی جیو اور جینے دو کے اصول کو مدنظر رکھا گیا۔فتح مکہ دنیا کی سب سے بڑی معافی تھی جس میں قاتلوں اور سازشیوں کو پوچھا تک نہ گیا حتیٰ کہ حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ بھی معاف ہو گئی۔اگر مسلمان کفار یہودیوں اور منکرین کے ساتھ صلح صفائی اور معافی کے معاہدے کرتے رہے ہیں تو کیا اہل پاکستان ملک کی خاطر ایک دوسرے کو معاف نہیں کر سکتے مکالمے کے ذریعے اپنے مسائل کا حل نہیں نکال سکتے؟میرا خیال ہے کہ مسلم روشن روایات کو سامنے رکھیں تو مکالمے اور معافی کی بنیاد پر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ معاہدہ کسی فریق کو صلح حدیبیہ کی طرح بظاہر سودمند نہ لگے مگر آنیوالے دنوں میں اس کا فائدہ اس فریق کو زیادہ ہو گا جو دوسروں کو رعایت دیگا۔ماضی کے تجربات تو یہی بتاتے ہیں انہی تجربات سے سیکھ کر مستقبل کی بنیاد رکھنی چاہئے ۔

میں ان دنوں یورپ میں ہوں ترقی یافتہ معاشروں میں جنگ، نفرت اور لڑائی مارکٹائی کی بجائے مکالمہ اور معافی کے اصولوں کو اپنا کر نئے راستے کھولے گئے ہیں البتہ کوئی تشدد اور نفرت پر آمادہ ہو تو پھر ریاست ،عدالت اور شہری اس کو سزا دینے پر تل جاتے ہیں۔ برطانیہ میں تھوڑا عرصہ پہلے نسلی فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی تو ریاست نے فوری ایکشن لیا۔ وزیراعظم خود مساجد میں گئے اور انتہا پسند گوروںکی سخت مذمت کی۔عدالتوں نے ہر فسادی کو سزا سنائی حتیٰ کہ نفرت پر مبنی مواد کو ری ٹویٹ کرنے پر بھی سخت سزا دی گئی ایک کمسن بھی اس زد میں آیا اسےبھی نہ بخشا گیا حالانکہ برطانیہ میں 18سال سے کم عمر بچوںکو سزائیں دینے کے بارے میں بہت احتیاط کی جاتی ہے۔ اختلاف پر یہاں کوئی روک ٹوک نہیں مذہب جو بھی ہو اسے مکمل آزادی ہے مگر تشدد اور تخریب یہاں کی ریڈلائن ہے ۔پاکستان کو بھی دنیا سے سیکھنا چاہئے مکالمے اور معافی کو رواج دینے کیساتھ ساتھ تشدد کو معاشرے سے خارج کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے ریڈلائن بنایا جائے،جلسے جلوس ہوں مگر ہجوم سیاسی ہو یا مذہبی اگر وہ تشدد پر اتر ے تو اسے قرارواقعی سزا دینی چاہئے۔ میری 9مئی والے دن سے ہی یہ رائے رہی ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو 9مئی کے واقعہ میں ملوث افراد کو پارٹی سے نکال دینا چاہئے اور تشدد و تخریب کے حوالے سے معافی مانگ کر آگے چلنا چاہئے ۔ عدالتیں ملوث افراد کو سزا دیں یا چھوڑ دیں یہ کام ان پر رہنے دینا چاہئے غلطی پر اصرار سے لڑائی بڑھتی ہے اور غلطی پر معافی سے معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔

پاکستان سے دور بیٹھا کبھی کبھار خبروں پر نظر ڈالتا ہوں تو تشدد اور تخریب بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ صدر زرداری ،نواز شریف اور عمران خان تینوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اپنی اناؤں سے باہر نکل کر گفت وشنید کا سلسلہ کیوں شروع نہیں کرتے؟ عمران خان اور ان کی جماعت کے حماد اظہروں اور مراد سعیدوں کو خونی انقلاب کے خواب سے باہر نکل کر حقیقتوں کا ادراک کرنا ہوگا باہر محفوظ جگہوں پر بیٹھے یوٹیوبرز کے دباؤ پر اگر پارٹی اپنی پالیسیاں بناتی رہی تو پھر اسے کبھی سیاسی کامیابی نہ ہو گی۔ آج یہ سب سے کامیاب اور پاپولر جماعت ہے لیکن اگر انقلاب اور تشدد کا راستہ بنایا گیا تو یہ خفیہ مزاحمتی پارٹی میں تبدیل ہوتی جائے گی جو کہ کسی بھی پاپولرسیاسی جماعت کیلئے اچھا راستہ نہیں ہوتا۔

موجودہ بحران میں تحریک انصاف کی سیکنڈ لائن لیڈر شپ بے بس نظر آتی ہے ایک طرف وہ اپنے لیڈر عمران خان سے ہی خوفزدہ ہے اور شاید سچ بات اسے کہنے کا یارا نہیں کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کا جو بوتل جِن تحریک انصاف کو اٹھاتا ہے وہی جِن تحریک انصاف کے لئے صلح، امن اور مفاہمت کے راستے بند کئے بیٹھا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عمران خان کے مشورے سے جلسہ ملتوی کرنے پر سوشل میڈیا کے ان جنوں نے اپنے ہی لیڈروں کو فوجی وردیاں پہنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ سب بکے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کی سب سے متحرک بہن علیمہ خان اپنے ہی بھائی کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ گنڈا پور پر چڑھ دوڑی ہیں۔ ابھی تو روحانی مرشد بشریٰ عمران کا ردعمل دیکھنے والا ہو گا کہ وہ کس کس کو پارٹی کا غدار قرار دیتی ہیں ۔مجھے حماد اظہروں اور مراد سعیدوں کی پالیسی سے کبھی اتفاق نہیں رہا اور اسی لئے حماد اظہر صاحب اکثر مجھ ناچیز پر مہربانی فرما کر میرے خلاف ٹویٹ پر ٹویٹ کرتے رہتے ہیں جن کا میں نے کبھی جواب نہیں دیا، انہیں تاریخ کا یہ سبق یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہر انتہا پسند کو اس سے زیادہ شدت کا انتہا پسند شکست دیتا ہے۔ آپ انتہا پسندی کی روش پر چل کر چے گویرے بنے ہوئے تھے اب نئے کاسترو میدان میں آ چکے ہیں، میانہ روی اور برداشت ہی بہترین سیاست کی کنجی ہے ہر ایک کو نیچا دکھانا، مذاق اڑانا اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا زیادہ دیر نہیں چلتا۔ میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ حکومت انتہا پسندی بھی کرے تشدد کرے جیلوں میں بھی بھیج دے سزائیں بھی سنا دے تو گاندھی، جناح اور آزاد کی طرح برداشت اور تحمل سے ہی اسے شکست دی جاسکتی ہے، جوابی انتہا پسندی ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ منڈیلا نے مکالمہ اور معافی کا شعار بنا کر جنوبی افریقہ کو نسلی منافرت سے آزاد کر دیا۔ تحریک انصاف اور حکومت کیساتھ ساتھ مقتدرہ سے بھی گزارش ہے کہ مکالمے اور معافی کی بنیاد پر پاکستان کو آگے بڑھایا جائے۔ آج حکومت طاقت میں ہے مقتدرہ کا زور چل رہا ہے مگر یہ ہمیشہ نہیں رہیگا مفاہمت اور مکالمہ دائمی سیاسی اور معاشی استحکام لا سکتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ