سات اکتوبر سے قبل اسرائیل میں زراعت اور تعمیراتی صنعت کو مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار فلسطینی کارکنوں اور مزدوروں کی شکل میں سستی لیبر میسر تھی۔ان کی تنخواہوں سے فلسطینی اتھارٹی کا بیس فیصد بجٹ پورا ہوتا تھا۔بلکہ دو ہزار بائیس میں تو اسرائیلی معیشت میں کام کرنے والے فلسطینی کارکنوں اور خلیجی ریاستوں میں مقیم ورکرز نے تین ارب ڈالر سے زائد رقم اپنے گھروں کو بھیجی۔یہ رقم فلسطینی اتھارٹی کے سالانہ بجٹ کے دو تہائی کے برابر تھی۔
فلسطینیوں کی اپنی کوئی کرنسی نہیں ۔ان کا کاروبار اور زرِ مبادلہ کی ترسیل اسرائیلی کرنسی شیکل میں ہوتی ہے۔گزشتہ برس فلسطینی اتھارٹی اور شہریوں کو بیرونِ ملک سے موصول ہونے والا زرِ مبادلہ جس کی مالیت لگ بھگ چودہ ارب ڈالر بنتی ہے ، تریپن بلین شیکل میں تبدیل ہو کر مقبوضہ فلسطین کی حکومت اور شہریوں تک پہنچا۔فلسطینی بینکوں کا درآمدی و برآمدی کھاتہ بھی شیکل میں ہے اور وہ اسرائیلی بینکوں کے ذریعے ہی بیرونی دنیا سے اقتصادی روابط رکھ سکتے ہیں۔
اس انتظام سے اسرائیل کو دو فائدے ہیں۔ ایک تو اس کی کرنسی مستحکم رہتی ہے اور فلسطینی اتھارٹی یا شہریوں کو بیرونِ اسرائیل سے ڈالر سمیت مختلف کرنسیوں کی شکل میں جو بھی زرمبادلہ یا امداد موصول ہوتی ہے اس کے عوض اسرائیل فلسطینیوں کو شیکل دیتا ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی درآمد و برآمد پر کسٹم ڈیوٹی اور دیگر محصولات کہ جن کی سالانہ مالیت لگ بھگ دو سو ملین ڈالر بنتی ہے جمع کرتا ہے اور پھر اوسلو امن سمجھوتے کی ایک شق کے تحت ناروے کے توسط سے فلسطینی اتھارٹی کو بھیجتا ہے۔ گویا فلسطین کی معاشی شہہ رگ مکمل طور پر اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔لیکن جب سے ناروے نے فلسطینی اتھارٹی کو مکمل سفارتی درجہ دیا ہے تب سے اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی رقم کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل نے فلسطینیوں کا معاشی گلا سختی سے دبانا شروع کر دیا۔غزہ کی دس ماہ سے مکمل فضائی ، بحری اور بری ناکہ بندی ہے۔وہاں گندم کا ایک بھی دانہ ، آٹے کا ایک بھی تھیلا اور پانی کا ایک بھی بیرل اسرائیل کی مرضی کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ غزہ کی محصور آبادی تک کوئی غذائی یا طبی امداد نہ پہنچ پائے۔ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کے پالتو گروہ ہر بین الاقوامی امدادی قافلہ جو اسرائیلی چیک پوسٹوں سے گزر کے غزہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے اس کا گھیراؤ کرتے ہیں اور لوٹ بھی لیتے ہیں۔پولیس اور فوج تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے انرا کو اسرائیل نے ایک قانون کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔لہذا انرا کے زیرِ اہتمام صحت مراکز ، اسکول ، رہائشی بستیاں اور روزگاری اسکیمیں بھی جائز فوجی ہدف بن گئی ہیں۔ اسرائیل نے تاک تاک کے انرا کے اس فلاحی ڈھانچے کو بہت حد تک ختم یا تباہ کر دیا ہے۔
سات اکتوبر کے بعد سے تمام ( ایک لاکھ ساٹھ ہزار) فلسطینی کارکنوں کو کام سے فارغ کر دیا گیا۔ چنانچہ فلسطینیوں میں بے روزگاری کا تناسب راتوں رات پینتیس فیصد تک پہنچ گیا۔مقبوضہ غربِ اردن کی کاٹیج انڈسٹری کو اسرائیلی شہریوں اور کمپنیوں نے مصنوعات کی تیاری کے جو آرڈرز دے رکھے تھے وہ بھی منسوخ کر دیے گئے۔ فلسطینیوں نے ادھار پر لاکھوں ڈالر کا جو مال اسرائیل میں سپلائی کیا۔اس کی ادائیگی بھی منجمد کر دی گئی۔لیبر کی قلت کا خلا پر کرنے کے لیے بھارت اور سری لنکا سے بڑی تعداد میں تعمیراتی و زرعی کارکن درآمد کیے گئے اور کیے جا رہے ہیں۔جب کہ کوئی فلسطینی مزدور بلا فوجی اجازت نامے کے اسرائیل میں کسی تعمیراتی یا زرعی پروجیکٹ میں چوری چھپے کام کرتا نظر آئے تو اسے فورا گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
بات یہیں پر نہیں رکی۔ مغربی کنارے پر جو کسان آبائی زرعی زمینوں پر صدیوں سے کام کرتے آ رہے ہیں۔ان کے کھیتوں کو دفاعی مقاصد کے نام پر ضبط کرنے کے قانون کی آڑ میں مرحلہ وار چھینا جا رہا ہے۔ان کے گھروں اور تجارتی مراکز کو غیرقانونی تعمیرات کے قانون کے پردے میں بلڈوزروں سے مسمار کر دیا جاتا ہے۔سیکڑوں مسلح یہودی آباد کار اسرائیلی فوج کی مکمل حفاظت میں کسانوں کے گھروں پر قبضے کرتے ہیں ، زیتون کے باغات نذرِ آتش کر دیتے ہیں اور زرعی زمینوں کے اردگرد خار دار باڑھیں لگا کے فلسطینی کسانوں کو ان کے اپنے ہی کھیتوں میں جانے سے روکتے ہیں۔
اس ماہ کے شروع میں اسرائیلی وزیرِ خزانہ بزلل سموترخ جو خود بھی ایک غیرقانونی آبادکار ہیں نے اعلان کیا کہ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کے لیے جو درآمدی و برآمدی محصولات جمع کرتا ہے۔اس میں سے سو ملین شیکل ( چھبیس ملین ڈالر ) منہا کر کے ان اسرائیلی شہریوں کے ورثا کو بطور معاوضہ دے گا جو سات اکتوبر کو حماس کے اچانک حملے میں مارے گئے۔انھوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ یہ فیصلہ فلسطینی اتھارٹی پر ایک طرح کا جرمانہ ہے کیونکہ اتھارٹی اسرائیلی قید میں موجود فلسطینی دہشت گردوں کے ورثا کو مالی مدد دے رہی ہے۔( اس وقت لگ بھگ چودہ ہزار فلسطینی نوجوان ، معمر افراد ، خواتین ، زخمی اور بیمار دہشت گرد اسرائیلی جیلوں اور اذیتی کیمپوں میں ہیں )۔
اس کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی کو واجب الادا محصولاتی آمدنی میں سے اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کو فراہم کی جانے والی بجلی ، پانی اور اسرائیلی اسپتالوں میں علاج کروانے والے فلسطینیوں کے بلز کی مد میں ایک بڑی رقم ازخود ضبط کر لی ہے۔
پچھلے ہفتے فلسطینی اتھارٹی اور معیشت کو مکمل طور پر مفلوج کر دینے کے لیے اسرائیلی وزیرِ خزانہ نے اسرائیلی بینکوں کو حکم دیا کہ وہ فلسطینیوں سے شیکل کرنسی بطور کیش قبول نہ کریں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسطینی اتھارٹی اب فلسطینی بینکوں کے ذریعے اپنے ملازمین کو نہ تنخواہیں دے سکتی ہے اور نہ ہی فلسطینی شہری ساختہ اسرائیل یا غیر ملکی اشیا کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔
امریکا سمیت اسرائیلی حلیف مغربی ممالک نے اسرائیلی بینکوں کو کیش قبول کرنے سے منع کرنے کی پابندی فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی اس اقدام کے سبب ہونے والی معاشی تباہی سے گرتی ہے تو پھر مقبوضہ علاقوں میں انتہا پسندی اور بڑھے گی اور اس کے سبب خود اسرائیلی سلامتی کمزور پڑ جائے گی۔
اس مطالبے کے ساتھ ساتھ امریکا نے اسرائیل کو ساڑھے تین ارب ڈالر کا مزید اسلحہ فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔سب کہو سبحان اللہ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس