نواب اکبر بگٹی کی برسی پر بلوچستان میں دہشت گروپوں نے بیس گھنٹے تک پورے صوبے میں دہشت گردی کی وارداتیں کی ہیں۔ دہشت گرد گروہوں نے بلوچستان کی سڑکوں پر قبضہ کیا،گاڑیوں کو تباہ کیا۔ بے گناہ لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیاگیا ہے۔ فوج اور دیگر نیم فوجی اداروں کے کیمپوں پر حملہ کیا گیا ہے۔ ریلوے کے پل تباہ کیے گئے ہیں۔ دہشت گردی کی اس کارروائی میں خواتین کو بھی خود کش بمبار کے طور پر استعمال کیا گیاہے۔ اس خونریزی ذمے داری بی ایل اے نے قبول کی ہے۔ مجید بریگیڈ کا بھی دعوی ہے کہ انھوں نے بھی اس دہشت گردی میں حصہ لیا ہے۔
ان مسلح تنظیموں کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 150سے زائد دہشت گردوں نے اس سارے آپریشن میں حصہ لیا۔ ان سب کو پاکستان کے سیکیورٹی ذرایع کے مطابق جہنم واصل کر دیا گیا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تودہشت گردوں نے بظاہر بلوچستان کا پاکستان سے زمینی اور ریل رابطہ ختم کرنے کا عملی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ریلوے کے پل توڑنے کا مطلب ہے کہ بلوچستان کا باقی پاکستان سے ریل رابطہ ختم کیا جائے۔ سڑکوں پر قبضہ کا مطلب بلوچستان کا باقی پاکستان سے زمینی رابطہ ختم کرنا ہے۔ ہوائی رابطہ تو پہلے ہی بہت محدود ہے۔ سی پیک کی شاہراں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی پیک ان کا خاص ہدف ہے۔
بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشت گردوں نے نہتے شہریوں، خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تشدد کے اندھا دھند استعمال کی یہ حکمت عملی جنگی اور انسانی حقوق کے قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ عسکری ذرایع کے مطابق دہشت گرد تنظیموں کا یہ آپریشن درحقیقت ان کی مایوسی کا مظہر ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر سے پہلے بلوچ یکجہتی کونسل نے ایک عوامی مہم شروع کی تھی۔ جس میں مسنگ پرسن کے ایشو کو مرکزی نقطہ بنایا گیا تھا۔ لیکن بلوچ یکجہتی کونسل کو سیاسی اندازمیں ہینڈل کرلیا گیا ۔ علیحدگی پسند مسلح گروہ اس مہم کی آڑ میں لاشیں اور خون خرابہ چاہتے تھے لیکن یہ انھیں نہیں مل سکیں۔ بلوچ یکجہتی کونسل کی عوامی مہم میں سرکاری اداروں نے تشدد سے اجتناب کیا اور صبر کا مظاہرہ کیا۔
اب یہ بات صاف ہے کہ جہاں جہاں عوامی مظاہرے کیے گئے، وہیں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئی ہیں۔ میری رائے میں اس پہلو پر تفتیش کی سخت ضرورت ہے۔ دہشت گرد پاکستان خصوصا بلوچستان کے عوام اور علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کے دشمن ہیں۔ ریاست اور حکومت پاکستان ایسے بزدلانہ حملوں کی وجہ سے کسی بھی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دیں گے ۔
دہشت گردوں نے معصوم اور بے گناہ پاکستانی شہریوں کو شہید کیا ہے لیکن انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار اور سول سائٹی کے جعلی نمایندے خاموش ہیں۔ ایمان مزاری، ماہ ر نگ بلوچ، سمی بلوچ وغیرہ نے بلوچستان میں دہشت گردانہ حملوں کی نہ مذمت کی ہے اور نہ معصوم اور گناہ لوگوں کے ناحق قتل عام پر افسوس کا اظہار ۔ ملک کے نام نہاد لبرل بریگیڈ کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگوں کا بھی احتساب نہیںہونا چاہیے؟ نظام عدل کو بھی ایسے لوگوں کی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرنے سے پہلے ، ان کے پس منظر ، مقاصد اور اہداف کا جائزہ لینا چاہیے کیونکہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔
ہمیں ان نام نہاد تنظیموں اور لوگوں کی جانب سے بلوچستان کے بے گناہ مقتولین کے لیے مذمت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انھوں نے پہلے بھی کبھی معصوم شہریوں کی ہلاکت کی مذمت نہیں کی۔ پنجابیوں کے قتل پر تو کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔ اب بھی پنجاب کے باشندوں کو بطورخاص نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ بی ایل اے، مجید بریگیڈ وغیرہ اور ان کی سہولت کاری کرنے والی سول تنظیمیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جیسے افغان طالبان اور ٹی پی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جب کہ ان کی حامی سیاسی پارٹیاں ان کی پراکسی ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اِس مرض کی بالکل ٹھیک نشان دہی کی تھی جب انھیں دہشت گردوں کی پراکسی کہا تھا۔ لیکن ہمارے کچھ دوست ابہام کا شکار تھے اور اب بھی ہیں۔ ان کی رائے میں وہ انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ لیکن میرا تب بھی موقف تھا کہ انسانی حقوق کے کیمپ کے اندر دہشت گردی چھپی ہوئی ہے۔ ان سے رعایت پاکستان کے لیے زہر قاتل ہے، آج وہ ثابت بھی ہو رہا ہے۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں نے اتنے بڑے آپریشن کی تیاری کی تو ہمارے انٹیلی جنس اداروں کو بروقت علم کیوں نہیں ہوا؟ ہم ان کا نیٹ ورک بروقت توڑنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے؟ لہذا س پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ پہلو عسکری قیادت کے سامنے ہوگا۔ اس کے ساتھ بلوچستان میں تعینات فوجی ، نیم فوجی دستوں اور پولیس فورس کی نہ صرف تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ ان کو جدید اسلحہ اور ٹریننگ سے لیس کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
اب خاتون خود کش بمبار ماہل کا کیس بھی ہمارے نظام انصاف اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے موجود ہے۔ ماہل بلوچ نے گزشتہ روز بطور خود کش بمبار ایک فوجی کیمپ کو نشانہ بنایا۔ 2023میں ہمارے سیکیورٹی اداروں نے اسے گرفتار کیا تھا، اس پر الزام تھا کہ وہ خودکش بمبار ہے اور اس سے خود کشن جیکٹ برآمد ہوئی ہے لیکن ہماری انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کے عہدیداروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ وہ ایک معصوم اور بے گناہ خاتون ہے۔
ان کی گرفتاری پر عالمی سطح پر مظاہروں کا بندوست بھی کیا گیا ۔ اس دباو کے باوجود سیکیورٹی ادارے اپنے موقف پر قائم تھے کہ خاتون کا تعلق دہشت گرد گروپ سے ہے اور اس سے خود کش جیکٹ بھی برآمد ہوئی ہے۔ لیکن ہمارے نظام انصاف نے انھیں باعزت بری کر دیا تھا۔ اب وہی خاتوں خود کش بمبار ثابت ہو گئی ہے۔ اب نظام انصاف کیا جواب دے گا؟ اور وہ انسانی حقوق کے علمبردار جو اس خود کش بمبارخاتون کے حق میں مہم چلا رہے تھے، وہ کیا جواب دیں گے؟ اس لیے دہشت گردوں کو انسانی حقوق کا مسئلہ بنانا، انھیں انسانی حقوق کی آڑ میں شیلٹر مہیا کرنا ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ اب فوج اور سیکیورٹی اداروں کو بلوچستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف مکمل آپریشن کرنے دینا چاہیے۔ اور اسے انسانی حقوق کا مسئلہ بنانا بند کرنا ہوگا۔ بس بہت ہو گئی۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوا، یہ محض دہشت گردی نہیں تھی بلکہ پاکستان پر ایک حملہ تھا۔ دشمن نے ہمارا ٹیسٹ کیا ہے، وہ آگے بھی حملہ کر ے گا۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس