قبلہ عطا الحق قاسمی نے عجب چونچال طبیعت پائی ہے۔ بیٹھے بٹھائے مینڈھے لڑانا کوئی ان سے سیکھے۔ عبد الشکور المعروف بہ طاہر القادری نامی ایک مرد پیر بعمر تہتر برس کینیڈا کے گوشہ عزلت میں ’ایک تکیہ بنائے اپنی اولاد کو لیے بیٹھا ہے‘۔ نہ کاہو سے دوستی، نہ کاہو سے بیر۔ ہاتف کا اشارہ ہو تو ’ریاست بچانے‘ یا ’انقلاب‘ برپا کرنے وطن مالوف کا رخ کرے، ورنہ اپنے پارہ ٔنان پر اکتفا ہے۔ ’انقلاب‘ کا پھریرا تحریک انصاف کے لڑکے بالے لے اڑے۔ جن بندگان عالی سے بیعت ہوئے تھے، ان کا اقتدار زیر و زبر ہوئے زمانے گزر گئے۔ حضرت قاسمی نے یکایک اپنی کمان میں بان جوڑ کر ایسا سوئمبر رچایا ہے کہ قادری صاحب کے متاثرین میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ عبدالحفیظ چوہدری نامی ایک مجاہد میدان میں اترے مگر حضرت قادری کی کتابوں کی فہرست گنوا کر بیٹھ رہے۔ کسی موضوع پر36جلدیں ہیں تو کسی پر بارہ اور کسی عنوان کو محض آٹھ جلدوں میں سمیٹ لیا۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’قادری صاحب، لاتعداد دانشوروں سے زیادہ پڑھے لکھے اور ان سے زیادہ حلقہ اثر رکھتے ہیں… ڈاکٹر طاہر القادری نے علم کی جتنی خدمت کی ہے اس صدی میں کوئی دوسرا ہے تو اس کا نام لیں،؟‘ صاحب ہم کاہے کو کسو کا نام لیں۔ آپ نے صدی کا تعین تو کیا ہی نہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے اس استاد کا نام البتہ معلوم ہے جو 80ء کی دہائی کے وسط میں طاہر صاحب کے ملفوظات کو انگریزی پوشاک پہنایا کرتے تھے۔ حفیظ صاحب فرماتے ہیں کہ طاہر القادری کے عربی زبان سے براہ راست انگریزی زبان میں ترجمے کو ’دنیا بھر کے انگریزی طبقات بہت سراہ رہے ہیں‘۔ صاحب کسی علمی جریدے یا اخبار میں اس تحسین و توصیف کا حوالہ دیا ہوتا۔ بندۂ ناچیز دینی امور میں درک نہیں رکھتا۔ تاریخ کا طالب علم ہے۔ طاہر القادری صاحب کی سیاست ہی پر رائے دے سکتا ہے۔
80 ء کی دہائی کا وسط تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں دائیں بازو کے حامی جب بندہ ٔ ناچیز سے عاجز آ گئے تو ایک روز اسے گاڑی میں ڈال کر ماڈل ٹاؤن طاہر القادری صاحب کے پاس لے گئے۔ انہیں خیال تھا کہ یہ ناچیز قبلہ طاہر القادری سے مذہبی بحث کرے گا۔ یہاں یہ وضو بہت پہلے ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ میں نے کاغذ پر کوئی بیس سوال لکھ رکھے تھے۔ دفتر کی وسیع و عریض میز کے ایک طرف طاہر القادری علمی شان سے بیٹھے تھے۔ دوسری طرف یہ خاکسار بیٹھ گیا۔ درویش نے پہلا سوال پوچھا۔ ’زبان تخلیق ہے یا مخلوق؟‘۔ قادری صاحب چونک گئے۔ دوسرا سوال تھا کہ ’وقت قدیم ہے یا مادہ؟‘۔ قادری صاحب کھو گئے۔ ہاتھوں کے نرت بھاؤ سے اپنے والد مرحوم کی وفات کے قصے سنانے لگے۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جن سے تحصیل جہانیاں کا کانسٹیبل عبدالحمید بھی پیر سپاہی بن جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہمارا قافلہ خالی ہاتھ واپس آ گیا۔ قبلہ کی علمی بساط مارکس، اینجلز، اسٹالن، لینن اور ماوزئے تنگ تک محدود ہے۔ تس پر مولانا مودودی، امین احسن اصلاحی اور ڈاکٹر اسرار احمد کو سطحی قرار دیتے ہیں۔ طاہر القادری انقلاب کا مفہوم ہی نہیں جانتے۔ طاہر صاحب نے اپنے والد محترم فرید الدین مرحوم کے بارے میں تقویمی حقائق کو خلط ملط کر رکھا ہے۔ کنگ جارج میڈیکل کالج اور طبیہ کالج لکھنؤ کا سند یافتہ ڈاکٹر جھنگ سے تیس میل دور ڈسپنسری میں ملازم نہیں ہوا کرتا تھا۔ مرحوم کی شاعری کے بارے میں دعوے بھی سند سے خالی ہیں۔ فانی، جوش اور فراق کا زمانہ اتنا پرانا نہیں ہوا کہ طاہر القادری کے ’صاحب طرز‘ والد کا ایک بھی شعر دستبرد زمانہ سے محفوظ نہ رہا ہو۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے 1982ء میں پاکستان ٹیلی ویژن سے علیحدگی اختیار کی تو ان کی جگہ اتفاق مسجد کے پیش امام طاہر القادری کو ٹی وی اسکرین مل گئی۔ تب نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ تھے۔ طاہر القادری پر اس خانوادے کی نوازشات ہمارا موضوع نہیں۔ 25 جنوری 1989ء کو طاہر القادری نے وہ خواب بیان کیا جو بعد ازاں خاصا متنازع ہوا۔ یہ خواب 25مئی 1989ء کو پاکستان عوامی تحریک کی تاسیس کا ابتدائی خاکہ تھا۔ طاہر القادری پر قاتلانہ حملے کے بارے میں لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک طرف رکھئے۔ مولانا احمد علی قصور ی، حفیظ تائب اور منیر القادری بھی طاہر القادری کی سیاسی کہہ مکرنیوں کے گواہ ہیں۔ 6اکتوبر 1999ء کو ملک میں مارشل لا کی آمد آمد تھی۔ لاہور میں احتجاجی ٹرک پر عمران خان اور طاہر القادری موجود تھے۔ 12اکتوبر کو طاہر القادری موبائل پر جنرل مشرف سے ’مصروف گفتگو‘ تھے۔ طاہر القادری اکتوبر 2002ء تک مشرف کے مداح تھے۔ نومبر 2004ء کو دو عہدوں کے قانون کی آڑ میں قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا۔ 2005ء میں کینیڈا پہنچ کر دعویٰ کیا کہ انہیں تحریک طالبان اور سپاہ صحابہ سے خطرہ ہے۔ قادری صاحب نے پاکستان میں کبھی ایسے کسی خطرے کا ذکر نہیں کیا۔ جنوری 2013ء کو اچانک پاکستان تشریف لا کر اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان فرمایا۔ قادری صاحب کا ورود مسعود میمو گیٹ کا تسلسل تھا۔ جنوری 2013ء کی ایک شام طاہر القادری نے انگلی لہراتے ہوئے ’صدر، وزیر اعظم اور کابینہ برطرف‘ کرنے کا اعلان کیا۔ تین روز بعد یہ قافلہ انقلاب الٹے پاؤں واپس ہو لیا۔ اپریل 2014ء میں مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ درپیش تھا۔ روزنامہ جنگ کے صحافی مرتضیٰ شاہ سے پوچھئے کہ لندن کی کس عمارت میں طاہر القادری، عمران خان، پرویز الٰہی اور جنرل ظہیر الاسلام اکٹھے دیکھے جاتے تھے۔ 17جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن میں چودہ افراد جان سے گئے۔ طاہر القادری نے اپنے سیاسی کزن عمران خان کی حکومت میں ایک مرتبہ بھی اس خون ناحق کے لیے انصاف کا مطالبہ نہیں کیا۔ طاہر القادری ہماری تاریخ کے عجیب کرداروں میں سے ایک ہے۔ 18اکتوبر 1951ء کی صبح ڈھاکہ میں ایک دودھ بیچنے والے نے خواجہ ناظم الدین کے وزیراعظم بننے کی خبر سن کر کہا تھا، ’وہ ڈھکینہ سکنے کا نہیں‘۔ یعنی ڈھاکے والا چل نہیں سکے گا۔ عطاالحق قاسمی صاحب آپ کس کار لاحاصل میں گرفتار ہیں۔ طاہر القادری جیسے مرغ دست آموز کا محاکمہ آپ سے ’سکنے کا نہیں‘۔
بشکریہ روزنامہ جنگ